نئی ریاست ِ تلنگانہ کو قائم ہوئے آٹھ سال گزر چکے ہیں اور تبھی سے کلواکنتلا چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) اس کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
EPAPER
Updated: January 20, 2023, 11:09 AM IST | Mumbai
نئی ریاست ِ تلنگانہ کو قائم ہوئے آٹھ سال گزر چکے ہیں اور تبھی سے کلواکنتلا چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) اس کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
نئی ریاست ِ تلنگانہ کو قائم ہوئے آٹھ سال گزر چکے ہیں اور تبھی سے کلواکنتلا چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) اس کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اُن کی ریاست میں ۸۵؍ فیصد اکثریتی طبقے کے لوگ ہیں جبکہ ۱۲؍ فیصد مسلمانوں سمیت لگ بھگ ۱۵؍ فیصد اقلیتی طبقے کے عوام ہیں۔ کے چندر شیکھر راؤ اُن خوش نصیب وزرائے اعلیٰ میں سے ایک ہیں جنہیں اپنی ریاست میں اقتدار مخالف ووٹ یا لہر کا کوئی شدید خطرہ نہیں ہے۔ ریاست نئی ہی نہیں، مختصر بھی ہے جس کی آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ ۲۰۱۸ء کے اسمبلی انتخابات میں یہاں کے سی آر کی پارٹی ہی کا دبدبہ قائم رہا جو پہلے ٹی آر ایس کہلاتی تھی، اب بی آر ایس کہلاتی ہے۔ ۱۱۹؍ سیٹوں میں سے ٹی آر ایس کو ۸۸، کانگریس کو ۱۹، ایم آئی ایم کو ۷، ٹی ڈی پی کو ۲؍ اور صرف ایک سیٹ بی جے پی کو ملی تھی۔ لوک سبھا کی یہاں ۱۷؍ سیٹیں ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں، ان ۱۷؍ میں سے ٹی آر ایس نے ۹، بی جے پی نے ۴؍، کانگریس نے ۳؍ اور ایم آئی ایم نے ایک سیٹ جیتی تھی۔
اس میں شک نہیں کہ یہاں ٹی آر ایس (اب بی آر ایس) کا کوئی بڑا مدمقابل نہیں ہے اور سابقہ الیکشن میں ہزار کوشش کے باوجود بی جے پی تو بالکل نہیں ہے، اس کے باوجود بی جے پی کے خلاف جس طرح کی محاذ آرائی ٹی آر ایس اور کے سی آر نے کی ویسی کسی اور وزیر اعلیٰ یا ریاستی و علاقائی لیڈر نے نہیں کی۔ اگر اس پارٹی اور کانگریس میں تال میل ہوجائے تو بی جے پی کو آئندہ کئی الیکشنوں میں ریاست کی سیاست میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا مگر نہ تو ٹی آر ایس کے دل میں کانگریس کیلئے کوئی گوشہ ہے نہ کانگریس کے دل میں ٹی آر ایس کیلئے کوئی جذبہ۔ اسی لئے بی جے پی کو محسوس ہوتا ہے کہ شمالی ہند میں اپنا سکہ چلا لینے کے بعد وہ جنوبی ریاستوں میں بھی قابل لحاظ موجودگی کو یقینی بناسکتی ہے۔ حالانکہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود جنوب میں بی جے پی کیلئے اب بھی زمین سخت ہے سوائے کرناٹک کے جہاں اسے اقتدار میں آنے کا موقع ملا مگر فی الحال جو اقتدار ہے وہ کیسے حاصل کیا گیا اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔
تو کیا کانگریس اور ٹی آر ایس میں یگانگت اور سیاسی و انتخابی اتحاد نہیں ہوسکتا؟ لگتا تو یہی ہے کہ یہ انہونی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت دو روز قبل کی ریلی ہے جو کھمم میں منعقد کی گئی۔ اس کے ذریعہ کے سی آر نے ایک ایسے محاذ کا اِشارہ دیا جو غیر بھاجپائی اور غیر کانگریسی ہوسکتا ہے۔ کے سی آر کی اِس ریلی میں سماج وادی نیتا اکھلیش یادو، اروند کیجریوال، بھگونت مان اور کے وجین شریک ہوئے۔ ان کی شرکت ان معنوں میں سرخیوں میں تھی کہ چار وزرائے اعلیٰ ایک اسٹیج پر تھے مگر خالص سیاسی نظر سے دیکھا جائے تو اس کی افادیت مشکوک ہے کیونکہ نہ تو اکھلیش کو تلنگانہ میں نہ ہی کے سی آر کو یوپی میں کوئی فیض پہنچ سکتا ہے۔ یہی حال دیگر کا بھی ہے۔ ان میں کوئی انتخابی تال میل ہوا بھی تو اس کی افادیت مشکوک ہی رہے گی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کے سی آر نے اس کی زحمت کیوں کی؟
ہمارے خیال میں، کے سی آر جنہوں نے اپنی پارٹی کو قومی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور اسی لئے اس کا نام بھی تبدیل کیا، یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اُن کے ساتھ دیگر ریاستوں کے لیڈران بھی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن کی تیاری ہے جس کا مقصد ممکنہ طور پر یہ پیغام دینا ہے کہ نہ تو بی آر ایس کو کمزور نہ ہی کے سی آر کو علاقائی لیڈر تصور کیا جائے۔