عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ چھوٹی اولادیں جنہیں نسبتاً ماں باپ کی محبت زیادہ ملتی ہے؛ وہ اس بے لوث محبت کا عموماً ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
EPAPER
Updated: May 24, 2024, 3:47 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ چھوٹی اولادیں جنہیں نسبتاً ماں باپ کی محبت زیادہ ملتی ہے؛ وہ اس بے لوث محبت کا عموماً ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ چھوٹی اولادیں جنہیں نسبتاً ماں باپ کی محبت زیادہ ملتی ہے؛ وہ اس بے لوث محبت کا عموماً ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔ حالانکہ چھوٹی اولادوں پر خصوصی نظر اور توجہ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین انہیں اپنے جیتے جی زندگی کے سفر میں بڑی اولادوں کی طرح کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ چھوٹی اولاد اور والدین کی اس محبت میں ہوتا یہ ہے کہ والدین ان کی بہتر تعلیم و تربیت اور سہولت کیلئے اپنی وسعت کے مطابق اور کبھی وسعت سے بڑھ کر پیسے خرچ کرتے ہیں اور بدلے میں کچھ چھوٹی اولادیں اپنی بے راہ روی کے ذریعے والدین کو ناقابل بیان تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں اس معاملے کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لاتعداد بچے تعلیم چھوڑ کے یا تو گھر میں بیکار بیٹھے ہیں یا ایسے کاموں میں لگ گئے ہیں جن سے ماں باپ خوش نہیں ہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں کا نشے کا عادی ہونا ہمارے معاشرہ کیلئے انتہائی تشویشناک ہے۔ مزید برآں بطور خاص چھوٹی اولادوں میں یہ رجحان زور پکڑتا جارہا ہے کہ وہ ماں باپ سے اپنی بات زبردستی منوانے کی کوشش کرتے ہیں ؛ اور نہ ماننے کی صورت میں اپنی حرکتوں سے ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انجانے خطرناک اقدام کے خوف سے والدین ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور بچے عملاً اپنی فتح کا جشن مناتے ہیں۔ اولاد چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس سے قبل کہ وہ والدین کو اذیت پہنچائے، ذیل کی حدیث پر ضرور غور کرنا چاہئے: ’’ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو قیامت تک مؤخر فرما دیتا ہے، مگر سرکشی، والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی کی سزا اللہ تعالیٰ موت سے پہلے دُنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ “(الادب المفرد) اس لئے اگر اولادیں اپنے مستقبل کو محفوظ اور تکلیف سے پاک بنا نا چاہتی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے والدین کو آزردہ خاطر نہ کریں، رنج میں مبتلا نہ کریں۔
یہ بھی پڑھئے: نامساعد حالات میں مسلمانوں کو کیاراستہ اختیار کرنا چاہئے؟
زیر بحث موضوع کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ چھوٹی اولادوں کے تئیں والدین کی محبت کبھی حد اعتدال سے آگے بڑھ جاتی ہے، اسی وجہ سے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے بچوں کے بگڑنے میں ماں باپ کا کردار بھی کسی نہ کسی درجے میں نظر آتا ہے۔ حالانکہ کسی سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ان کے لئےوہ کام کریں جس سے آپ کے محبوب کو نفع ہو نہ کہ نقصان۔ مذکورہ پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے والدین کے لئے ایک متوازن راہ عمل یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی فکر ضرور کریں ؛ کیونکہ بڑے جو سمجھتے ہیں، چھوٹوں کی رسائی وہاں تک نہیں ہوتی۔ اس لئے بڑے اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو چھوٹوں کا نقصان یقینی ہے۔ لیکن اس درمیان والدین کو یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا پیار ان کے پیاروں کے لئے نقصان دہ نہ ثابت ہو۔
ہمارے لئے یہاں سمجھنے والی ایک بات اور ہے۔ وہ یہ کہ جہاں ہمیں اپنے پیاروں سے بےجا ہمدردی نہیں کرنی چاہئے، وہیں ان کے تعلق سے بےجا تشدد سے بھی بچنا چاہئے۔ دراصل بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے جبر کا راستہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح سے بھی بچوں کی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ ناپسندیدہ راستے پر چل پڑتے ہیں۔
بچوں کو یہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ ماں باپ ان کے محسن ہیں، اس لئے وہ انہیں نہ ہی درد و کرب میں مبتلا کر یں اور نہ ہی آنسو بہانے پر مجبور کریں۔ اس طرح ان کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی بن جائے گی۔ n