• Tue, 21 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری‘‘

Updated: January 11, 2025, 1:35 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

یہ اقبال کا مصرعہ ہے،ظاہر ہے ایسے ہی نہیں کہہ دیا گیا ہوگا۔ قوت ِحیدری کا مدار نانِ شعیر (جو کی روٹی) پر کیسے ہوسکتا ہے؟ اس اہم سوال کا جواب اسلاف کی تاریخ میں موجود ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ذرا اِس منظر کو ملاحظہ کیجئے: ایک خستہ حا ل مکان میں  ایک شخص بیٹھا ہواکچھ لکھ رہا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔ وہ اسی طرح بیٹھ کر لکھتا ہے۔ ایک ملاقاتی اجازت لے کر کمرے میں  داخل ہوتا ہے اور اُس خستہ حال مکان کے ایک شکستہ بورئیے پر بیٹھ جاتا ہے۔ اب وہ شخص اپنے ملاقاتی سے بات چیت بھی کررہا ہے اور اُس کے سوالو ں کے جواب بھی دے رہا ہے۔ اُس کی پشت پر ایک پھٹا پُرانا پردہ لٹک رہا ہے۔ وہ پردے کے پیچھے سے کچھ نکالتا ہے اور منہ میں  رکھ لیتاہے۔ پھر گڑ کی ڈلی سے تھوڑا سا گڑلے کر نوش جاں  کر لیتا ہے۔ ایسا کئی بار ہوتا ہے۔ ملاقاتی خاموشی سے یہ منظر دیکھتا جاتا ہے مگر اُس میں  کچھ پوچھنے کی تاب نہیں  ہے۔ کافی دیر گزر جاتی ہے۔ جب ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو ملاقاتی عرض کرتا ہے کہ آپ کیا کھا لیتے ہیں ، کچھ ہمیں  بھی عطا کیجئے۔ یہ سن کر وہ شخص پردے کے پیچھے سے مٹی کا ہنڈا نکال لیتا ہے جس میں  پانی میں  بھیگی ہوئی سوکھی روٹیاں  ہیں ۔ گڑ کی ڈلی بھی میز پر رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کھاؤ، فقیروں  کا کھانا تم رئیس نہ کھا سکو گے۔ یہ غذا دیکھ کر ملاقاتی آبدیدہ ہوجاتا ہے، اس پر وہ شخص اطلاعاً کہتا ہے کہ آج تیسرا فاقہ ہے، شکر ہے سوکھی روٹی میسر آگئی، بڑی تسکین ہوئی۔
 یہ نہ تو کسی فلم کا منظر ہے نہ ہی کسی کہانی یا افسانے کا اقتباس۔ یہ سچا واقعہ ہے۔ جس شخص پر تیسرے روز بھی فاقہ تھا وہ فاقہ کا عادی ہے۔ اُسے پیٹ بھر کر کھانے میں  اتنا لطف نہیں  آتا جتنا بھوک کو آزمانے میں  آتا ہے۔ اُس کے ہاں  روزانہ مرغن غذائیں  پہنچ سکتی ہیں  مگر وہ اپنی عزت نفس اور خودداری کے معاملے میں  اتنا حساس ہے کہ بھوکا رہنا گوارا کرلیتا ہے، کسی سے کچھ طلب کرنا گوارا نہیں  کرتا۔ اُس کے مزاج میں  طلب تو کیا، حسن طلب بھی نہیں  ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں  گے کہ جب یہ کہانی اور افسانہ نہیں  ہے تو پھر یہ کس شخص کی بات ہورہی ہے؟ اس کا جواب جلد ہی مل جائے گا اس کے پہلے ذرا اس شخص کے بارے میں  اور بھی کچھ جان لیجئے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں  کسی نے لکھا ہے کہ ’’اِس کی طرز زندگی اور شخصیت نے مفلسی اور ناداری کا سر ہمیشہ اونچا رکھا۔ پاؤں  میں  معمولی چپل، سر پر معمولی ٹوپی، بدن پر معمولی سا لباس، کوئی معمولی سے معمولی آدمی بھی اس کے پہلو میں  کھڑا ہوجاتا تو کبھی اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھتا بلکہ تسکین پاتا۔ یہ عظمت ِ فقر غیور تھی!‘‘ 
 نئی نسل کے قارئین کی خاطر عرض ہے کہ ’’عظمت فقر غیور‘‘ کا معنی ہے ایک غیرت مند شخص کی بے سرو سامانی، سادگی اور درویشی  کی عظمت جسے فقر یعنی فقیری کہا گیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں  گے کہ یہ کسی کہانی یا افسانے کا کردار نہیں  ہے،سچا واقعہ ہے اور جس شخص کا ذکر کیا جارہا ہے وہ کوئی خیالی شخصیت نہیں  ہے تو پھر کون ہے؟ 
 یہ ابھی تھوڑی دیر میں  ظاہر ہوجائیگا مگر اس سے قبل اِس شخص کے متعلق یہ بھی جان لیجئے کہ نہایت عسرت میں  زندگی گزارنے والا یہ شخص ایک بار بذریعہ ریل سفر کررہا تھا کہ ایک سائل نے کپڑے کا سوال کیا، اس شخص نے فوراً اپنی اچکن اُتار کر سائل کو دے دی اور صرف بوسیدہ قمیص پہن کر آگے کاسفر طے کیا۔ 
 اس سے قبل کہ آپ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجائے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بتا دیا جائے کہ یہ درویش صفت انسان کوئی اور نہیں  عظیم مجاہد آزادی، بلند مرتبہ صحافی اور قدآور شاعر حسرت موہانی ہیں  جن کی ولادت کا ۱۵۰؍واں  سال جاری ہے اور اس حوالے سے ملک کے مختلف مقامات پر چھوٹی بڑی تقریبات یا تو منعقد کی جارہی ہیں  یا ان کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ حسرت کو بحیثیت مجاہد آزادی جاننے اور ماننے والے کم ہی رہ گئے ہیں ۔ بحیثیت شاعر اُن کے نام سے واقفیت ضرور ہے مگر اُن کے شاعرانہ مرتبے کے بارے میں  جاننے کا یارا کسی میں  نہیں ۔ ویسے بھی یہ دُنیا اب یاد رکھنے سے زیادہ بھولنے پر یقین کرنے لگی ہے۔ محسنوں  کو بھی بھول جاتی ہے۔ یکے بعد دیگرے سب کو فراموش کرتے ہوئے چلنا اس کا شعار بن گیا ہے، کسی کو یاد رکھنے اور یاد کرنے کا اس کے پاس نہ تو وقت ہے نہ دماغ، علم بھی نہیں  ہے کہ کون کون تھا، کیا تھا، اس نے کیسے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے اور ملک و قوم پر اُس کا کتنا احسان ہے۔
  حسرت کو تین زاویوں  سے یاد کیا جانا چاہئے: (۱) ایک شیر دل مجاہد آزادی جس کی بے شمار خدمات میں  سے ایک یہ ہے کہ دوسری کسی بھی شخصیت سے پہلے حسرت ہی نے مکمل آزادی،ٹوٹل انڈیپینڈنس، کا مطالبہ کیا تھا (۲) ایک عظیم شاعر جو اپنے دور سے لے کر آج تک کے شعراء کو متاثر کرتا ہے اور (۳) ایک قلندرانہ شخصیت جس کی جتنی پرتیں  کھلتی ہیں  وہ شخص اُتنا ہی دلوں  میں  اُترتا جاتا ہے۔ بلاشبہ حسرت کی سیاسی و ادبی خدمات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر اب سے تین چار دہائیوں  پہلے تک جو لکھا گیا وہی لکھا گیا، بعد کے لوگوں  نے اُن کی پہلودار شخصیت کو نئے زاویوں  سے دیکھنے کی کوشش کی نہ ہی جلسوں  اور سمیناروں  کے ذریعہ عوام سے تفصیلی تعارف کی ضرورت محسوس کی۔ اسکول ، ادارہ یا سڑک کو حسرت سے منسوب کردینا اُن کی خدمات کے اعتراف کا واحد طریقہ نہیں  ہے۔ 
 اس مضمون نگار کو اُن کی شخصیت کے جو محاسن قابل رشک معلوم ہوتے ہیں  وہ اُن کی سادگی اور درویشی کے علاوہ کچھ حاصل کرنے کے بجائے کچھ دینے کی خصوصیت ہے۔ ایک تنگ دست کیا دے سکتا تھا؟ اس کے باوجود حسرت نے بہت کچھ دیا اور اب بھی اُن کا ہاتھ اوپر ہے، نیچے نہیں  ہے۔ ابتدائی سطروں  میں  جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس مختصر واقعہ میں  بھی کچھ ایسا ہے جو ہمیں  دیتا ہے،ہم سے لیتا کچھ نہیں  ہے۔ اُس واقعہ میں  جو ملاقاتی حسرت کے خستہ و شکستہ مکان میں  آیا تھا وہ کانپور کا ایک بڑا تاجر تھا جو حسرت کے نیازمندوں  میں  تھا۔ اُس کا اُن کے مکان پر آکر ایک پھٹے پرانے بورئیے پر بیٹھنا اور حسرت کو سوکھی روٹی کھاتا ہوا دیکھ کر آبدیدہ ہوجانا کیا ہے؟ آج کے دور میں  یہ باتیں  انہونی ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ اب شخصیتیں  متاثر نہیں  کرتیں  اور اُن سے استفادہ ممکن نہیں  رہا، لوگ  اپنے ساتھ قافلہ لے کر چلتے ہیں  اور چند حواریوں  اُن کیلئے راستہ ہموار کرنے پر مامور رہتے ہیں ۔ یہ شخصیتیں  کار سے تو کبھی کبھی اُتر جاتی ہیں ، دلوں  میں  نہیں  اُترتیں ۔ کیاد ل میں  اُترنے والے اب عنقاہیں ؟

urdu books Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK