Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

خاکم بدہن!

Updated: March 27, 2025, 11:35 AM IST | Mumbai

ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد جس انداز میں دھمکی دی تھی اُس سے یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہ جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے بعد اُس وعدے سے مکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس سہرے کے ساتھ بندھا تھا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد جس انداز میں دھمکی دی تھی اُس سے یہ احساس ہوگیا تھا کہ وہ جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے بعد اُس وعدے سے مکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس سہرے کے ساتھ بندھا تھا۔ دھمکی میں انہوں نے کہا تھا کہ غزہ خالی کردیا جائے ورنہ اسے جہنم زار بنادیا جائے گا۔ اگر وہ جنگ بندی کے اپنے سابقہ عزم میں صادق ہوتے تو جس طرح یوکرین۔ روس کی جنگ رُکوانے میں پیش پیش ہیں، غزہ۔ اسرائیل جنگ رُکوانے میں بھی تن دہی سے سرگرم رہتے مگر اس معاملے میں اُن کی معمولی سی بھی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ اُن کی جانبداری سب پر عیاں ہے جس کے سبب غزہ، جو تباہ ہوچکا ہے، مزید تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس مختصر قطعہ ٔ اراضی پر اتنی تباہی ہوچکی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ’’تباہ ہونے‘‘ اور ’’مزید تباہ ہونے ‘‘میں کوئی فرق بھی ہے یا نہیں۔ 
یہ اہل غزہ ہی جانتے ہیں کہ اُن کے دلوں پر اب تک کیا گزرتی رہی اور اب کیا گزر رہی ہے۔ رمضان جیسا مہینہ اُنہوں نے کس طرح گزارا اور اب جبکہ عید کی آمد آمد ہے، اُن کے نزدیک عید کا کوئی معنی ہے یا نہیں۔ انہیں جن ہولناک آزمائشوں سے گزرنا پڑا اُن کا اُنہوں نے کس طرح مقابلہ کیا اور اب بھی کررہے ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اِس بار اُنہیں جس آزمائش سے گزرنا پڑا وہ اب تک کی آزمائشوں کے مقابلے میں نوعیت اور شدت کے اعتبار سے زیادہ خوفناک تھی مگر یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوسکتا کہ وہ سنگینوں کے سائے میں زندگی گزارتے آئے ہیں، اسرائیلی فوج کی پابندیاں اُن کا مقدر تھیں، جبرو ظلم کے ساتھ زندگی گزارنا اُن کے معمولات میں شامل تھا اور حتی المقدور مزاحمت یا شوق شہادت اُن کا طرۂ امتیاز تھا اس لئے جنگ رُک جائے یا جاری رہے وہ خود کو دونوں صورتوں میں تیار پاتے ہونگےمگر اُن ملکوں کا کیا جو کچھ کرسکتے تھے، اس ظلم کو روک سکتے تھے، اہل غزہ کے آنسو پونچھ سکتے تھے اور تحفظ انسانیت کے ذیل میں اپنا نام درج کروا سکتے تھے مگر اُنہوں نے کچھ نہیں کیا۔ 
ہوسکتا ہے چند ممالک غزہ کے تئیں مخلص رہے ہوں، چند نے اپنی سی کوشش کی ہو، چند کو چوٹی کانفرنسیں کرتے ہوئے دیکھا بھی گیا تھا، انہوں نے اسرائیل کو متنبہ بھی کیا تھا، سفارتی سطح پر سرگرم بھی تھے، کچھ نے عالمی عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا، نیتن یاہو ‘ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہوا تھا مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ اگر اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہوا ہے، جنگ رُکی نہیں ہے بلکہ جنگ بندی کا معاہدہ توڑا گیا ہے، ساڑھے پندرہ ہزار بچوں سمیت ۵۰؍ ہزار شہادتوں کے باوجود محاذِ جنگ پر مزید جنگ یقینی دکھائی دے رہی ہے اور روزانہ فضائی اور زمینی پیش قدمی جاری ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ سب مل کر بھی اور کوئی ایک ملک تن تنہا بھی نیتن یاہو کو روکنے میں ناکام ہے۔ یہ شرمناک ہے۔ 
تو کیا مان لیا جائے کہ جو غزہ خالی نہیں ہوسکا وہ بالجبر خالی کروالیا جائیگا اور فلسطینی اراضی پر اسرائیل قابض ہوجائیگا ؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو مگر لگتا یہی ہے۔ ٹرمپ نے پہلے غزہ پٹی کو جہنم زار اور پھر ’’مشرق وسطیٰ کا تفریحی سبزہ زار‘‘ (رِویئرا) بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر جہنم زار بنانے کا ذمہ اسرائیل کو سونپا اور خود شاید ’’تفریحی سبزہ زار‘‘ بنائینگے۔ ایسا ہوا تو اُنہیں اس کے صدر دروازہ پر جلی حرفوں میں لکھوانا ہوگا کہ زائد از پچاس ہزار لاشوں پر بننے والا یہ دُنیا کا اولین سبزہ زار ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK