• Sun, 02 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جلسے ضرور کیجئے لیکن وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اور بامقصد ہوں

Updated: February 02, 2025, 4:32 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ہمارے معاشرے میں اہم اسلامی تاریخوں کی مناسبت سے ہونے والے جلسوں میں اب اکثر موضوع سے ہٹ کر ایسی باتیں ہوجاتی ہیں جو دینی نہیں کہی جاسکتیں۔ زیرنظر مضمون میں ان ہی نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

The main purpose of meetings should be to invite people to the knowledge and practice of religion. Photo: INN
جلسوں کا اہم مقصد یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کو دین کی معلومات اور عمل کی دعوت دی جائے۔ تصویر: آئی این این

ربیع الاول اور شعبان کے مہینے بر صغیر کے مسلم سماج میں جلسوں کے مہینے ہوتے ہیں۔ ربیع الاول میں سیرت کی مناسبت سے جلسے ہوتے ہیں اور شعبان میں دینی مدارس کی نسبت سے، اسی طرح بعض قمری مہینوں میں اس ماہ میں کسی بزرگ کے واقعہ ٔوفات کی مناسبت سے بھی جلسے کئے جاتے ہیں۔ یہ تو اہل سنت کے جلسے ہیں، شیعہ حضرات محرم الحرام اور بزرگان اہل بیت کی وفات کے ایام میں جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر اِن جلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کی جائے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو آپؐ کی حیات طیبہ سے واقف کرایا جائے تو یہ بہتر اور احسن عمل ہے؛ البتہ سیرت کے جلسوں کو با معنی بنانے، مرتب طور پر سیرت مبارکہ کو پیش کرنے اور زندگی کے معمولات میں رسولؐ اللہ کی تعلیمات اور سنتوں سے واقف کرانے کے لئے جلسوں کا انعقاد ہو تو یہ بہت مفید عمل ہے۔ اسی طرح اگر شعبان کے مہینہ میں رمضان المبارک کے اعمال کی تلقین کرنے کیلئے پروگرام ہوں، یا دینی مدارس میں تعلیم کی تکمیل کا مہینہ ہونے کی مناسبت سے جلسے منعقد کئے جائیں، مسلمانوں کو دینی تعلیم کی ضرورت اور موجودہ حالات میں ایمان کی حفاظت کے لئے مدارس ومکاتب کی اہمیت سے واقف کرایا جائے، تو یہ ایک اہم عمل ہوگا، اسی طرح مسلمانوں کے مختلف گروہ اپنے مسلک اور نقطۂ نظر کے مطابق بزرگوں کے حالات سے نئی نسل کو واقف کرانے کیلئے جلسے کئے جائیں تو اس کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے؛ البتہ ہونا یہ چاہئے کہ اس میں بزرگوں کی دینی جدوجہد کا ذکر کیا جائے، لوگوں کو عمل کی دعوت دی جائے اور اُن کے اخلاق وکردار کو اپنے اندر جذب کرنے کی بات کہی جائے تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور ان کی زندگی میں مثبت اور بہتر تبدیلی آئے۔ 
 لیکن چند باتیں وہ ہیں، جن کا اس طرح کے تمام ہی اجتماعات میں لحاظ رکھنا ضروری ہے، ذیل میں، ان کا نمبر وار ذکر کیا جاتا ہے:
 (۱) تقریر میں وہی بات کہی جائے جو معتبر ہو، اور قرآن مجید، معتبر احادیث یا صحابہ کے قول وفعل سے ثابت ہو۔ اللہ جزائے خیر دے حضرات فقہاء کرام کو کہ انہوں نے اصول متعین کر دیئے ہیں کہ چار ہی چیزیں دلیل شرعی ہیں : (الف) کتاب اللہ، (ب) سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ج) اجماع اُمت، اور (د) قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جانے والا قیاس(الموافقات للشاطبی:۳/۱۶۵) قرآن کے احکام ہمیں خود قرآن مجید سے معلوم ہوتے ہیں، معتبر احادیث کے مجموعے جیسے: بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند امام ابو حنیفہ، مسند امام احمد بن حنبل اور طحاوی وغیرہ موجود ہیں، اور موجودہ زمانہ میں مطبوعہ کتابوں کی صورت میں یا نیٹ کے ذریعہ سے تقریباً ہر عالم دین کی دسترس میں ہیں۔ اجماع اور قیاس سے جو احکام ثابت ہیں، وہ فقہ کی کتابوں میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور ہر عالم دین اپنے زمانۂ تعلیم میں استاذ کی مدد سے ان کو کتابوں میں پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ شریعت کے ان چاروں مآخذمیں فضائل بھی ہیں مسائل بھی، معتبر اور اثر انگیز واقعات بھی ہیں، عقیدہ، عبادت، معاشرت، کسب ِمعاش اور اجتماعی زندگی کی ساری تفصیلات لکھی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقرر کسی بھی موضوع پر صحیح مواد پیش کرنا چاہے تو اس کیلئے یہ بہت کافی وشافی ہے، اور اس میں جومضامین موجود ہیں، ان پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:برادرانِ اسلام سے زیادہ برادرانِ وطن میں تعارفِ اسلام کی فکر کیجئے!

