اس پر فتن دور میں جب آئے دن مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، رب کا احسان ہے کہ ہمارے پاس اب بھی آزادی ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن مائک سے تقریریں سن پارہے ہیں۔ امام صاحبان کو سوچنا ہوگا کہ یہ منبر ان کے پاس امانت ہیں،اور امانت کے تعلق سے قیامت میں جوابدہی ہوگی۔
جمعہ کے دن اکثر افراد آخری لمحات میں مسجد پہنچتے ہیں ، کچھ خطبہ سنتے ہیں اور کچھ نہیں۔ تصویر : آئی این این
جمعہ کا دن تھا، لوگ جمعہ کی نمازادا کرنے کے لئے خراماں خراماں مسجد کی طرف چلے جارہے تھے۔ حالانکہ ہمارے محلے کی مسجد کافی حد تک وسیع و عریض ہے، مگر جمعہ کے دن کچھ ہی لمحوں میں بھر جاتی ہے۔ پھر نمازیوں کی صفیں مسجد کے باہر میدان میں بچھنے لگتی ہیں ، اور دیکھتے ہی دیکھتے باہر میدان بھی کھچا کھچ بھر جاتاہے۔ اگر تیار ہونے میں وقت لگا تو سمجھئے کہ نماز باہر ہی پڑھنی پڑے گی۔ خیر، اس دن مجھے تیار ہونے میں وقت لگ گیا تھا۔ اس لئے راقم نے گھر سے مصلیٰ لیا اور مسجد کے باہر والے میدان میں بچھا کر بیٹھ گیا۔ مسجد میں امام صاحب تقریر کر رہے تھے، اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ان کی آواز محلے میں دور دور تک پہنچ رہی تھی۔ راقم بھی منہمک ہوکر اما م صاحب کے بیان کو سماعت کر رہا تھا۔ کچھ وقت ہوا تو راقم کے کان میں ایک آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان کچھ کہہ رہا تھا۔ چونکہ اس واقعے کو وقوع پزیر ہوئے طویل عرصہ ہوچکا ہے، اس لئے ابھی راقم کے ذہن میں اس نوجوان کے کلمات ہو بہو تو محفوظ نہیں ، مگراس کے کلام کا مفہوم ضرور یاد ہے۔ گویا وہ امام صاحب کی تقریر پر رد عمل ظاہر کر تے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ”امام صاحب! اب بس بھی کرو، کتنا پکاؤ گے؟“ اس کی یہ بات مجھ پربہت ناگوار گزری، اور دل ہی دل میں مَیں نے سوچا کہ یہ کیسا دَورہے؟ مسجد کے امام کو بھی لوگ نہیں بخشتے اور ادب احترام کا تو بالکل بھی لحاظ نہیں رکھتے۔
ایک تو ہماری اکثریت جمعہ، رمضان اور کچھ خاص ایام کے علاوہ مسجد کا رخ بھولے سے بھی نہیں کرتی۔ وہ عبادت جسے افضل العبادات کا رتبہ ملا ہے، اس کی ادائیگی میں لوگ کافی تساہلی برتتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ہفتے میں صرف جمعہ کی نماز کیلئے آنے والوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ٹھہر کر صحیح طریقے سے امام صاحب کا خطاب سن لیں۔ خیر، راقم نے نماز ادا کی اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وقت گزرتا رہا مگر اس نوجوان کی بات میرے ذہن میں بار بار آتی رہی۔ میں سوچتا رہاکہ وہ نوجوان اتنی بڑی بات امام صاحب کے بارے بول گیا؟ میں نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ اس نوجوان نے سچ ہی کہا۔ اب آپ بھی چونک گئے ہونگے کہ راقم کی سوچ میں اتنی جلدی تبدیلی آگئی! جی ضرور، جب میں نے غور کیا تو واقعے کی گہرائی تک پہنچا اور یہ پایا کہ یہ بات من ہی من میں مَیں بھی امام صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں، فرق اتنا ہے کہ اسے زبان پر نہیں لاتا۔
یہ بھی پڑھئے:خیر خواہی و ہمدردی کا جذبہ جگانے کیلئے مذہبی بیداری ضروری ہے
آپ کی حیرانی میں اگر اضافہ ہوگیا ہو تو دل تھام کر بیٹھیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ بھی ان لوگوں کی فہرست میں آتے ہوں جو دل میں اپنے محلے کی مسجد کے امام صاحب کے بارے میں یہ بات کہتے تو ہوں گے مگر فرط ادب کی وجہ سے زبان پر نہیں لاتے۔ جی ہاں ، ہم میں سے اکثر لوگ یہی سوچ رکھتے ہیں۔ مگر ہماری اس سوچ کی وجہ یہ نہیں کہ ہم امام صاحب سے بغض رکھتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ امام صاحب کی تقریر بہت روایتی ہوتی ہے، ان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کہ ہماری سماعتیں ان کی طرف متوجہ ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ امام صاحب بس رسم ادا کر رہے ہوں۔ آج کے دور میں جہاں انسان مریخ پر رہائش کی بابت سوچ رہا ہے، چیٹ جی پی ٹی کے اس دور میں جب انسان معلومات کے سمندر سے باہر نکل کر مسجد میں جاتا ہے تو پاتا ہے کہ پوری دنیا میں بھلے ہی انفارمیشن کا طوفان آگیا ہو، مگر امام صاحب کے پاس کچھ موضوعات کے سوا کچھ نہیں جن کو بچپن سے سن سن کر ذہن و دماغ میں بوجھل پن آگیا ہے۔ ان کی تقریر بدلتے دور کے تقاضوں سے عاری ہیں اور ٹیکنالوجی کے اس دور سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔ ایسے میں پہلے ہی سے لوگوں کا ذہن بنا ہوا رہتا ہے کہ امام صاحب کی تقریر سے خاص کوئی فائدہ تو ہونے والا نہیں ، تو پہلے ہی سے مسجد میں پہنچنے میں کیا فائدہ، حالانکہ یہ سوچ غلط ہے۔ مسجد میں پہلے جانے کا اپنا ثواب ہے۔
راقم الحروف کی نیت کسی امام کی تذلیل وتحقیر نہیں ، بلکہ یہ دردِ دل ہے جس کوالفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ اس پر فتن دور میں جہاں ہماری مسجدوں پر حملے ہورہے ہیں ، اذان پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ، مسلمانوں کو اپنے رب کی عبادت سے روکا جارہاہے، ایسے میں رب کا احسان ہے کہ ہمارے پاس اب بھی آزادی ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن مائک سے تقریریں سن پارہے ہیں۔ امام صاحبان کو سوچنا ہوگا کہ یہ منبر ان کے پاس امانت ہے، اور امانت میں خیانت کر نے پر قیامت میں جوابدہی ہوگی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بہت سے امام ہیں جن کا بیان مسلمانوں کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے اور ان کو درپیش مسائل کا حل پیش کرتا ہے، مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس بات میں چنداں شک نہیں کہ اسلام ہی سب سے اچھا اور پیارا مذہب ہے لیکن ہمارے محلے میں کتنے غیر مسلم ہوں گے جو جمعہ کا بیان سن کر اسلام کی طرف آئے ہوں ؟ آج اسلام، مسلمانوں کے کردار سے نہیں جھلکتا، ایسے میں ہمارے پاس جمعہ کی دوگانہ سے قبل کا بیس،پچیس منٹ بہت ہی قیمتی ہے، جس میں ہم اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات اغیار تک پہنچا سکتے ہیں۔ شرپسند عناصر نے اسلام کی شبیہ مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تو اسلام کی سچائی لوگوں تک پہنچانے میں منبر سے کی گئی تقریریں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ خدارا اس وقت کو زیادہ کارآمد بنایا جائے۔ اگر میری باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو ایک نادان بھائی سمجھ کر معاف کردیجئے گا مگر میری باتوں پر غور ضرور کیا جانا چاہئے کہ یہ آپ کے بھائی کا حق ہے۔