• Sat, 28 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواجہ اجمیری فقر و استغناء کا پیکر اور اپنے عمل سے ایثار و قربانی کی علامت تھے

Updated: December 27, 2024, 3:33 PM IST | Akhtarul Wasey | Mumbai

حضرت خواجہ بزرگؒ بڑے غریب نواز تھے۔ یہ لقب ان کی ذات کے ساتھ ایسا وابستہ ہوا کہ نام کا مترادف بن گیا۔ ان کو اس خطاب کا اہل کسی بادشاہ نے قرار نہیں دیا تھا بلکہ غریب نوازی ان کے مقدّر میں خود احکم الحاکمین نے لکھی تھی اور ان کی زندگی اسی غریب نوازی سے عبارت تھی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے دین و دنیا کی تفریق ختم کردی تھی۔

Astana of Hazrat Khawaja, one of his great achievements has been to spread the light of Chirag-e-Chisht on the land of India. Photo: INN.
حضرت خواجہؒ کا آستانہ، ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان کی سرزمین پر چراغِ چشت کی روشنی پھیلانا رہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستان کی پیشانی جن اولیاء، صلحاء، صوفیہ اور انسانیت کا درس دینے والے عظیم بزرگوں سے منور ہے۔ ان میں سب سے روشن نام حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز جن کا اصلی نام حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہے۔ آٹھ صدیوں سے بھی پہلے اجمیر کی سرزمین پر وارد ہوئے۔ ان کے قدوم میمنت لزوم سے یہ بستی ایسی پاک ہوئی کہ اجمیر شہر اجمیر شریف بن گیا اور برصغیر کے لاکھوں عقیدت مندوں کی زیارت کا مرکز بن گیا۔ 
حضرت خواجہ اجمیری کوئی بادشاہ یا کوئی عظیم سپہ سالار یا کوئی امیر کبیر نہیں تھے۔ وہ اپنی ذات سے فقر و استغناء کا پیکر اور اپنے عمل سے ایثار و قربانی کی علامت تھے۔ وہ اپنے ۴۰؍ ہمراہیوں کیساتھ اجمیر تشریف لائے اور نہایت خاموشی کے ساتھ ایک کنارے فروکش ہوکر خدمت خلق اورغریب پروری کی روش کو عام کرنے لگے۔ وہ خود تو فقیر تھے لیکن سلطان الہند کا خطاب ان کا منتظر تھا۔ وہ خود تو غریب تھے لیکن ان کی غریب پروری ایسی تھی کہ ان کو غریب نواز بنا دیا۔ 
حضرت خواجہ اجمیری ہندوستان کی سرزمین سے سیکڑوں میل دور سجستان میں پیدا ہوئے۔ ابھی حضرت خواجہ کم عمر ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ترکہ میں ایک پن چکی اور ایک باغ ملا جو کفالت کیلئے کافی تھا لیکن دست قدرت نے اس یتیم کو دریتیم بنانا مقدر کر رکھا تھا۔ منگولوں کے حملوں سے وہ پہلے ہی دل برداشتہ تھے۔ ادھر کسی صاحب نظر نے ان پر نظرکیمیا اثر ڈالی اور دل رغبت دنیا سے مستغنی ہوگیا۔ باغ اور چکی فروخت کر کے غرباء میں تقسیم کی اور خود اپنی منزل مقصود کی تلاش میں چل پڑے۔ حصول منزل کی پہلی شرط علم ہے۔ صوفیاء کرام اس کو مشخص کرنے کیلئے علم ظاہر کا بھی نام دیتے ہیں، کئی سال علوم ظاہری کی تکمیل کی۔ اس کے بعد علوم باطنی کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے۔ 
دست قدرت کی کاریگری ان کو حضرت خواجہ عثمان ہرونیؒ کی خدمت میں لے گئی۔ حضرت خواجہ نے اس آفتاب عالم تاب کی باطنی صلاحیت کو پہچانا اور اپنے ساتھ لے کر بلاد اسلامیہ کے سفر پر نکل پڑے۔ ایک طویل عرصہ کی سیاحت کے بعد خود مرشد نے آگے کا سفر تنہا جاری رکھنے کی اجازت دی۔ حضرت خواجہؒ نے تنہا بھی بہت سے اسلامی ممالک کا سفرکیا۔ 