بدقسمتی سے بعض مقررین غیر معتبر روایات کو اس طرح نقل کرتے ہیں، گویا یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے؛ حالاں کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کی اُس نے دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا (بخاری، عن عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ، حدیث نمبر:۳۴۶۱) آج کل غیر مستند روایتوں کو تقریر میں رنگ پیدا کرنے کے لئے بیان کیا جاتا ہے اور بعض ہوشمند مقررین کہہ دیتے ہیں، ’’ دروغ بر گردن راوی‘‘ یعنی جھوٹ کا بوجھ نقل کرنے والے کی گردن پر؛ مگر یہ اپنے آپ کو اور سامعین کو دھوکہ دینا ہے، جب تک کسی بات کے صحیح ومعتبر ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے، اس کو نقل کرنا بھی جھوٹ میں داخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُس کو بلا تحقیق نقل کر دے: کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع (مسلم، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر:۵) 
 کرامت حق ہے، اور کسی بزرگ بلکہ عام انسان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آسکتا ہے، جو خلاف ِعادت ہو لیکن یہ دلیل شرعی نہیں ہے، اور اگر قرآن و حدیث سے اس کی تائید نہ ہوتی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، چاہے کتنے ہی بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہو؛ اس لئے ایسی باتوں کو عوامی جلسوں میں بیان کرنے سے بچنا چاہئے؛ کیوں کہ عوام میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ بزرگوں سے منقول کو ن سی بات ہمارے لئے قابل عمل ہے اور کون سی بات ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے۔ اسی طرح الہام یعنی دل میں کسی بات کا آجانا حجت نہیں ہے، جس کو دلیل بنا کر پیش کیا جائے، صرف نبی ہی کی شخصیت ایسی ہے کہ ان کا خواب بھی حجت ہے، اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا فیصلہ کیا (الصافات:۱۰۲) اور اسلام میں اذان کے الفاظ مقرر ہوئے (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۹۸) مگر انبیاء کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب نہ اس کے حق میں حجت ہے، نہ دوسروں کے، بہت سی دفعہ گمراہ لوگ خواب بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ؛ اس لئے اپنے خواب یا اپنے شیخ کا خواب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے، شریعت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ 
 (۲) بعض مقررین کا خطاب لطائف کا مجموعہ ہوتا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنسنے ہنسانے کی بات لاتے ہیں، نوجوان نصیحت حاصل کرنے سے زیادہ قہقہہ لگانے کے لئے ان کی مجلسوں کا رُخ کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو لطیفہ کے نام پر ’’کثیفہ‘‘ یعنی گندی باتیں نقل کر جاتے ہیں، جس کو سنجیدہ اور غیرت مند لوگوں کو سننا بھی گراں گزرتا ہے، اور جس کو کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ یا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ سننا گوارہ نہیں کر سکتا، ایسی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، صرف ہنسنے ہنسانے میں بات ختم ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے: (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۹۹۰) ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: زیادہ ہنسنے سے بچو! کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتاہے۔ (سنن ترمذی، کتاب الزہد، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۲۳۰۵) 
 ایک بڑے عرب عالم کے بقول: مزاح دعوت کا طریقہ نہیں، تفریح کا طریقہ ہے۔ اس لئے اگر خطاب میں کہیں کوئی مختصر سا لطیفہ آجائے اور وہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں ہو تو اس کو نقل کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن اس کو بیان کا بنیادی مضمون بنا لینا درست نہیں ۔ 
 (۳) آج کل ایک مزاج جلسوں میں شعر خوانی کا بھی ہوگیا ہے، اس کے لئے خوش آواز نوجوانوں کو دعوت دی جاتی ہے، کافی وقت اشعار سننے اور سنانے میں ضائع کیا جاتا ہے اور اب اس سے آگے بڑھ کر مقررین خود بھی اپنے خطابات میں اشعار کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ رسولؐ اللہ نے اپنے خطبات میں اشعار نہیں پڑھے، علامہ عز الدین بن عبدالسلام نے لکھا ہے کہ رسولؐ اللہ نے جمعہ، عیدین یا دوسرے خطبوں میں کبھی اشعار نہیں پڑھے؛ بلکہ ہمیشہ آپؐ کے خطاب میں قرآنی آیات اور سلیس انداز پر نصیحت کی باتیں ہوتی تھیں۔ ( فتاویٰ عز الدین عبدالسلام: ۱۹۴)
 چونکہ جائز مضمون پرمشتمل اشعار کا کہنا، پڑھنا، سننا اور سنانا جائز ہے؛ اس لئے اگر موقع کی مناسبت سے ایک دو شعر کہیں پڑھ دیا جائے جو اچھے مضامین پر مشتمل ہو تو اس کی گنجائش ہے؛ مگر وہ اشعار بھی عبرت آموز اور صالح مضامین پر مشتمل ہوں، اشعار پڑھنے کی کثرت نہ ہو۔ جو لوگ نعت پڑھتے ہیں، وہ بھی مضمون کے تقدس کا لحاظ رکھیں۔ آج کل بعض نعت خواں حضرات اس قدر کھینچ کر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی سانس ہی نہ اُکھڑ جائے، اور بعض لوگ اپنی خوش الحانی کو موثر بنانے کیلئے فلمی گانوں کا طرز اختیار کر لیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اہل عشق یعنی فاسق وفاجر لوگ جو عشقیہ مضامین گاتے ہیں، ان کا طرز اختیار کرنے سے بچو۔ (شعب الایمان، عن حذیفہ بن یمان، حدیث نمبر: ۲۴۰۶) اگر انسان کی اصلاح اور معروف کی دعوت کے لئے اشعار پڑھنا اور گانا مفید ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نثر کے ساتھ ساتھ شعر بھی نازل فرماتے! مشہور بزرگ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ نے نعت خوانی کے بارے میں لکھا ہے: ’’نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کے طرز پر نہ پڑھی جائے۔ ‘‘
 (فتاویٰ رضویہ: ۲۳؍ ۳۴۳)
 اسی طرح بعض دفعہ لوگ نعت پڑھنے کے لئے اسپیکر کا ECHO بڑھا دیتے ہیں، جس سے گونج پیدا ہوتی ہے، الفاظ تکرار کے ساتھ ادا ہوتے ہیں، یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ مائک تو آواز کو دور تک پہنچانے کا ذریعہ ہے؛ لیکن اس میں خصوصی طور پر ایکو بڑھانا لہوولعب میں شامل ہے، حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلویؒ اپنے ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں : 
 ’’ نعت خوانی آلات لہوولعب اور افعال لغو مثلاََ مزامیر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۷۹؍۲۶)
 جلسوں میں کثرت سے نعت خوانی جلسہ کے اصل مقصد کو ختم کر دیتی ہے، کسی اہم موضوع پر کوئی خطیب عمدہ، مدلل اور موثر خطاب کر دے اور پھر آپ کسی نعت خواں سے ایک نعت پڑھوا دیجئے تو خطاب کا سارا اثر ختم ہو جاتا ہے، اور سامعین کے دل ودماغ میں صرف نعت خواں کی نغمہ ریزی کا لحن ہی باقی رہ جاتا ہے، نیز اکثر جلسوں میں نعتیں بھی ایسی پڑھی جاتی ہیں جو بہت زیادہ غلو اور مبالغہ پر مبنی اور اسلام کے تصور توحید کے بھی خلاف ہوتی ہیں، بعض دفعہ بے معنی بھی ہوتی ہیں اور بعض قطعات فنی اعتبار سے بھی بے وزن ہوتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK