ہمارے معاشرے میں اہم اسلامی تاریخوں کی مناسبت سے ہونے والے جلسوں میں اب اکثر موضوع سے ہٹ کر ایسی باتیں ہوجاتی ہیں جو دینی نہیں کہی جاسکتیں۔ زیرنظر مضمون میں ان ہی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 4:19 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
ہمارے معاشرے میں اہم اسلامی تاریخوں کی مناسبت سے ہونے والے جلسوں میں اب اکثر موضوع سے ہٹ کر ایسی باتیں ہوجاتی ہیں جو دینی نہیں کہی جاسکتیں۔ زیرنظر مضمون میں ان ہی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ربیع الاول اور شعبان کے مہینے بر صغیر کے مسلم سماج میں جلسوں کے مہینے ہوتے ہیں۔ ربیع الاول میں سیرت کی مناسبت سے جلسے ہوتے ہیں اور شعبان میں دینی مدارس کی نسبت سے، اسی طرح بعض قمری مہینوں میں اس ماہ میں کسی بزرگ کے واقعہ ٔوفات کی مناسبت سے بھی جلسے کئے جاتے ہیں۔ یہ تو اہل سنت کے جلسے ہیں، شیعہ حضرات محرم الحرام اور بزرگان اہل بیت کی وفات کے ایام میں جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر اِن جلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کی جائے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو آپؐ کی حیات طیبہ سے واقف کرایا جائے تو یہ بہتر اور احسن عمل ہے؛ البتہ سیرت کے جلسوں کو با معنی بنانے، مرتب طور پر سیرت مبارکہ کو پیش کرنے اور زندگی کے معمولات میں رسولؐ اللہ کی تعلیمات اور سنتوں سے واقف کرانے کے لئے جلسوں کا انعقاد ہو تو یہ بہت مفید عمل ہے۔ اسی طرح اگر شعبان کے مہینہ میں رمضان المبارک کے اعمال کی تلقین کرنے کیلئے پروگرام ہوں، یا دینی مدارس میں تعلیم کی تکمیل کا مہینہ ہونے کی مناسبت سے جلسے منعقد کئے جائیں، مسلمانوں کو دینی تعلیم کی ضرورت اور موجودہ حالات میں ایمان کی حفاظت کے لئے مدارس ومکاتب کی اہمیت سے واقف کرایا جائے، تو یہ ایک اہم عمل ہوگا، اسی طرح مسلمانوں کے مختلف گروہ اپنے مسلک اور نقطۂ نظر کے مطابق بزرگوں کے حالات سے نئی نسل کو واقف کرانے کیلئے جلسے کئے جائیں تو اس کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے؛ البتہ ہونا یہ چاہئے کہ اس میں بزرگوں کی دینی جدوجہد کا ذکر کیا جائے، لوگوں کو عمل کی دعوت دی جائے اور اُن کے اخلاق وکردار کو اپنے اندر جذب کرنے کی بات کہی جائے تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور ان کی زندگی میں مثبت اور بہتر تبدیلی آئے۔
لیکن چند باتیں وہ ہیں، جن کا اس طرح کے تمام ہی اجتماعات میں لحاظ رکھنا ضروری ہے، ذیل میں، ان کا نمبر وار ذکر کیا جاتا ہے:
(۱) تقریر میں وہی بات کہی جائے جو معتبر ہو، اور قرآن مجید، معتبر احادیث یا صحابہ کے قول وفعل سے ثابت ہو۔ اللہ جزائے خیر دے حضرات فقہاء کرام کو کہ انہوں نے اصول متعین کر دیئے ہیں کہ چار ہی چیزیں دلیل شرعی ہیں : (الف) کتاب اللہ، (ب) سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ج) اجماع اُمت، اور (د) قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جانے والا قیاس(الموافقات للشاطبی:۳/۱۶۵) قرآن کے احکام ہمیں خود قرآن مجید سے معلوم ہوتے ہیں، معتبر احادیث کے مجموعے جیسے: بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند امام ابو حنیفہ، مسند امام احمد بن حنبل اور طحاوی وغیرہ موجود ہیں، اور موجودہ زمانہ میں مطبوعہ کتابوں کی صورت میں یا نیٹ کے ذریعہ سے تقریباً ہر عالم دین کی دسترس میں ہیں۔ اجماع اور قیاس سے جو احکام ثابت ہیں، وہ فقہ کی کتابوں میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور ہر عالم دین اپنے زمانۂ تعلیم میں استاذ کی مدد سے ان کو کتابوں میں پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ شریعت کے ان چاروں مآخذمیں فضائل بھی ہیں مسائل بھی، معتبر اور اثر انگیز واقعات بھی ہیں، عقیدہ، عبادت، معاشرت، کسب ِمعاش اور اجتماعی زندگی کی ساری تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقرر کسی بھی موضوع پر صحیح مواد پیش کرنا چاہے تو اس کیلئے یہ بہت کافی وشافی ہے، اور اس میں جومضامین موجود ہیں، ان پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے۔
یہ بھی پڑھئے:برادرانِ اسلام سے زیادہ برادرانِ وطن میں تعارفِ اسلام کی فکر کیجئے!