یہ عہدوسطیٰ کی خصوصیت نہیں ہے۔ حصول علم کیلئے ہر زمانے میں سفر ضروری رہا ہے اور آج بھی ہے۔ علوم کی تکمیل آج بھی سفر کے بغیر نہیں ہوتی۔ حضرت خواجہؒ کا یہ سفر اور یہ سیاحت دراصل کوئی تفریح یا شوق نہیں تھا بلکہ یہ حصول علم اور تزکیہ باطن کا سفر تھا۔ انہوں نے ہر مقام و ہر منزل پر وہاں کے اصحاب علم اور اہل دل سے استفادہ کیا۔ بلاد اسلامیہ سے علم و حکمت اور تزکیہ و احسان کے موتی جمع کرکے بیت اللہ کی زیارت کی اور حج و زیارت کے بعدجبین خم کرتے ہوئے خواب گاہ مصطفیؐ میں حاضری دی۔ تذکرہ نگاروں نے ان کی مدینہ حاضری کے موقع پر مختلف پیرائے میں ایک ہی بات کہی ہے کہ آپ کو ہندوستان جانے کا غیبی اشارہ ملا۔ چاہے خواب میں ملا ہو، چاہے دل میں بات ڈالی گئی ہو اور چاہے بطور کرامت بشارت ہوئی ہو اور آخر ابرگہر بار کو کوئی سرزمین تو سیراب کرنی تھی اور جہاں سب سے زیادہ ضرورت تھی اس باران رحمت کا استحقاق اسی سرزمین کو زیادہ تھا۔ حضرت خواجہ اجمیریؒ نے مدینہ سے ہندوستان کی طرف سفر کیا۔ لاہور آئے تو معلوم ہوا کہ لاہور سے آگے فارسی زبان کافی نہیں بلکہ مقامی زبان سیکھنی ہوگی۔ خواجہ صاحب کی زندگی میں یہ ایک زبردست سبق اور نمونہ ہے کہ ان کی زندگی کے گرد مریدین نے کرامات کے چاہے کتنے ہی ہالے بُن دیئے ہوں لیکن ان کی زندگی صرف کرامت سے نہیں بلکہ عمل سے عبارت تھی۔ تحصیل علم کیلئے انہوں نے تقریباً ۲۰؍ سال بلاد اسلامیہ کا سفر کیا، اس کے بعد جب ان کو ہندوستان کی مقامی زبان سیکھنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنی کرامت سے یہ زبان نہیں سیکھی بلکہ اس کو سیکھنے کیلئے ملتان گئے اور وہاں ہندوستانی زبان سیکھی۔ اس کے بعد آپ لاہور اور دہلی ہوتے ہوئے اجمیر میں فروکش ہوئے اور تقریباً چالیس سال اسی سرزمین کو اور یہاں کے ذریعہ پورے ہندوستان کو فیض یاب کرتے رہے۔ 
حضرت خواجہ بزرگؒ بڑے غریب نواز تھے۔ یہ لقب ان کی ذات کے ساتھ ایسا وابستہ ہوا کہ نام کا مترادف بن گیا۔ ان کو اس خطاب کا اہل کسی بادشاہ نے قرار نہیں دیا تھا بلکہ غریب نوازی ان کے مقدّر میں خود احکم الحاکمین نے لکھی تھی اور ان کی زندگی اسی غریب نوازی سے عبارت تھی۔ حضرت خواجہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دین و دنیا کی تفریق ختم کردی۔ ان کی نظر میں دین اور دنیا دو الگ الگ دنیا نہیں ہیں بلکہ دنیا کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارنا ہی دین ہے۔ انہوں نے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت دونوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔ انہوں نے فرمایا کہ انسان پر دو فرائض ہیں۔ ایک عبادت اور دوسرا اطاعت۔ عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی جبین نیاز کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں خم کردے۔ اور اطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے مخلوقات کیلئے اس کے اوپر جو فرائض عائد کئے ہیں، ان کو بجا لائے۔ اس کی شب، آہِ سحرگاہی سے زندہ ہو اور دن کی روشنی بندگان خدا کی خیر گیری کیلئے وقف ہو۔ 
حضرت خواجہ غریب نوازؒ ایک مثالی کردار اور نمونہ تھے۔ ان کی زندگی ان کے متوسّلین کیلئے ایک اسوہ تھی۔ انہوں نے اپنی سادہ زندگی اور فقیر منشی کے ذریعہ لوگوں کو سادگی کا درس دیا۔ وہ اکثر پیوند لگے کپڑے زیب تن کرتے، بکثرت روزے رکھتے، کھانا بہت تھوڑا سا تناول فرماتے، ان کا پیغام تھا کہ لباس ستر پوشی کیلئے ہے اور غذا انسانی زندگی کی بقاء کیلئے، کھانا اور کپڑا زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ زندگی کی ضروریات ہیں۔ انسان کو زندگی ایک بڑے مقصد کیلئے دی گئی ہے۔ زندگی کو اسی مقصد میں صَرف کرنا چاہئے اور وہ بڑا مقصد عبادتِ الٰہی اور اطاعتِ الٰہی ہے۔ عبادت کا مطلب خدا کے حقوق کی ادائیگی ہے اور اطاعت کا مطلب مخلوقات کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ زندگی کا مقصد محض حیوانی جذبات کی تسکین اور لہو و لعب دنیا میں مشغولیت نہیں ہے۔ 
حضرت خواجہؒ کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان کی سرزمین پر چراغِ چشت کی روشنی پھیلانا ہے۔ اگر ہندستانی معاشرہ کو غور سے دیکھا جائے تو اس سرزمین پر حضرات چشتیہ کی خدمات سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ کی سماجی تنظیم سے لے کر ادب، ثقافت اور تمدن اور علم و د ین ہر میدان میں حضرات چشتیہ کی خدمات بے مثال ہیں۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ، حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلیؒ، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ، حضرت شیخ کلیم جہان آبادیؒ، علماء بریلی ہوں یا علماء دیوبند سب کے یہاں چراغ چشت کی ضو فشانی نظر آتی ہے اور ہر پہلو میں اس آفتابِ ہدایت کا نور جگمگا رہا ہے۔ 
حضرت خواجہ اجمیری کو سلطان الہند کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ ان کی کلاہِ افتخار کا زرّیں نگینہ بن کر معزز ہوگیا۔ ہندوستان کی سرزمین نے سیکڑوں بادشاہوں کو دیکھا، ہزاروں علماء نے اس سرزمین کوزینت بخشی اور بے شمار صوفیہ اور صلحاء نے اس دیس کی فضائوں کو اپنے لاہوتی نغمات سے مزین کیا لیکن اس سرزمین کو جو تابانی، جو افتخار اور جو عظمت حضرت خواجہؒ سے ملی اور مسلسل قائم ہے، اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ حضرت خواجہ بلاشبہ ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی معاشرہ اور ہندوستانی تاریخ کے سب سے منور نگین اور سب سے زیادہ تابندہ ستارے ہیں۔ 
ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کو تشکیل دینے اور یہاں ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنے میں جس میں تمام مذاہب کا احترام اور تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو، سب سے زیادہ کردار حضرت خواجہ اجمیری اور ان کے قائم کردہ سلسلۂ چشتیہ کا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز برصغیر میں علم و ایمان کی جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی سے یہ سرزمین ہمیشہ جگمگاتی رہی ہے۔ آج جب کہ مسلمان بحیثیت مجموعی ایک دفعہ پھر تعلیمی، معاشی اعتبار سے پسماندہ ہیں۔ اجمیر سے اس طرح کی پہل کا انتظار ہے جیسی کوشش گلبرگہ میں چشتیہ نظامیہ سلسلہ کی درگاہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے روشن خیال ترقی پسند اور دور بیں مرحوم صاحب سجادہ حضرت سید محمد الحسینی (خواجہ پاشا) نے جدید علوم و فنون اور پیشہ ورانہ مہارت کے تعلیمی ادارے قائم کر کے کی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK