جس نے یہ سمجھ لیا کہ دُنیا ہی سب کچھ ہے تو اُس سے زیادہ نقصان میں کوئی نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 3:51 PM IST | Tauqeer Rahmani | Mumbai
جس نے یہ سمجھ لیا کہ دُنیا ہی سب کچھ ہے تو اُس سے زیادہ نقصان میں کوئی نہیں ہے۔
مولانا رومیؒ کی ’’مثنوی معنوی‘‘ اور فرید الدین عطارؒ کی ’’تذکرة الاولیاء‘‘ میں سلطان محمود غزنوی اور ایاز کی حکمت آموز حکایات کو تفصیلاً پڑھا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک دن اس کے وفادار غلام ایاز کو بیش قیمت جواہرات پیش کئے گئے اور حکم دیا گیا کہ وہ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگائے۔ ایاز نے ان جواہرات کو دیکھ کر بلا تردد زمین پر پٹخنا شروع کر دیا۔ چند لمحوں میں تمام جواہرات چکنا چور ہو گئے۔ درباری حیرت زدہ رہ گئے اور بعض نے سلطان کے غضب سے ڈر کر ایاز کو گستاخ قرار دینا شروع کر دیا۔ مگر سلطان محمود، جو ایاز کی دانائی کو خوب جانتا تھا، مسکرا کر بولا: ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
ایاز نے ادب سے جواب دیا: ’’میرے آقا! یہ محض پتھر کے ٹکڑے تھے، ان کی اصل قیمت وہی تھی جو ہم نے ان کے لئے طے کر لی تھی۔ میں نے آپ کے حکم پر انہیں پرکھا، مگر میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میرا دل ان کی چمک دمک میں ایسا کھو جائے کہ میں ان کی حقیقت کو بھول جاؤں اور انہیں اپنی جاگیر سمجھنے لگوں۔ یہ سب فانی ہیں، ان کی محبت مجھے میری اصل منزل سے دور نہ لے جائے، اسی لئے میں نے انہیں ختم کر دیا۔ ‘‘
یہ جواب سن کر سلطان محمود نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’تم نے دنیا کی حقیقت کو پا لیا ہے، تم جانتے ہو کہ ایک مسافر کو راستے میں ملنے والی چیزوں میں محو نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اپنی منزل کی جستجو میں آگے بڑھنا چاہئے۔ ‘‘
یہی وہ شعور ہے جو ایک کامیاب انسان کو دنیا کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ دنیا کی چمک دمک، مال و دولت اور آسائشیں امتحان ہیں، جو ان میں کھو گیا وہ راہ بھٹک گیا، اور جو انہیں صرف ذریعہ سمجھ کر منزل کی طرف بڑھا، وہی کامیاب ہوا۔
سفر محض راستہ طے کرنے کا نام نہیں، بلکہ ایک شعوری تجربہ ہے، ایک ایسی داستان جس میں صبر، حکمت اور ادراک کی آمیزش ہوتی ہے۔ ہر مسافر اپنے زادِ راہ کا انتظام کرتا ہے، راستے کے نشیب و فراز کا جائزہ لیتا ہے اور ہر اتنی ہی چیزوں کو اپنے ساتھ رکھتا ہے جو منزل تک پہنچنے میں معاون ہو۔ مگر دانشمند مسافر وہی ہوتا ہے جو راستے کے ساز و سامان کو مقصد نہیں بناتا، بلکہ اسے صرف ذریعہ سمجھتا ہے۔ مسافر کو منزل کی جستجو ہوتی ہے، وہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور ہر لمحہ یہ جائزہ لیتا رہتا ہے کہ وہ اُسی راہ پر ہے یا نہیں جو اُسے منزل پر پہنچائے۔ مسافر کبھی بھی راستے کے حسین مناظر میں ایسا محو نہیں ہوتا کہ اپنی اصل منزل کو بھول جائے۔ وہ جانتا ہے کہ قیام وقتی ہے، زادِ راہ محدود ہے اور روشنی کا تعاقب ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ مسافر وہی کہلاتا ہے جو اپنی منزل کی شناخت رکھتا ہو، جسے یہ ادراک ہو کہ رستے میں ملنے والی ہر شے عارضی ہے۔ وہ ضرورت بھر استفادہ تو کرتا ہے، لیکن ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتا، وہ سائے میں رک کر آرام تو کرتا ہے، لیکن سایہ دار جگہ کو اپنا مستقل مسکن نہیں بناتا۔ اگر کسی موڑ پر راستہ گم ہوجائے تو وہ اہلِ بصیرت سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، مگر ساتھ ہی اس میں یہ شعور بھی ہوتا ہے کہ کون اسے حقیقت کی طرف بلا رہا ہے اور کون سراب کی طرف۔
انسان اس دنیا میں ایسا مسافر ہے جو وقت کی سرحدوں میں محصور، لیکن شعور کی وسعتوں کا متلاشی ہے۔ اس کا سفر ایک طے شدہ حقیقت ہے اور اس کا ہر قدم منزل کی طرف بڑھنے کا متقاضی۔ ایک دانشمند مسافر وہی ہوتا ہے جو زادِ راہ کا انتخاب حکمت کے ساتھ کرتا ہے، جو راستے کی آسائشوں کو عارضی جان کر ان میں محو نہیں ہوتا، جو سامانِ سفر تو ساتھ رکھتا ہے مگر بوجھ نہیں بننے دیتا اور ہر لمحہ اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے تاکہ بھٹکنے کی نوبت نہ آئے۔
یہ دنیا، جس میں ہم نے آنکھ کھولی، ایک سرائے اور ایک گزرگاہ ہے۔ یہاں سے ہمیں گزرنا ہے، ٹھہرنا نہیں ہے۔ مگر کتنے ہی لوگ اس راہ گزر کو مسکن سمجھ بیٹھتے ہیں، یہاں کے سائے میں آرام کو ہی مقصد بنا لیتے ہیں، اور اس عارضی قیام کو دائمی قرار دے کر اپنی حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دُنیا کے دھوکے میں آجاتے ہیں چنانچہ یا تو آسائشوں کی لطافت میں کھو جاتے ہیں آزمائشوں کی چکی میں پس کر اپنی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عقل مند وہی ہے جو راستے کی حقیقت کو سمجھ لے، جو سامانِ سفر میں فقط اتنا رکھے جتنا اسے منزل تک پہنچنے کیلئے درکار ہو، جو دنیا کی کشش کویہ درجہ نہ دے کہ وہ اس کے قدموں کی زنجیر بن جائے، اور جو کسی لمحے راہ سے بھٹک جائے تو اہلِ بصیرت سے رہنمائی حاصل کرے، مگر اس تمیز کے ساتھ کہ کون اسے حقیقت کی طرف بلا رہا ہے اور کون سراب کی طرف۔
دورِ حاضر میں مادی آسائشوں کیلئے ہونے والی دوڑ دھوپ میں انسان اپنے منصب ہی کو نہیں اپنی منزل کو بھی فراموش کررہا ہے، اُسے جتنے وسائل دستیاب ہوتے ہیں وہ اُن پر قناعت نہیں کرتا بلکہ مزید کی خواہش کرتا ہوا ایک ایسی اندھی دوڑ کا حصہ بن جاتا ہے جس میں نہ تو عبادت کیلئے اُس کے پاس وقت رہ جاتا ہے نہ ہی غوروفکر کیلئے، اُسے نہ تو وقت کے زیاں کا احساس ہوتا ہے نہ ہی زندگی کے محدود ہونے کی حقیقت کا۔
عنقریب رمضان المبارک شروع ہوگا، یہ مہینہ کتنا مبارک، کتنا عظیم، کتنا مقدس اور کتنا فائدہ بخش ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ اس کا استقبال اس عزم کے ساتھ کرنا چاہئے کہ آنے والے ماہ کو اُس طرح گزاریں گے جس طرح گزرنے کا اس کا حق ہے۔ اس میں عبادات بھی ہوں گی اور غور و فکر کیلئے بھی وقت نکالا جائے گا اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے اور رمضان کے بعد بھی اپنے معمولات پر جمے رہنے کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ۔