بدقسمتی سے بعض مقررین غیر معتبر روایات کو اس طرح نقل کرتے ہیں، گویا یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے؛ حالاں کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کی اُس نے دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا (بخاری، عن عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ، حدیث نمبر:۳۴۶۱) آج کل غیر مستند روایتوں کو تقریر میں رنگ پیدا کرنے کے لئے بیان کیا جاتا ہے اور بعض ہوشمند مقررین کہہ دیتے ہیں، ’’ دروغ بر گردن راوی‘‘ یعنی جھوٹ کا بوجھ نقل کرنے والے کی گردن پر؛ مگر یہ اپنے آپ کو اور سامعین کو دھوکہ دینا ہے، جب تک کسی بات کے صحیح ومعتبر ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے، اس کو نقل کرنا بھی جھوٹ میں داخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُس کو بلا تحقیق نقل کر دے: کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع (مسلم، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر:۵)
کرامت حق ہے، اور کسی بزرگ بلکہ عام انسان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آسکتا ہے، جو خلاف ِعادت ہو لیکن یہ دلیل شرعی نہیں ہے، اور اگر قرآن و حدیث سے اس کی تائید نہ ہوتی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، چاہے کتنے ہی بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہو؛ اس لئے ایسی باتوں کو عوامی جلسوں میں بیان کرنے سے بچنا چاہئے؛ کیوں کہ عوام میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ بزرگوں سے منقول کو ن سی بات ہمارے لئے قابل عمل ہے اور کون سی بات ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے۔ اسی طرح الہام یعنی دل میں کسی بات کا آجانا حجت نہیں ہے، جس کو دلیل بنا کر پیش کیا جائے، صرف نبی ہی کی شخصیت ایسی ہے کہ ان کا خواب بھی حجت ہے، اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا فیصلہ کیا (الصافات:۱۰۲) اور اسلام میں اذان کے الفاظ مقرر ہوئے (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۹۸) مگر انبیاء کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب نہ اس کے حق میں حجت ہے، نہ دوسروں کے، بہت سی دفعہ گمراہ لوگ خواب بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ؛ اس لئے اپنے خواب یا اپنے شیخ کا خواب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے، شریعت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
(۲) بعض مقررین کا خطاب لطائف کا مجموعہ ہوتا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنسنے ہنسانے کی بات لاتے ہیں، نوجوان نصیحت حاصل کرنے سے زیادہ قہقہہ لگانے کے لئے ان کی مجلسوں کا رُخ کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو لطیفہ کے نام پر ’’کثیفہ‘‘ یعنی گندی باتیں نقل کر جاتے ہیں، جس کو سنجیدہ اور غیرت مند لوگوں کو سننا بھی گراں گزرتا ہے، اور جس کو کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ یا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ سننا گوارہ نہیں کر سکتا، ایسی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، صرف ہنسنے ہنسانے میں بات ختم ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے: (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۹۹۰) ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: زیادہ ہنسنے سے بچو! کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتاہے۔ (سنن ترمذی، کتاب الزہد، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۲۳۰۵)
ایک بڑے عرب عالم کے بقول: مزاح دعوت کا طریقہ نہیں، تفریح کا طریقہ ہے۔ اس لئے اگر خطاب میں کہیں کوئی مختصر سا لطیفہ آجائے اور وہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں ہو تو اس کو نقل کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن اس کو بیان کا بنیادی مضمون بنا لینا درست نہیں ۔
(۳) آج کل ایک مزاج جلسوں میں شعر خوانی کا بھی ہوگیا ہے، اس کے لئے خوش آواز نوجوانوں کو دعوت دی جاتی ہے، کافی وقت اشعار سننے اور سنانے میں ضائع کیا جاتا ہے اور اب اس سے آگے بڑھ کر مقررین خود بھی اپنے خطابات میں اشعار کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے اپنے خطبات میں اشعار نہیں پڑھے، علامہ عز الدین بن عبدالسلام نے لکھا ہے کہ رسولؐ اللہ نے جمعہ، عیدین یا دوسرے خطبوں میں کبھی اشعار نہیں پڑھے؛ بلکہ ہمیشہ آپؐ کے خطاب میں قرآنی آیات اور سلیس انداز پر نصیحت کی باتیں ہوتی تھیں۔ ( فتاویٰ عز الدین عبدالسلام: ۱۹۴)
چونکہ جائز مضمون پرمشتمل اشعار کا کہنا، پڑھنا، سننا اور سنانا جائز ہے؛ اس لئے اگر موقع کی مناسبت سے ایک دو شعر کہیں پڑھ دیا جائے جو اچھے مضامین پر مشتمل ہو تو اس کی گنجائش ہے؛ مگر وہ اشعار بھی عبرت آموز اور صالح مضامین پر مشتمل ہوں، اشعار پڑھنے کی کثرت نہ ہو۔ جو لوگ نعت پڑھتے ہیں، وہ بھی مضمون کے تقدس کا لحاظ رکھیں۔ آج کل بعض نعت خواں حضرات اس قدر کھینچ کر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی سانس ہی نہ اُکھڑ جائے، اور بعض لوگ اپنی خوش الحانی کو موثر بنانے کیلئے فلمی گانوں کا طرز اختیار کر لیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اہل عشق یعنی فاسق وفاجر لوگ جو عشقیہ مضامین گاتے ہیں، ان کا طرز اختیار کرنے سے بچو۔ (شعب الایمان، عن حذیفہ بن یمان، حدیث نمبر: ۲۴۰۶) اگر انسان کی اصلاح اور معروف کی دعوت کے لئے اشعار پڑھنا اور گانا مفید ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نثر کے ساتھ ساتھ شعر بھی نازل فرماتے! مشہور بزرگ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ نے نعت خوانی کے بارے میں لکھا ہے: ’’نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کے طرز پر نہ پڑھی جائے۔ ‘‘
(فتاویٰ رضویہ: ۲۳؍ ۳۴۳)
اسی طرح بعض دفعہ لوگ نعت پڑھنے کے لئے اسپیکر کا ECHO بڑھا دیتے ہیں، جس سے گونج پیدا ہوتی ہے، الفاظ تکرار کے ساتھ ادا ہوتے ہیں، یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ مائک تو آواز کو دور تک پہنچانے کا ذریعہ ہے؛ لیکن اس میں خصوصی طور پر ایکو بڑھانا لہوولعب میں شامل ہے، حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلویؒ اپنے ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں :
’’ نعت خوانی آلات لہوولعب اور افعال لغو مثلاََ مزامیر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۷۹؍۲۶)
