کچھ خبریں ازخود اُڑ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ خبریں اُڑائی جارہی ہیں ۔ وہ خود سے اُڑیں یا اُڑائی جائیں ، ان کے پس پشت مقصد ہوتا ہے۔اِن دنوں کانگریس کے تعلق سے کافی خبریں عام ہیں ۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ کمل ناتھ بی جے پی کا دامن تھامنے جارہے ہیں اور کبھی منیش تیواری کے بارے میں خبروں کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
کچھ خبریں ازخود اُڑ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ خبریں اُڑائی جارہی ہیں ۔ وہ خود سے اُڑیں یا اُڑائی جائیں ، ان کے پس پشت مقصد ہوتا ہے۔اِن دنوں کانگریس کے تعلق سے کافی خبریں عام ہیں ۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ کمل ناتھ بی جے پی کا دامن تھامنے جارہے ہیں اور کبھی منیش تیواری کے بارے میں خبروں کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ ہر اُڑنے والی خبر بے پرکی نہیں ہوتی۔ ان میں دم ہوتا ہے۔ کمل ناتھ اور منیش تیواری سے قبل ملند دیوار اور بابا صدیقی کے بارے میں سنا جارہا تھا جو سچ ثابت ہوا۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوان کے بارے میں تو کافی عرصہ سے سنا جارہا تھا، بالآخر ۱۲؍ فروری کو قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہوا اور اشوک چوان، اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہوئے کئی دہائیاں کانگریس میں گزارنے کے بعد بی جے پی کے خیمے میں چلے گئے۔کہا جاسکتا ہے کہ اِن دنوں ، اس نوع کی ہر خبر سچی نہیں ہوتی مگر ہر خبر جھوٹی بھی نہیں ہوتی۔ آگ ہوتی ہے تبھی دھواں اُٹھتا ہے۔ بہرحال، یہ دور کانگریس کیلئے بڑی آزمائش کا ہے مگر یہ آزمائش پہلی بار نہیں ہورہی ہے۔ اِس سے قبل پارٹی کو کئی دھچکے لگ چکے ہیں ۔
معاملہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ازخود تاک میں رہتے ہیں کہ اُنہیں کہیں سے بُلاوا آئے اور وہ سرخیوں میں آجائیں ۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو اپنی بے چینی اور بے اطمینانی کا خاص طور پر اظہار کرتے ہیں تاکہ اُن پر توجہ ہو اور دعوت ملے۔ تیسری قسم اُن کانگریسیوں کی ہے جن پر ڈورے ڈالے جاتے ہیں اور مبینہ طور پر لالچ دے کر اپنی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ دل بدلی کرنے والے کانگریسیوں کی ایک اور قسم ہے۔ یہ چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جو ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس سے پنڈ چھڑانے کیلئے بے وفائی کے مرتکب ہوتے ہیں جسے اب گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ ایک کانگریسی خواہ کسی زمرہ میں شامل ہو، جب پارٹی چھوڑ دیتا ہے تو یہ سمجھنا کہ پارٹی کا کچھ نہیں بگڑتا بالکل غلط ہے۔ پارٹی کو چھوٹا یا بڑا نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ نئے لوگوں کے آنے سے جتنا فائدہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے اُس سے زیادہ نقصان پرانے کارکنان یا لیڈران کے پارٹی چھوڑنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نوجوان پارٹی میں شریک ہوتا ہے تو خبر نہیں بنتی، کوئی سینئر پارٹی چھوڑتا ہے تو خبر بنتی ہے۔ گزشتہ دس سال میں کانگریس چھوڑ کر دیگر پارٹیوں بالخصوص بی جے پی کا رُخ کرنے والوں کے نام لکھتے چلے جائیے، دیکھتے ہی دیکھتے ایک طویل فہرست آپ کے سامنے ہوگی۔ اس سے ہونے والا نقصان ہر خاص و عام کے سامنے ہے۔ ان حالات میں پارٹی اعلیٰ کمان کو چاہئے کہ جانے والوں کا غم کرنے کے بجائے وقت رہتے اُن کے مسائل کو سمجھ لیا جائے اور اگر ممکن ہو تو حل کیا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پارٹی اعلیٰ کمان کے سامنے سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ کس کس کو مطمئن کیا جائے۔کانگریس اپنے لوگوں کو جس قدر نواز سکتی تھی، نواز چکی۔ اب اس کے پاس نوازنے کا اختیار نہیں بلکہ لوگوں پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے نوازیں مگر وہ ہل من مزید پر یقین رکھنے والے ، پارٹی کا احسان فراموش کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جب تک پارٹی کی انتخابی کارکردگی اور نوازنے کی صلاحیت نہیں بڑھے گی، اُسے داغ مفارقت دینے والوں کی تعداد کم نہیں ہوگی، اس لئے، دیکھتے جائیے اور گنتے جائیے۔ نظریاتی وابستگی کی اہمیت کو صفر کردینے کے اس دور میں دیگر پارٹیاں تو بھگت ہی رہی ہیں ، کانگریس مزید بھگتے گی، یہ طے ہے۔