• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کمل ناتھ، گہلوت اور بھوپیش نےکھرگےاور راہل گاندھی کی حصولیابیوں پر پانی پھیردیا

Updated: December 10, 2023, 3:19 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخابی نتائج نے قومی سیاست میں کانگریس کی پوزیشن کو بہت کمزور کردیا ہے۔

Mallikarjun Kharge and Rahul Gandhi worked hard but their efforts went in vain. Photo: INN
ملکارجن کھرگے اور راہل گاندھی نے کافی محنت کی لیکن ان کی محنت رائیگاں گئی۔ تصویر : آئی این این

مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے انتخابی نتائج نے قومی سیاست میں کانگریس کی پوزیشن کو بہت کمزور کردیا ہے۔ اس نتیجے نے کانگریس کو صرف مذکورہ تین ریاستوں میں اقتدار سے دور نہیں کیا بلکہ لوک سبھا انتخابات کیلئے تشکیل دیئے گئے ’انڈیا‘ اتحاد میں بھی اسے ’بونا‘کردیا ہے۔ اس ’اتحاد‘ میں اب وہ ایک قائد کے طورپر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئی ہے۔ شکست پارٹی کی ہے،اسلئے خمیازہ بھی پارٹی ہی کو بھگتنا ہے لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس شکست کیلئے پارٹی کی مرکزی قیادت سے کہیں زیادہ ذمہ دار ریاستی قیادت ہے۔ ریاست میں پارٹی کی کمان سنبھالنے والے لیڈروں نے نہ صرف ہماچل پردیش اور کرناٹک میں پارٹی کی کامیابی کے سلسلے کو روک دیا بلکہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعدراہل گاندھی کو ملنے والی عوامی مقبولیت اورقومی سیاست میں پارٹی سربراہ کے طورپر ملکارجن کھرگے کے بڑھتےاثرات اور دبدبے کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ کانگریس پارٹی ملک کی ایک اُمید بنتی جارہی تھی، دلت، مسلمان اور پسماندہ طبقات جنہوں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اب اس کاہاتھ تھامنے لگے تھے، اس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیاں آگے بڑھنے کو تیار نظر آرہی تھیں ، اکھلیش، ممتا اور کیجریوال جیسے لیڈران نےبھی کانگریس کی بالادستی قبول کرلی تھی لیکن .... کمل ناتھ، گہلوت اور بھوپیش نے خود کو بڑا اور برتر ثابت کرنے کی کوشش میں ملکارجن کھرگے، راہل گاندھی اوراپنی پارٹی کی ان تمام حصولیابیوں پر پانی پھیر دیا۔
 مذکورہ تینوں ریاستوں کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد شکست قبول کرتے ہوئے راہل گاندھی نے جو کچھ کہا، وہ انہیں دوران انتخابات کہنا چاہئے تھا اوراس پرعمل بھی کرنا چاہئے تھا۔بقول راہل ’’ہم پوری انکساری کے ساتھ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں  عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں ، اسی کے ساتھ ہم یہ بھی دُہراتے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ نظریات کی لڑائی جاری رہے گی۔‘‘ ان کا یہ بیان صرف ایک دعویٰ ہے، انہیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا ان کی پارٹی نے مذکورہ تینوں ریاستوں میں نظریات کی لڑائی لڑی ہے؟ یہ موقع ہے احتساب کا راہل گاندھی کیلئے بھی اور ملکارجن کھرگے اور ان کی پارٹی کیلئے بھی۔ کیونکہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے نظریات کی لڑائی لڑنے کے بجائے خود کو بی جے پی کے رنگ میں رنگنےکی کوشش کی بلکہ کئی مواقع پر ایسا بھی محسوس ہوا کہ کمل ناتھ، بگھیل اور گہلوت میں اس بات کی بھی مقابلہ آرائی ہے کہ کو ن زیادہ ہندوتوا وادی ہے۔کمل ناتھ نے اگر بدنام زمانہ یوٹیوبر دھیریندر شاستری کو مدعو کرکے مدھیہ پردیش کو ’ہندوراشٹر‘ کا حصہ بنانے کی کوشش کی تو بگھیل نے ’کانوڑ یاترا‘ نکال کر خود کو زیادہ ’ہندوتواوادی‘ ثابت کیا۔ گہلوت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے گوبر کی سیاست کرکے خود کو زعفرانی نظریات سے ہم آہنگ کیا۔ گہلوت اس سے پہلے بھی ہندوتواوادیوں سے قربت کے اظہار کیلئےمسلمانوں سے ایک فاصلہ بنا کر چلتے رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی پولیس جہاں ایک جانب مونو مانیسر کو گرفتار کرنے سے بچتی رہی وہیں ان کی حکومت کی یہ کوشش بھی رہی کہ اس کا نام ناصر اور جنید سے نہ جڑنے پائے۔