جلسوں میں کثرت سے نعت خوانی جلسہ کے اصل مقصد کو ختم کر دیتی ہے، کسی اہم موضوع پر کوئی خطیب عمدہ، مدلل اور موثر خطاب کر دے اور پھر آپ کسی نعت خواں سے ایک نعت پڑھوا دیجئے تو خطاب کا سارا اثر ختم ہو جاتا ہے، اور سامعین کے دل ودماغ میں صرف نعت خواں کی نغمہ ریزی کا لحن ہی باقی رہ جاتا ہے، نیز اکثر جلسوں میں نعتیں بھی ایسی پڑھی جاتی ہیں جو بہت زیادہ غلو اور مبالغہ پر مبنی اور اسلام کے تصور توحید کے بھی خلاف ہوتی ہیں، بعض دفعہ بے معنی بھی ہوتی ہیں اور بعض قطعات فنی اعتبار سے بھی بے وزن ہوتے ہیں۔
(۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلیٰ درجہ کے خطیب تھے، آپؐ کے خطابات مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐ طویل خطبہ نہیں دیتے تھے۔ (سنن ابی داود، عن جابر بن سمرہؓ، حدیث نمبر۱۱۰۷) اور آپؐ کا بیان بھی زیادہ تر قرآنی آیات اور نصیحتوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ کا خطاب مختصر ہوتا تھا اور اسی میں یہ بھی ہے کہ آپؐ ’’ تشدق اور تفہق‘‘ کو پسند نہیں فرماتے تھے (الاستذکار لابن عبدالبر المالکی:۲؍۳۶۴)۔ یاد رہے کہ تشدق سے مراد ہے: عمدہ گفتگو کرنے کیلئے جبڑے ہلا کر بات کرنا اور بلند آواز میں تقریر کرنا، اور تفہق سے مراد ہے: تکلف کے ساتھ بات کرنا اور بڑھا چڑھا کر باتیں پیش کرنا۔ حضورؐنے ایسے لوگوں کو مبغوض ترین قرار دیا ہے: (سنن ترمذی، عن جابرؓ، حدیث نمبر: ۲۰۱۸ ) اس لئے بہت لمبا خطاب اور کرخت آواز میں اپنی باتیں پیش کرنا یا گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنا حدیث کی رو سے ایک ناپسندیدہ طریقہ ہے۔
(۵) کچھ مقررین اتنا لمبا بیان کرتے ہیں، کہ تھکا دینے والا ہو جاتا ہے۔ رسولؐ اللہ تو صحابہ کی خواہش کے باوجود روز روز بیان کرنے سے بھی گریز فرماتے تھے؛ تاکہ لوگوں میں اکتاہٹ نہ پیدا ہو جائے: (صحیح بخاری، عن عبداللہ بن مسعودؓ، حدیث نمبر:۶۸ ) چنانچہ ایک بڑے محدث وفقیہ علامہ ابن عبدالبر مالکیؒ نے لکھا ہے کہ اتنا لمبا وعظ کہنا مکروہ ہے کہ ایک بات کہتے یا سنتے ہوئے آدمی دوسری بات کو بھول جائے(الاستذکار:۳۴۶/۲ )
علماء نے لکھا ہے کہ وعظ ایسا مختصر ہونا چاہئے کہ سامعین رُک کر اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں اور اس سے تاثر لیں، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب تقریر مختصر ہو۔ (حوالۂ سابق) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سب سے طویل خطبہ ارشاد فرمایا، وہ حجۃ الوداع کا خطبہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کے ساتھ مسلمانوں کی جان و مال کی حرمت، قرآن و حدیث کو تھامے رکھنے کی دعوت، رنگ ونسل کی تفریق سے اوپر اُٹھ کر لوگوں کے درمیان مساوات وبرابری کی تعلیم، زمانۂ جاہلیت میں جو سود اور انتقام لینے کا رواج تھا، اس کا رَد، خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کی نصیحت اور امانتوں کو ادا کرنے کی تاکید کے مضامین تھے، یہ خطبہ اپنی جامعیت کے باوجود نہایت مختصر ہے۔
طویل شبینہ بیانات کا نتیجہ یہ ہے کہ سامعین کی فجر کی نماز بھی قضاء ہو جاتی ہے، بعض مقررین بھی نماز ادا نہیں کر پاتے، یہ صورت حال بعض جلسوں میں مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، شب بیداری تو اصل میں عبادت، تلاوت اور ذکر کے لئے تھی، اب اس کو لوگوں نے تقریر کرنے اور سننے کے لئے کر دی ہے؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کے بعد گفتگو کرنے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات کرنے کو منع فرمایا ہے: (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۵۶۸ ) البتہ کوئی ضروری گفتگو ااور مشورہ ہو تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے؛ کیوں کہ رسولؐ اللہ بعض اوقات حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عشاء کے بعد مشورہ فرمایا کرتے تھے۔
(۶) بعض مقررین کا نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ مدرسوں کیلئے چندہ کرتے ہیں، ان کی پوری تقریر چندہ کی ترغیب پر ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو پیسوں کے خرچ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، جنت کی قیمت لاکھ دو لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور پانچ ہزار بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی کم پر ختم ہوتی ہے، انفاق کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس طرح چندہ کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ گویا پانچ سو روپیہ دیں اور جنت خرید لیں۔ یہ بہتر طریقہ نہیں ہے، اس میں حد سے گزرا ہوا الحاح اور مبالغہ آمیز خوشامد ہے۔ اولاً تو ہونا یہ چاہئے کہ نصیحت ووعظ کی مجلس کو چندہ سے الگ رکھا جائے، اور چندہ کے لئے الگ اصحاب ثروت کی نشست بلائی جائے، بہت سے ادارے ایسا کرتے ہیں، اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے، وعظ ونصیحت کے بعد چندہ کی اپیل کرنے کی وجہ سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دین کی بات مقصود نہیں تھی، مقصد صرف چندہ کرنا تھا۔ اگر اصلاحی جلسہ کے ساتھ چندہ کی اپیل کرنی ہو تو مناسب موقع پر مدرسہ کی رپورٹ پیش کی جائے، مدرسہ کی ضرورت موثر طور پر لوگوں کے سامنے رکھی جائے اور اس ضرورت کے مہیا نہ ہونے کی وجہ سے جو دشواریاں پیش آتی ہیں، ان کو بیان کیا جائے، پھر انفاق کی فضیلت پر کوئی آیت یا حدیث بیان کر کے اپیل کی جائے؛ مگر ایسی التجاء نہ ہو جو خوشامد کی حد کو پہنچ جائے اور اجروثواب کا ایسا خود ساختہ حساب نہیں کیا جائے، جس کا حدیث میں ذکر نہیں۔
(۷) جلسہ کے اندر آنے والے حضرات کے اندر بھی دینی باتوں کے سننے کا جذبہ ہونا چاہئے، اور ان کے طرز عمل سے ظاہر ہونا چاہئے۔
(۸) دین کی دعوت اور وعظ ونصیحت پیشہ نہیں ہے، عبادت ہے؛ مگر آج کل پیشہ ور واعظین نے اس کو پیشہ بنا لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بولنے کی صلاحیت دی ہے تو وہ اس صلاحیت کا استعمال وعظ ونصیحت کے پردہ میں کسب زر کے لئے کرتے ہیں، بعض حضرات نے اپنی تقریر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے، مثلاََ: پچیس ہزار، پچاس ہزار، حد تو یہ ہے کہ اگر ایک سفر میں کسی اور جگہ خطاب کرنے کے لئے عرض کیا جائے تو اس کی بھی پوری قیمت وصول کرتے ہیں، بعض حضرات کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہ دعوت دینے والوں سے کہتے ہیں کہ پہلے میرے اکاونٹ میں اتنے پیسے بھیج دیں، اس کے بعد ہی میں سفر کروں گا، یہ بہت ہی ہلکی بات ہے۔
حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے:
اگر وعظ کی نوکری کر لی مثل امامت کے، تو اُجرت لینا جائز ہے اور اگر نوکری نہیں ہے، عین وقت پر وعظ پر اجرت کی شرط کر لے تو جائز نہیں ہے، جیسے عین وقت پر امامت پر اُجرت مانگنے لگے۔ (امدادالفتاویٰ، کتاب الاجارہ: ۲۸۹/۲ )
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ اسی سلسلہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’وعظ کی اجرت پہلے سے مقرر نہ کی جائے اور واعظ کی نیت میں بھی یہ بات نہ ہو کہ مجھے ضرور کچھ رقم ملے گی، یا ملنی چاہئے، وہ محض حسبۃ للہ وعظ کہہ دے اور کوئی شخص اس کو تبرعاً کوئی رقم دے دے تو یہ رقم دینا بھی جائز ہے، اور واعظ کو لے لینا بھی جائز ہے؛ لیکن اگر اُجرت پہلے سے مقرر کر دی جائے یا واعظ اس کو ایک طریقہ بنا لے کہ وہ وعظ پر اُجرت لیا کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں، اول یہ کہ کوئی قومی ادارہ مثلاً انجمن یا دینی مدرسہ یا تبلیغی جماعت، کسی عالم کو تبلیغ دین کی غرض سے وعظ کہنے کیلئے ملازم رکھے اور اس کی اُجرت ماہانہ تنخواہ کی صورت میں مقرر کر دے تو یہ بھی جائز ہے اور متاخرین فقہاء حنفیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ (رد المحتار:۵۵/۶)
دوم : یہ کہ ہر وعظ پر اُجرت ٹھہرا کر وعظ کرے، زید کے مکان پر وعظ کرنے کیلئے پانچ ہزار روپے مانگے، عمرو سے بھی کم وبیش اتنی رقم طلب کرے تو یہ صورت اگرچہ لفظ ’’ الوعظ‘‘ کے عموم میں داخل ہے؛ مگر اس سے واعظ اور وعظ کی بے توقیری ہوتی ہے؛ اسلئے یہ صورت مکروہ ہے۔ ‘‘ (کفایت المفتی، کتاب الاجارہ: ۲۰۔ ۳۱۹/۷)
مقرر حضرات کیلئے درست طریقہ وہی ہے جو ماضی قریب کے علماء کا رہا ہے کہ انہوں نے ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے تدریس، امامت اور تصنیف وتالیف کو اپنا مستقل مشغلہ رکھا اور اس کام میں ملنے والے وظیفہ ٔ خدمت کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنایا، وہ وعظ و تقریر کا کام پیشہ کے طورپر نہیں کرتے تھے؛ البتہ آمدورفت کا کرایہ دینا تو چوں کہ میزبان کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی میزبان کسی مطالبہ کے بغیر بطور ہدیہ کچھ رقم دے دے جیسا کہ علماء کے فتاویٰ میں مذکور ہے، تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن ہدیہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا مطالبہ کیا جائے، جس کی مقدار متعین کی جائے، جس کو لازم کیا جائے اور جس کے لین دین کا معاہدہ ہو، کیوں کہ وعظ و نصیحت کی مجلس کیلئے وعظ و تقریر تو ضروری ہے؛ مگر نعتیں پڑھوانا نہ واجب ہے اور نہ مستحب، تبرکاًمدرسہ کے ہی کسی طالب علم سے نعت پڑھوالی جائے یہ بالکل کافی ہے، اس میں پیسے خرچ کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس کو عند اللہ مدرسہ کی املاک میں خیانت شمار کیا جائے؛ کیوں کہ مدارس میں جو تعاون کیا جاتا ہے، وہ اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات کیلئے ہے اور زیادہ تر یہ تعاون زکوٰۃ کی مد سے ہوتا ہے، جس کے خرچ کا دائرہ محدود ہے۔
(۹)آج کل جلسوں میں ایک ا ہم مد’’ ناظم ِجلسہ ‘‘ کی ہوتی ہے، ان کا کام ہوتا ہے رائی کو پہاڑ بنانا اور ذرہ کو آفتاب کہنا، یہ مقررین کی کچھ اس طرح تعریف کرتے ہیں کہ علم میں گویا امام غزالیؒ وامام رازیؒ اور فضل وتقویٰ میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور نظام الدین اولیاؒ ءدوبارہ پیدا ہوگئے ہوں۔ میں نے ایک جلسہ میں ایک ناظم جلسہ صاحب کو راقم الحروف کے بہ شمول مقررین کیلئے غیر معمولی القاب بیان کرتے ہوئے سنا تو بڑی کوفت ہوئی اور اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ ان کی تعریف اور اس میں مبالغہ تو بہت قابل مذمت ہے؛ لیکن مجھے اس شخص کی طلاقت لسانی اور قوت تعبیر پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے اس قدر فصاحت و خوبصورتی کے ساتھ مقرر کا برجستہ تعارف کرایا۔ یہ سن کر میرے شاگرد نے نظامت ِجلسہ پر ایک کتاب لا کر دکھائی جو دیوبند کے کسی مکتبہ کی چھپی ہوئی تھی اور اس میں اعلان کے خوبصورت جملے اور مسجع الفا ظ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آج کل جو مشہور نظماء جلسہ ہیں، وہ اس کو رَٹے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ تصنع، تکلف اور مبالغہ ایک نادرست عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹ کی جو مذمت کی ہے، وہ کسی صاحب علم سے مخفی نہیں ہے۔ آپؐ نے تو بے جا تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔ (سنن ترمذی، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر:۲۳۹۴)
بعض دفعہ مدارس کے اساتذہ، مہتمم اور ذمہ داروں کا تعارف کراتے ہیں، اگر سچ اور مبالغہ کے پیمانہ پر اُن کو تولا جائے تو اکثر وہ اسی تنبیہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس میں احتیاط کی سخت ضرورت ہے، مدارس کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ پیشہ ور ناظم ِجلسہ کو بلانے کے بجائے مدرسہ کے کسی استاذ کو یہ ذمہ داری سونپیں ؛ کیوں کہ وہ جتنے بہتر طور پر ایک عالم دین کو دعوتِ خطاب دے سکتا ہے، دوسرے لوگ بظاہر نہیں دے سکتے اور اساتذہ سے اس طرح کا کام لینے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ادارہ کے مختلف کاموں کیلئے افراد تیار ہوتے ہیں اور یہ بڑی یافت ہوتی ہے۔
(۱۰)جلسوں میں ایک بگاڑ اشتہار کے واسطے سے بھی آگیا ہے، پہلے صرف جلسہ کا ایک صدر ہوتا تھا، اس کے لئے زیر صدارت لکھا جاتا تھا، اشتہار کے اخیر میں داعی کی حیثیت سے ذمہ دار ِمدرسہ کا یا کمیٹی یا مجلس استقبالیہ کا ذکر ہوتا تھا، اب ایک تو مقررین کے ناموں کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے، اگر کسی نے آنے سے معذرت کر لی تب بھی اس کو معاف نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ کم از کم اشتہار میں اپنا نام رکھنے کی اجازت دے دیجئے؛ اس لئے بہت سے نام فرضی طور پر اشتہار میں شامل کئے جاتے ہیں، اگلا مرحلہ ہے اشتہار کے چھاپنے کا، اس میں بھی مبالغہ آمیز القاب وآداب کی فراوانی ہوتی ہے۔ اس میں سادگی لانے کی فکر کوئی نہیں کرتا، نام کے شروع میں زیادہ سے زیادہ ’’حضرت مولانا ‘‘شامل کر دیا جائے اور اخیر میں عہدہ ذکر کر دیا جائے، یہ تعارف کے لئے کافی ہے۔
آج کل زیر صدارت کے علاوہ زیر قیادت، زیر سیادت، زیر نقابت، زیر نظامت، زیر ولایت، زیر سرپرستی اور مختلف عنوانات دئیے جاتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ منتظمین، شخصیات سے اپنی عقیدت کے سبب ایسا کرتے ہیں مگر اس میں توازن ضروری ہے، کوشش یہ ہو کہ القاب مبالغہ آمیز نہ ہوں اور دعوتنامہ پڑھنے والوں کو گراں نہ گزریں۔
اسی طرح اشتہار میں ایک اور برائی ’’مصور پوسٹر اور بینر‘‘ کی پیدا ہوگئی ہے یعنی اب پوسٹر میں مقررین کی تصویریں بھی شائع کی جاتی ہیں۔ جاندار کی تصویر چھاپنا حرام ہے، اس پر اُمت کا اجماع اور اتفاق ہے، ڈیجیٹل تصویروں کے سلسلے میں اختلاف ہے کہ اس کو تصویر شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟ لیکن کوئی بھی تصویر کاغذ، کپڑے یا کسی چیز پر نقش ہو جائے تو پھر اس کے تصویر ہونے اور حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، افسوس کہ علماء اور ذمہ داران مدارس عوام کو تو خلاف ِشرع باتوں سے روکتے ہیں ؛ لیکن خود اس کے مرتکب ہوتے ہیں، جلسہ شریعت کے نام پر ہو، اس میں شریعت کے احکام بتائے جائیں ؛ لیکن وہ خود خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہو تو اس سے کیسے دین کی اشاعت کی امید رکھی جا سکتی ہے؟
(۱۱)اور ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اب ہمارے دینی جلسوں میں بھی آواز اور روشنی کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیا جاتا ہے، روشنی تو صرف اس قدر ہونی چاہئے کہ جلسہ کا پنڈال اور میدان اچھی طرح روشن ہو جائے اور آمدورفت کے راستے میں تاریکی نہ رہے، آواز اتنی ہو کہ جو سامعین آئے ہوئے ہیں، ان تک بخوبی پہنچ جائے؛ مگر ہوتا یہ ہے کہ جلسہ گاہ کے علاوہ پورے محلہ اور گاؤں میں تیز روشنی کے بلب لگائے جاتے ہیں، اور ستم یہ ہے کہ اکثر یہ روشنی بھی چوری کی ہوتی ہے، سڑکوں پر بجلی کی ترسیل کیلئے جو سرکاری وائر نصب کر گئے ہیں، ان ہی پر بلا اجازت اپنا وائر ڈال دیا جاتا ہے اور مائک اتنے زیادہ لگائے جاتے ہیں اور آواز بھی اتنی زیادہ رکھی جاتی ہے کہ پورا علاقہ تقریر کی آواز سے گونجتا رہتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند آواز سے بولنے والوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ابی امامۃ، حدیث نمبر:۷۷۲۶) یہاں تک کہ آپ ؐ نے قرآن مجید کو بھی بہت تیز آواز میں پڑھنے سے منع فرمایا اور فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں قرآن مجید کا پڑھنا بہتر نہیں ہے۔ (الدر المختار مع الرد: ۱؍۲۴۹) جب اللہ تعالیٰ کے کلام کیلئے یہ ہدایت ہے تو انسان کے کلام میں تو بدرجۂ اولیٰ اس کی رعایت ضروری ہوگی! سوچئے کیا ہم ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں ؟
اس بات کوبھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ جس آبادی میں جلسہ ہو رہا ہے، وہاں کچھ لوگ بیمار بھی ہوں گے، جن کے لئے تیز آواز نقصان دہ ہوگی، وہاں برادران وطن بھی ہوں گے، جن کو ہماری یہ آواز ناگوار گزرے گی، جیسا کہ اُن کا شور وہنگامہ ہمیں گراں گزرتا ہے، ہمارے نبی ﷺنبی رحمت تھے، آپﷺ ہر چھوٹی بڑی بات میں انسانی ضرورتوں کا لحاظ رکھتے تھے، یہ نہایت تکلیف دہ اور غیر ضروری عمل ہے، اور اس کا کوئی دینی اور دنیوی فائدہ نہیں ہے۔
(۱۲)جلسوں میں خطابات کا موضوع بھی ایک قابل اصلاح چیز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب ہمیشہ وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ہوتا تھا، علامہ ابن قیمؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات کو جمع کیا ہے، ان کو دیکھ کر صاف طور پر اس کا اندازہ ہوتا ہے، آج کل ہمارے سماج میں کتنی ہی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں غفلت، لوگوں کے حقوق سے لاپرواہی، نشہ، سود، فضول خرچی، ماں باپ کے ساتھ بُرا سلوک، عورتوں پر ظلم، میراث کی صحیح تقسیم کا نہ ہونا، اختلاف وانتشار، چغل خوری، خاندانی قرابتوں کا لحاظ نہ کرنا وغیرہ، لیکن چند مخصوص موضوعات پر ہی بار بار بات کی جاتی ہے، اور زمانہ کی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے خطاب کئے جاتے ہیں، اسی وجہ سے ہم معاشرہ کی اصلاح میں ناکام ہیں، اگرچہ اس سلسلہ میں آہستہ آہستہ اصلاح ہو رہی ہے؛ لیکن ابھی بھی بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