• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قادر خان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک سال میں ان کی ۲۴؍ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں

Updated: June 15, 2023, 2:31 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

دراصل انہوںنےخود کو کبھی ایک طرح کے کردار میں محدود نہیں رکھا بلکہ بیک وقت وہ منفی اور مثبت کے ساتھ ہی مزاحیہ کردار بھی ادا کررہے تھے، یہی وجہ ہے کہ ۱۹۹۲ء میں ان کی ۱۷؍ فلمیں تو ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۴ء میں بالترتیب ۲۴؍ اور ۱۸؍ فلمیں ریلیز ہوئیں

Qadir Khan with Dilip Kumar in a scene from the movie `Qanun Apna Apna`
فلم ’قانون اپنا اپنا‘ کے ایک منظر میں دلیپ کمار کے ساتھ قادر خان

قادر خان ہماری فلمی دُنیا کے ایک ایسے آل راؤنڈر قسم کے فنکار تھے، جنہوں نے فلموں میں کہانی کار، مکالمہ نگار، ویلن، معاون اداکار اور مزاحیہ اداکار کے طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور فلم شائقین سے اپنی صلاحیتوں کا  لوہا بھی منوایا۔
 قادر خان ۲۲؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے مشہورِ زمانہ شہر کابل میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام عبدالرحمان تھا جو قندھار سے کابل آئے تھے۔ والدہ کا نام اقبال بیگم تھا جن کا تعلق برٹش انڈیا کے زمانے کے پُشِن قصبے سے تھا۔ان کے بچپن ہی میں، جب اُن کی عمر لگ بھگ ۸؍ برس کی تھی، اُن کے والدین میں علاحدگی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد اُن کے نانا نے اُن کی والدہ کا دُوسرا نکاح کرا دیا تھا۔ قادر خان کے تین بھائی تھے اور شمس الرحمان، فضل الرحمان اور حبیب الرحمان۔ قادر خان کی ابتدائی تعلیم ممبئی کے مقامی میونسپل اسکول میں ہوئی۔ اس کے بعد  انہوں نے اسماعیل یوسف کالج سے انٹر پاس کیا اور  پھر ممبئی یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاںانسٹی ٹیوشن آف سول انجینئرس (انڈیا) سے ماسٹر ڈپلوما حاصل کیا۔ ملازمت پوری ہوتے ہی ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۵ء کے درمیان اُن کی تقرری بمبئی کے صابو صدیق کالج آف انجینئرنگ میں لیکچرار کی حیثیت سے ہوگئی۔ 
 بمبئی میں ملازمت کے دوران قادر خان اُسی کالج کے ڈراموں میں حصہ لینے لگے جہاں وہ پڑھاتے تھے۔ ایک بار کالج کے سالانہ پروگرام میں شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار بھی موجود تھے۔ دلیپ کمار کی موجودگی میں قادر خان کو اسٹیج پر ایک ڈرامے میں پرفارمنس کرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے قادر خان کی زندگی کا رُخ ہی موڑ دیا۔ اس ڈرامے میں ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کو دلیپ کمار نے پسند کیا اور اپنی زیر تکمیل دو فلموں ’سگینہ ماہتو‘ اور ’بیراگ‘ میں اداکاری کرنے کی پیشکش بھی کر دی۔
 فلم ’سگینہ ماہتو‘ ۱۹۷۴ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس کے ہدایت کار تپن سنہا تھے۔ اس فلم میں ایک چھوٹا سا کردار کرنے کے بعد قادر خان کو بمبئی کی کئی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ملے اور وہ اپنی مسلسل جد و جہد سے اپنی پہچان بنانے میں لگے رہے۔ فلم ’بے نام، عمر قید، اناڑی اوربیراگ‘ جیسی فلموں میں انہوں نے کام کیا مگر وہ اپنی شناخت قائم نہ کر سکے۔ اِن فلموں سے اُن کےکریئر کو بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ فلم ’سگینہ‘ کے تین سال بعد  ۱۹۷۷ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’خون پسینہ‘ اور ’پرورش‘ میں اُن کے کام کی سراہنا ہوئی۔
 اِن دو فلموں کی کامیابی کے بعد قادر خان کو کئی بڑے فلمساز کی اچھی فلمیں ملیں اور اُن کی کامیابی سے قادر خان کے کریئر کو بھی کافی فائدہ ہوا۔ ۱۹۷۸ء میں امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’مقدر کا سکندر‘ میں انہوں نے ایک درویش کا کردار ادا کرکے شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں فلم ’مسٹر نٹورلال‘ اور ’سہاگ‘ میں بھی امیتابھ بچن کے ساتھ کام کرکے فلم کی کامیابی کا حصہ بنے اور پھر قادر خان لگاتار کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے۔۱۹۸۰ء میں فلم ’دو اور دو پانچ، لوٹ مار، جیوتی بنے جوالااور قربانی‘ میں قادر خان نے یادگار کردار ادا کرکے شہرت حاصل کی۔ ۱۹۸۱ء میں ’لاوارث، کالیا، شمع اور’نصیب‘ جیسی کامیاب فلموں میں بھی انہوں نے اپنی پہچان بنائے رکھی۔ ۱۹۸۱ء میں ایک فلمساز کی حیثیت سے قادر خان نے فلم ’شمع‘ بنائی تھی، جو زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔
 منموہن دیسائی کی فلم ’قلی‘ ۱۹۸۳ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس فلم میں قادر خان ایک بار پھر امیتابھ بچن کے ساتھ تھے۔ یہ فلم امیتابھ بچن کے چوٹ لگنے کی وجہ سے ریلیز ہونے سے پہلے ہی شہرت حاصل کر چکی تھی لہٰذا قادر خان کو بھی اس کی کامیابی کا فائدہ ہوا۔ ۸۶-۱۹۸۵ء میں قادر خان نے ’پاتال بھیروی، میرا جواب، انصاف کی آواز‘ اور ۱۹۸۸ء میں ’بیوی ہو تو ایسی‘، ۱۹۸۹ء میں ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ جیسی فلموں میں اداکاری کی۔
 ۱۹۹۱ء میں ان کی ۸؍ فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ’ہم، خون کا قرض، قرض چکانا ہے، دو متوالے، ناچنے والے گانے والے، سورگ یہاں نرک یہاں، اندرجیت  اور ساجن‘ شامل ہیں۔ اِن میں سے کئی فلموں کی کامیابی سے قادر خان کو کافی شہرت حاصل ہوئی اور اب وہ فلموں کا ایک اہم حصہ سمجھے جانے لگے تھے۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ قادر خان نےخود کو کبھی ایک طرح کے کردار میں محدود نہیں کیا بلکہ ایک ہی وقت میں وہ منفی اور مثبت کے ساتھ ہی مزاحیہ کردار بھی ادا کررہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ۱۹۹۲ء میں ریلیز ہوئی ۱۷؍ فلموں میں قادر خان موجود تھے۔ اگلے ہی برس ۱۹۹۳ء میں انہوںنے ۲۴؍فلموں میں کام کیا، جن میں ’انگار، آنکھیں، ظالم، زخمی اوردھنوان‘ جیسی فلموں میں قادر خان کی اداکاری کافی پسند کی گئی۔ اِن میں سے اتنی فلمیں ضرور کامیاب ہو جاتی تھیں کہ قادر خان کی مقبولیت بنی رہتی تھی۔۱۹۹۴ء میں ۱۸؍فلموں میں قادر خان نے کردار ادا کئے جن میں سے فلم ’خوددار، چھوٹی بہو، راجہ بابو، میں کھلاڑی تو اناڑی، اولاد اور گھر کی عزت‘ میں اُن کے کردار پسند کئے گئے تھے۔
 اسی طرح۹۶-۱۹۹۵ء میں ۲۲؍فلموں میں قادر خان نے کام کیا جن میں سے کئی فلموں میں ان کے کردار کو کافی پسند کیا گیا۔ اس درمیان وہ فلموں کے مکالمے بھی بڑی تعداد میں لکھ رہے تھے، لہٰذا اُن کی مصروفیت بے پناہ تھی۔ اداکار گووِندہ کے ساتھ اُن کی مزاحیہ جوڑی اچھی بن گئی تھی، لہٰذا انہوں نے گووِندہ کے ساتھ کئی مزاحیہ کردار بھی بڑی خوبی سے ادا کئے اور اُن کے مکالموں میں طنز اور ظرافت کے پہلو زیادہ نمایاں ہونے لگے تھے۔شکتی کپور کے ساتھ بھی مزاحیہ  اداکار کے طور پر قادر خان کی جوڑی کافی مقبول ہوئی اور دونوں نے تقریباً ۱۰۰؍ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔
 ایک قلمکار کے طور پر قادر خان کی فلمی زندگی کی شروعات رمیش بہل کی فلم ’جوانی دیوانی‘ کے مکالمہ نگار کے طور پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے منموہن دیسائی کی فلم ’روٹی‘ کے مکالمے تحریر کئے تھے جو بے حد پسند کئے گئے تھے۔ ۱۹۷۴ء میں ریلیز ہوئی فلم ’روٹی‘ کے مکالمے لکھنے کیلئے منموہن دیسائی نے ایک لاکھ اِکیس ہزار روپے بطور معاوضہ قادر خان کو دیا تھا۔انہوں نے دو سو سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے ہیں۔ قادر خان پرکاش مہرہ اور منموہن دیسائی کے پسندیدہ مکالمہ نگار رہے ہیں۔ اُن کی فلموں،’گنگا جمنا سرسوتی، شرابی، قلی، دیش پریمی، لاوارث، سہاگ، مقدر کا سکندر، پرورش اورامر اکبر انتھونی‘ کی کامیابی میں قادر خان کے لکھے ہوئے مکالموں کا بڑا دخل ہے۔ امیتابھ بچن کے ہیرو والی اور قادر خان کے تحریر کردہ مکالموں والی فلموں میں’مسٹر نٹور لال، خون پسینہ، دو اور دو پانچ، ستے پہ ستّا، انقلاب، گرفتار، ہم اور اگنی پتھ‘ وغیرہ نے کافی شہرت حاصل کی تھی۔ قادر خان کے لکھے ہوئے مکالموں والی  دوسری فلموںمیں ’’ہمت والا، قلی نمبر ون، میں کھلاڑی توُ اَناڑی، قانون اپنا اپنا، خون بھری مانگ، کرما، سلطنت، سرفروش، جسٹس چودھری اوردھرم ویر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 اس کے بعد قادر خان ہدایتکار ڈیوڈ دھون کے پسندیدہ اداکار و مکالمہ نویس بن گئے۔ اِن کی جوڑی امیتابھ بچن، جتیندر، فیروز خان اور گووندہ کے ساتھ خوب جمتی تھی۔قادر خان کو ۱۹۸۲ء میں پہلی بار فلم ’میری آواز سنو‘ کیلئے بہترین مکالمہ نگار کے طور پر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۹۱ء میں ریلیز ہوئی فلم ’باپ نمبری بیٹا دس نمبری‘ میں بہترین مزاحیہ اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی قادر خان کو ملا۔ ۱۹۹۳ء میں فلم ’انگار‘ میں بہترین مکالمہ نگار اور ۲۰۰۴ء میں فلم ’مجھ سے شادی کروگی‘ کیلئے بہترین معاون اداکار کے طو ر پر فلم فیئر ایوارڈ  ملے۔ تقریباً ۹؍فلموں میں بہترین مزاحیہ اداکار کے طور پر فلم فیئر ایوارڈ کیلئے وہ نامزد کئے گئے۔
 ان کے تین بیٹے، سرفراز ، شاہ نواز  اور عبدالقدوس کناڈا میں رہتے ہیں۔ خودان کے پاس بھی کناڈا کی شہریت رہی تھی۔ ۳۱؍دسمبر۲۰۱۸ء کو قادر خان کا ۸۱؍برس کی عمر میں کناڈا کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھے اور کناڈا  ہی میں زیر علاج تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK