انتخابی ریلیوں میں پسماندہ طبقات اور دلتوں کے حوالے سے ووٹ مانگنے کا رجحان اب انہیں باقاعدہ قیادت سونپنے کے رجحا ن میں بدل رہا ہے، سونیا گاندھی کا ملکارجن کھرگے کے تعلق سے اعلان اس رجحان کو مزیدتقویت دینے والا ہے، اب یہ صرف انتخابی موضوع نہیں رہا بلکہ ملک کے مستقبل کا اشاریہ بن چکا ہے۔
کانگریس نے اپنے سربراہ کو وزارت عظمیٰ کے دعویدار کے طور پر آگے کرکے بی جے پی کو سیاسی طور پر چاروں شانے چت کردیا ہے۔ تصویر : آئی این این
انڈیا اتحاد کی اہم جماعت جنتا دل یونائیٹڈ(جے ڈی یو) نے بہار میں ذات پرمبنی شماری کا ریکارڈظاہرکر کے اس موضوع کو جو ایک باقاعدہ سیاسی وانتخابی حیثیت دی ہے، اتحاد کی قائد کانگریس کی سابق سربراہ سونیا گاندھی نے یہ اعلان کر کے کہ پارٹی صدر ملکارجن کھرگے جن کا تعلق ایک پسماندہ ذات سے ہی ہے، ۲۰۲۴ء میں اپوزیشن کی قیادت کیلئے موزوں ترین ہیں ، اس پر ایک آخری مہرثبت کردی ہے۔یعنی اب یہ موضوع صرف انتخابی موضوع نہ رہتے ہوئے ملک کے مستقبل کا اشاریہ بن چکا ہے۔اب اس سے حکومت بھی اپنا دامن چھڑا نہیں سکتی ۔ تلنگانہ اور راجستھان کی انتخابی ریلیوں میں وزیراعظم مودی نے بارہا کانگریس پرپسماندہ ذاتوں اور دلت طبقے کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ،پھراپنی طرف سے یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ ملک میں صرف ایک ہی ذات ہےاور وہ ذات غریب کی ہے۔بی جےپی ہو یا وزیر اعظم مودی ،’غریب ‘ سے آگے نہیں بڑھے۔حالانکہ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ’ غریب‘ ہے کون ؟غریب ایک ہی ذات ہے یا کئی ذاتوں سے وابستہ ہیں ؟وزیر اعظم کا ’غریب ‘ کوذات قراردینا ہے صرف لفاظی اور بہانہ تراشی ہے جبکہ سونیا گاندھی کا اعلان ایک پسماندہ ذات بالخصوص دلت پر اعتماد کا اظہارہے ،اس کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے اور اس کی سرپرستی قبول کرنے کا اقرارہے۔
یہ الگ بات ہےکہ یہ اعلان کر کے سونیا گاندھی نے خوداپنا سیاسی قد بھی مزید اونچا کرلیا ہےجس طرح انہوں نے ۲۰۰۴ء میں قیادت کی ذمہ داری اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والےڈاکٹر منموہن سنگھ کوسونپ کر کیا تھا ۔۲۰۰۴ء میں حالانکہ سونیا گاندھی یوپی اے اتحادکا قائدانہ چہرہ تھیں اوراس وقت پُرزور قیاس آرائیاں یہی ہورہی تھیں کہ وہی وزیراعظم بھی بنیں گی۔اس کے باوجودسونیا گاندھی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس عہدہ کیلئے پیش کر کے جو ماسٹراسٹروک کھیلا تھا، اس کی ہر کسی نے تعریف کی تھی۔ملکارجن کھرگے کے تعلق سے حالیہ اعلان بھی ایسا ہی بلکہ اس سے مضبوط ماسٹر اسٹروک ہے۔
ملک کی سیاست کیلئے یہ خوش آئند اشارہ ہےکہ پسماندہ ذاتیں اب صرف موضوع برائے موضوع نہیں رہ گئیں بلکہ سیاست کے قومی دھارے میں ان کی ضرورت تسلیم کی جاچکی ہے۔انتخابی ریلیوں میں پسماندہ طبقات اور دلتوں کے حوالے سے ووٹ مانگنے کا رجحان ا ب انہیں باقاعدہ قیادت سونپنے کے رجحا ن میں بدل رہا ہے۔اس کی وجہ سر دست یہ سمجھ میں آتی ہےکہ انصاف ومساوات اب ایک مستحکم سیاسی پیمانہ بن چکا ہے۔اب جہاں انصاف نہیں ہوگا، وہاں بیداری ہوگی ،جہاں مساوات نہیں ہوگی ،وہاں بے چینی ہوگی۔مراٹھا ریزرویشن کے حوالے سے منوج جرنگے کے احتجاج کی نوعیت سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ اب ہر وہ طبقہ جو محروم رہا ہے ،اسے اگر اس کا حق نہیں دیاگیاتو سیاسی گردش اسے خود اقتدار عطا کردے گی۔خالص سیاسی نوعیت سے دیکھا جائے تو۲۰۱۲ء میں دہلی میں جو تبدیلی ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں عام آدمی پارٹی کو جو اقتدار ملا تھا ، اسے اسی بات کا ثبوت قراردیا جاسکتا ہے۔کیا کانگریس کے مقابلے میں اس وقت عام آدمی پارٹی کی کوئی حیثیت تھی ،لیکن اس پارٹی نے آن کی آن میں اپنی سیاسی حیثیت منوالی۔حالانکہ یہ پارٹی عوام کے کسی خاص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتی۔اب براہ راست نمائندگی کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے والی ہے۔جو تبدیلی ۱۲؍ سال قبل عام آدمی پارٹی کے حق میں آئی تھی ،اب اسی تبدیلی کے ملک کے ہر پسماندہ طبقے کے حق میں ہونے کے آثار ہیں ، بشرطیکہ ملکارجن کھرگے جیسی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جائےاور تحمل وجدوجہد کی سیاست کا شہسوار بن کر دکھایاجائے ۔ملک کی سیاسی بساط اب پلٹنے والی ہے ، اب اوبی سی ،ایس سی اور ایس ٹی کا دورآنے والا ہے اور یہ اشارہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں بھی اچھی طرح سے سمجھ چکی ہیں۔
ملکارجن کھرگے کا سیاسی قد بہت اونچا ہےلیکن ان کا تعلق اسی پسماندہ طبقے سے ہے جسے اس ملک میں برسوں دھتکارا گیا ہے، برسوں حاشیہ پر رکھا گیا ہے، محروم کیاگیا ہے لیکن یہ تاریخی پہلو ہے۔ ملکارجن کھرگےنے اپنے پورے سیاسی کریئر میں اپنے طبقے کی اس محرومی کا کبھی رونا نہیں رویا ۔ انہوں نے سیاسی میدان میں ایک سیاستداں کی طرح کھیلا ،پارٹی سے وفادار رہے ،۱۹۷۲ء سے ۲۰۰۸ء تک کرناٹک اسمبلی اور۲۰۰۹ء سے۲۰۱۴ء تک پارلیمانی انتخابات میں فتحیاب ہوتے رہے جس سے ان کی سیاسی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ملکارجن کھرگے نےاپنے طبقےکی پسماندگی ومحرومی کا کبھی رونا نہیں رویا لیکن ایسا نہیںہےکہ وہ اس طبقےکے مسائل سے لا علم رہے ۔اس طبقےکے ہر مسائل کوانہوں نے آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان کے حق میںآواز بھی اٹھائی۔ ۲۰۲۴ء میں اگرباقاعدہ انہیں اپوزیشن کے قائد کے طور پر پیش کردیا گیا تو یہ ملک کی سیاست میں کسی زلزلہ سے کم نہیں ہوگا۔ خواتین ریزرویشن بل کا جو اعلان مرکز نے کیا ہے اوراس کے تعلق سے جو بل منظور ہوا ہے ،اس کا نفاذ تو ۲۰۳۰ء سے پہلے پہلے ممکن نہیں ہے لیکن ملکارجن کھرگے کو قیادت سونپ نے کی شکل میں کانگریس نے جو داؤ کھیلنے کی تیاری کی ہے، اس سے ۲۰۲۴ء میں ہی ایک بڑی تبدیلی کی امید نظر آنے لگی ہے۔
یہاں یہ بھی واضح رہےکہ بی جے پی کے پاس ۲۰۲۴ء کیلئے بھی مودی کے علاوہ اور کوئی چہرہ نہیں ہے لیکن اپوزیشن کے پاس ملکارجن کھرگے کے علاوہ خود کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی ، ممتا بنرجی اورنتیش کمار جیسے کئی سینئر لیڈران ہیں۔ یہاں متبادلات کی کمی نہیں ہے یعنی یہ اتحاد ملک کے مختلف طبقوں کا نمائندہ اتحاد ہے۔ سی پی ایم کے سیتارام یچوری، آر جے ڈی کے منوج جھا اورڈی ایم کے ٹی آر بالو بھی اس موقع پر موجود تھے جب سونیا گاندھی نے کھرگے کے تعلق سے یہ اعلان کیا تھا ۔ان تینوں نے بھی کھرگے کی حمایت کردی ہے اور اس معاملے میں کانگریس کا پوری طرح سے ساتھ دینے کا عزم کیاہے۔ انڈیا اتحاد کی باقی جماعتیں بھی ملکارجن کھرگے کی مخالفت نہیںکریں گی کیونکہ پسماندہ ذاتوں کو نمائندگی دینے پر سبھی میں اتفاق ہے۔ ایسے میں مسئلہ بی جے پی کیلئے کھڑا ہونے والا ہےجس کا نہ ذات پرمبنی شماری کے تعلق سے کوئی خاص موقف ہے نہ یہاں مودی کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل ہے۔