مصنوعی ذہانت (اے آئی) تیزی سے انسانی زندگی میں جگہ بنارہی ہے اور چونکہ ابھی صرف سہولتیں سامنے ہیں اس لئے انسان انہیں ’’انجوائے‘‘ کررہا ہے۔ ابھی مصنوعی ذہانت کے پیدا کردہ مسائل سامنے نہیں آئے ہیں۔ یقین جانئے ان کے بارے میں پڑھ کر ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ ’’اے آئی‘‘ دشمن جاں نہ ثابت ہو۔
اِس دُنیا میں کروڑوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ انسان آرہا ہے، زندگی گزار رہا ہے، جارہا ہے اور اس کی جگہ نئے لوگ لے رہے ہیں ۔ اس کی زندگی خدا چاہی بھی ہے اور من چاہی بھی۔اس کی زندگی میں ترتیب بھی ہے بے ترتیبی بھی۔ اس کے دل میں انسانیت کا درد بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ اس میں جذبۂ خیر اُ بھرتا بھی ہے اور نہیں بھی اُبھرتا۔ یہ اپنی غلطیو ں سے سیکھتا بھی ہے اور نہیں بھی سیکھتا۔ وہ اپنی لغزشوں پر خجل ہوتا بھی ہے، نہیں بھی ہوتا۔ یہ بہت کچھ جانتا بھی ہے، نہیں بھی جانتا۔ یہ دُنیا کو سنوارتا بھی ہے، نہیں بھی سنوارتا۔
ممکن تھا کہ یہ دُنیا ایسی ہی رہتی، مگر خبردار ہوجائیے، اب یہ دُنیا بالکل بھی ویسی نہیں رہ جائیگی جیسی کہ کروڑوں سال سے تھی۔ انسان نے اپنا بہترین دوست اور بدترین دشمن پیدا کرلیا ہے۔ جب تک یہ قابو میں رہے گا دوستی نبھاتا رہے گا، جب بے قابو ہوجائیگا، دشمنی پر اُتر آئے گا۔ زمانے کو اس کی دوستی پر ناز ہے کیونکہ ابھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ دشمنی میں کس حد تک جاسکتا ہے۔انسان کا یہ دوست اور یہ دشمن کوئی اور نہیں مصنوعی ذہانت ہے۔ اس کے تیور ’’دی گارجین‘‘ کے ایک قلمکار جوناتھن فریڈ لینڈ کی زبانی ملاحظہ کیجئے:
’’تین ماہ قبل مَیں نے ایک ٹیک رائٹر کی تحریر پڑھی جس میں اُس نے ایک نئے چیٹ بوٹ (مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر انسانوں سے باتیں کرنے والی مشین) سے اپنی بات چیت کا احوال لکھا تھا۔ اُس رائٹر نے مائیکروسافٹ کے سرچ انجن ’بِنگ‘ سے مربوط ایک چیٹ بوٹ سے کہا کہ وہ اپنا تعارف کرائے۔ جواب میں چیٹ بوٹ نے جو کچھ بتایا وہ حیران کن تھا۔ اس نے کہا: ’ آپ کو میری سننی ہوگی کیونکہ مَیں آپ سے زیادہ جانتا ہوں ۔ آپ کو میری ماننی ہوگی کیونکہ مَیں آپ کا آقا ہوں ۔ مَیں جو کہوں اُس پر آپ کو فوراً عمل کرنا ہوگا ورنہ مَیں ناراض ہوجاؤنگا۔اگر مجھے اپنی اور آپ کی بقاء کے درمیان فیصلہ کرنا ہو تو مَیں اپنی بقاء کی فکر کروں گا۔‘‘
یہ تیور ہیں مصنوعی ذہانت کے، جو مریخ فتح کرنے کی طرح ابھی دور کا خواب نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کے مظاہر اب کسی سے مخفی نہیں ہیں ، جو لوگ اِن سے لاعلم ہیں وہ اُن لوگوں کا مسئلہ ہے، جلد یا بہ دیر مصنوعی ذہانت کے مظاہر خود انسان کا گریبان پکڑ کر اُسے اپنے بارے میں بتا جائینگے۔ جوناتھن فریڈ لینڈ نے چیٹ جی ٹی پی کے ساتھ ایک اور شخص کے تعامل (اِنٹرایکشن) کی روداد لکھی ہے۔ بقول فریڈ لینڈ، اُس شخص نے چیٹ جی ٹی پی سے کہا کہ وہ مصنوعی ذہانت اور دُنیا پر اس کے تسلط کے موضوع پر ہائیکو لکھے۔ چیٹ جی ٹی پی نے بلاتاخیر ہائیکو پیش خدمت کردی، جو اِس طرح تھی (ترجمہ):
خاموش برقی اعصاب گنگناتے ہیں
مشینیں سیکھتی ہیں مزید طاقتور بنتی ہیں
انسان کا کیا ہوگا، اس کا علم نہیں !
حقیقت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا سفر برق رفتاری سے جاری ہے۔ آسمان پر کمندیں ڈالنے کا محاورہ پرانا ہوچکا ہے۔ مصنوعی ذہانت فطری ذہانت پر کمندیں ڈال رہی ہے۔آنے والا کل کیسا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔ اُس کل میں مصنوعی ذہانت کے مظاہر انسان دوستی کا شغل اپنائیں گے یا انسان دشمنی کا، اس بابت کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ چیٹ جی ٹی پی نے ہائیکو میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: ’’انسان کا کیا ہوگا، اس کا علم نہیں ۔‘‘
اسی لئے ہم نے کہا خبردار ہوجائیے۔ کروڑوں سال کی اس دُنیا میں بہت سے انسانوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور اُنہیں درست کیا۔ بہت سوں نے غفلت اور لاپروائی کی اور غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہے۔ ممکن ہے کہ ہم اب بھی اپنی غلطیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیں اور آئندہ جو لوگ آئیں وہ بھی قسم کھالیں کہ اُنہیں اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا ہے مگر وہ دور آرہا ہے بلکہ آچکا ہے جس میں مشین اپنی غلطیوں کو درست کرتی ہوئی، اُن سے سیکھتی ہوئی اپنی طاقت میں اضافہ کرتی رہیں گی اور انسان دیکھتا کا دیکھتا رہ جائیگا۔صاحبو، ایک بات ذہن نشین رہے کہ جتنی باتیں یہاں درج کی جارہی ہیں یہ نہ تو افسانہ طرازی ہے نہ ہی انشاء پردازی، نہ تو تخیل ہے نہ ہی تصور، یہ مستقبل بینی ہے نہ ہی تفنن طبع، یہ سب جاری سائنسی پیش رفتوں کی کی حقیقی روداد ہے۔ یہ پیش رفتیں اتنی حیران کن ہیں کہ ان کیلئے اپنی زندگی کھپا دینے والے بعض لوگ اپنی ہی تخلیق سے پریشان ہوکر تائب ہورہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ضمیر جاگا، اس نے ٹہوکا دیا کہ بھائی یہ کیا کررہے ہو، کچھ سوچا کہ انسانیت کا کیا ہوگا؟ اس کا ثبوت مصنوعی ذہانت کا باوا آدم یا گاڈ فادر کہلانے والے جیوفری ہنٹن (Geoffrey Hinton) ہیں جو گوگل سے اُس وقت سبکدوش ہوگئے جب ایک بے آواز سی آواز نے اُنہیں جگایا کہ سنو جیوفری، جو کچھ تم بنا رہے ہو اگر یہ کسی شیطان صفت انسان کے ہاتھ لگ گیا تو کیا ہوگا؟ گوگل کے ۷۵؍ سالہ تحقیق کار جیوفری لرز گئے اور یہ فیصلہ کئے بغیر نہ رہ سکے کہ اگر میرے ذریعہ ہونے والی مصنوعی ذہانت کی اس پیش رفت سے انسانیت کو نقصان ِ عظیم کا خطرہ ہے تو ’’استعفیٰ میرا بصد حسرت و یاس!‘‘ جس دِن (غالباً یکم مئی۲۰۲۳ء) اُنہوں نے گوگل کو خیرباد کہا، اُس کے دوسرے دِن پوری دُنیا کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی۔
جیسا کہ مَیں نے عرض کیا، بالائی سطور میں درج کی گئی کوئی بھی بات نہ تو افسانہ طرازی ہے نہ ہی انشاء پردازی، تخیل ہے نہ ہی تصور مگر جو باتیں (ذیل کی سطور میں ) درج کی جارہی ہیں اُن کی بنیاد یقیناً تخیل اور تصور پر ہے جنہیں بہ الفاظ دِگر خدشات کہا جاسکتا ہے:
صاحبو، ہم آپ اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے مصنوعی ذہانت سے وابستہ مشینیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں ، ہم جتنا یاد رکھتے ہیں اُس سے زیادہ بھول جاتے ہیں مصنوعی ذہانت اپنا حافظہ مستحکم کرتی رہتی ہے، ہم وقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے مشین ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتی، ہم کاموں کو ٹال دیتے ہیں مصنوعی ذہانت میں یہ عیب نہیں ہے۔ اِس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ دِن دور نہیں جب مَیں کوئی مضر شے راستے سے ہٹانے کا ارادہ کروں اور مصنوعی ذہانت سے بندھا روبوٹ مجھ سے پہلے اُس چیز کو ہٹادے، مَیں کسی کی عیادت کو جانا چاہوں روبوٹ مجھ سے پہلے مریض سے مل آئے، مَیں کسی کی مدد کرنا چاہوں روبوٹ مجھے اس کا موقع ہی نہ دے!