 کیا ہم اسے نظریات کی جنگ کہہ سکتے ہیں؟  ویسے یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہےکہ اس الیکشن میں راہل گاندھی اورملکارجن کھرگے کی ایک نہیں چلی ہے۔ کمل ناتھ، گہلوت اور بگھیل نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کئی معاملات میں نچلا بیٹھنے پر مجبور کیا ہے اور اپنی چلائی ہے جس کا خمیازہ آج جہاں وہ خود بھگت رہے ہیں، وہیں ان کی پارٹی، انڈیا اتحاد اورملک کے سیکولر عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے دوران ان تینوں ہی لیڈروں نے خود کو پارٹی  سے الگ راستے پر ڈال دیا تھا۔ پارٹی سیکولر نظریات پر الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن انہوں نے ہندوتواواد پر الیکشن لڑنے کو ترجیح دی۔ پارٹی اتحادی جماعتوں کی مدد سے انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی تھی لیکن کمل ناتھ، گہلوت اور بھوپیش نے اس کی مخالفت کی اور تنہا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکزی قیادت بھی ریاستی قیادت کے دباؤ میں آگئی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ  کے انتخابات میں کانگریس نے ملک اورعوام کو مخمصے میں ڈال رکھا تھا۔ شکست کے بعد ہی سہی، اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر غور کرےکہ کرناٹک  کے عوام نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ اور اب ذلت و رسوائی اس کا مقدر  ہوئی ہے تواس کے اسباب کیا ہیں؟کانگریس ایمانداری سے اس پر غورکرے تو شاید وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہیں۔اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ
کرناٹک میں کانگریس ایک واضح لکیر کے ساتھ میدان میں اُتری تھی۔ اپنے قول و عمل سے اس نے ثابت کیا تھا کہ اس لکیر کے ایک طرف وہ ہے تو دوسری طرف اس کی مخالف جماعتیں۔ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف والی بات تھی لیکن مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں نظریات کی وہ لکیرپوری طرح سے خلط ملط کردی گئی ۔ بسا اوقات تو یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہوگیا تھاکہ بات کانگریس کی ہورہی ہے یا بی جے پی کی؟  لوگ حیران تھے کہ کرناٹک میں بجرنگ دل پر پابندی کی بات کرنے والی کانگریس اِن ریاستوں میں بجرنگ دل کے حامیوں سے آشیرواد مانگ رہی  ہے۔ کرناٹک میں جو کانگریس مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ کھڑی تھی، ان کے ریزرویشن کو بحال کرنے کا وعدہ کررہی تھی،وہی کانگریس ان ریاستوں میں اقلیتوں کا نام تک لینے سے گریز کررہی تھی۔ یہاں تک کہ پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی بھی مندروں اور مٹھوں  کے چکر لگاتے نظر آئے۔ کانگریس کی مرکزی قیادت ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا تذکرہ تو کرتی تھی لیکن غلطی سے بھی وہ مسلمانوں یا دیگراقلیتوں کا نام نہیں لیتی تھی۔ ایسے میں وہ لوگ جو نظریات کی وجہ سے کانگریس کی طرف آئے تھے یا آنے کی بات سوچ رہے تھے، وہ اب کیوں کر کانگریس کے ساتھ آتے؟ انہیں اگرہندوتوا ہی کا انتخاب کرنا تھا تو وہ اصلی کے سامنے نقلی ہندوتوا کا انتخاب کیوں کرتے؟
دوسری وجہ
کرناٹک میں کانگریس نے مرکزی قیادت کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے الیکشن لڑا تھا جبکہ مذکورہ تینوں ہی ریاستوں میں اعلیٰ قیادت پوری طرح سے بے بس نظر آئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مرکزی قیادت نے خود کو ریاستی قیادت کے حوالے کردیا تھا۔ کرناٹک میں بھی  سدارمیا اور ڈی کے شیو کمار کی صورت میں گروہ بندی تھی لیکن وہاں دونوں ہی گروپوں نے الیکشن جیتنے کیلئے پوری جان لگا دی تھی۔ اس کے برعکس راجستھان میں گہلوت ۔ پائلٹ، مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ ۔ دگ وجے اور چھتیس گڑھ میں بھوپیش ۔ ٹی ایس سنگھ دیو جیتنے سے زیادہ ایک دوسرے کو ہرانے میں لگے ہوئے تھے۔  یہ بات پارٹی سے پوشیدہ تھی نہ ہی عوام سے، جس کا خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا ۔
تیسری وجہ
 مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں شکست کی تیسری وجہ مقامی قیادت کی انانیت اور برتری کااحساس رہا ہے۔  انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل کانگریس کی ایما پر ’انڈیا‘ اتحاد نے بھوپال میں ایک متحدہ ریلی کا فیصلہ کیا تھا لیکن کمل ناتھ نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی ’جیت‘ میں کوئی حصہ دار بنے۔ان کی خود اعتمادی، خوش فہمی کی دیوار پھلانگ کر خود فریبی کی منزل تک پہنچ گئی تھی جس نے انہیں بعد میں خود فراموشی میں مبتلاکردیا۔ ۹؍ مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والے۷۷؍ سالہ سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کا ’انڈیا‘ اتحاد کے اہم رکن اورسماجوادی پارٹی کے سربراہ کو ’اکھلیش وکھلیش‘ کہنا خود فراموشی نہیں تو آخر کیا تھا؟ ۲۳۰؍ رکنی اسمبلی میں سماجوادی پارٹی صرف ۶؍ سیٹیں مانگ رہی تھی۔ یہ وہ ۶؍ سیٹیں تھیں جہاں ۲۰۱۸ء کے اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی ایک سیٹ جیتی تھی اورپانچ سیٹوںپر دوسری پوزیشن پر تھی۔ مجموعی طور پر اسے تقریباً ۵؍ لاکھ (۱ء۳؍ فیصد) ووٹ ملے تھے۔کانگریس پارٹی کی اپنی سوچ کے مطابق اگر یہ مطالبہ بے جا تھا تو بھی ملک کے موجودہ حالات  کے پیش نظر اسے اس مطالبے کو قبول کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہئے تھا۔ ایسا کرنے سے بالآخراسے ہی فائدہ ہوتا۔ کچھ اسی طرح راجستھان میں ’بھارت آدیواسی پارٹی‘ بھی کانگریس سے اتحاد کی خواہش مند تھی لیکن اس کی پیشکش بھی گہلوت نے مسترد کردی تھی۔ صورتحال یہ رہی کہ ۲۰۰؍ رکنی اسمبلی میں کانگریس ۶۹؍ سیٹوں پر سمٹ گئی جبکہ نئی نویلی’بھارت آدیواسی پارٹی‘ تین سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی اورکئی سیٹوں پر دوسری پوزیشن پر رہی۔ مدھیہ پردیش میں بھی اسے ایک سیٹ ملی۔ اگر کانگریس ،اتحادی جماعتوں  کے ساتھ آگے بڑھتی تو آج انتخابی نتائج کچھ اور ہوتے، ٹیلی ویژن پر اینکرس کچھ اور تبصر ے کررہے ہوتے، ’انڈیا‘ اتحاد کے حوالے سے کچھ دوسرے انداز میں گفتگو ہورہی ہوتی اور ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا کے تعلق سے کچھ الگ قسم کی پیش گوئیاں ہورہی ہوتیں۔
خیر جو ہونا تھا، ہوچکا۔ اب آگے کیا کرنا ہے، کانگریس کو اس پر غور کرنا ہے۔احتساب کرنا ہے تو سچائی کے ساتھ کرنا ہے، برائے نام نہیں کرنا ہے۔ مذکورہ تینوں ہی ریاستوں میں اسے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی اس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن پانے کیلئے بہت کچھ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK