غلام عارف کے شروع کردہ کمیونٹی ٹاکنگ پلیٹ فارم پر معروف شاعر و صحافی ندیم صدیقی ، مشہور کالم نگار پروفیسر سید اقبال اور اردو کارواں کے روح رواں فرید احمد خان نے کتب بینی کے اپنے سفر پر سیر حاصل گفتگو کی اور یہ بتایا کہ مطالعہ کی عادت انسانی ضمیر کو روشن کرتی ہے۔
جدید دور میں ہمارے علم و معلومات کو جلا بخشنے کے بہت سے ذرائع موجود ہیں لیکن اس دور میں بھی کتابوں کی اہمیت مسلم ہے۔ کتابوں کی اہمیت لازوال ہے اور افادیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ انٹر نیٹ کے دور میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہیں ہوا ہے۔ کتابوں کو عجائبات کی دنیا کہا جاتا ہے۔ جب ہم اپنی پسند کی کتاب پڑھتے ہیں تو اس کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں، اس کے ذریعے سیکھنے اور سمجھنے کے عمل کو انجام دیتے ہیں۔ غرض کتابوں کی اہمیت پر دفتر کے دفتر سیاہ کئے جاسکتے ہیں لیکن اس ڈیجیٹل دور میں کتابوں سے دوری بھی بڑھی ہے۔ موبائل کے عروج نے کتابوں کی سلطنت کو نقصان پہنچایا ہے لیکن یہ اب بھی اتنا زیادہ نہیں ہےکہ اس کا ازالہ نہ ہو سکے۔ ایسے میں ضرورت ہے کتب بینی کی باقاعدہ مہم شروع کرنے کی۔ اس کا بیڑہ کئی تنظیموں اور افراد نے اٹھارکھا ہےجن میں معروف تاجر، سماجی کارکن اور کالم نویس غلام عارف بھی شامل ہیں۔ انہوں نےکمیونٹی ٹاکنگ پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت قوم و ملت کو درپیش مختلف مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے اور ان کا حل پیش کیا جاتا ہے۔ اسی کمیونٹی ٹاکنگ پروگرام کے تحت گزشتہ دنوں ممبئی میں ’کتاب بیں ‘ کے تحت مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں معروف شاعر و صحافی اورخاکہ نگار ندیم صدیقی، معروف کالم نویس اور ادب نواز پروفیسرسید اقبال اور اردو کارواں کے روح رواں فرید احمد خان نے اپنے اپنے کتب بینی کے سفر پر روشنی ڈالی۔ یہ گفتگو نہایت دلچسپ اورکتابوں کے دلدادہ افراد کے لئےمحرک بھی تھی کہ کیسے اور کس طرح ان شخصیات نے مختلف کتابوں سے علم کشید کیا، اس علم سے فیض حاصل کیا اور پھر اس علم کو دوسرے تک پہنچایا۔ یہ مذاکرہ کمیونٹی ٹاکنگ پلیٹ فارم کے یوٹیوب چینل پردستیاب ہے جس میں تینوں ہی شخصیات نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ہم اپنے قارئین کے لئے ندیم صدیقی، پروفیسر سید اقبال اور فرید احمد خان کے ذریعے کی گئی گفتگو کی تلخیص پیش کررہے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس کوشش کو پسند کریں گے۔
’’ماحول مطالعہ کے ذوق پر اثر انداز ہوتا ہے‘‘

میرے بچپن کی بات ہے کہ میرے والد(جمیل مرصع پوری مرحوم)کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا کہ وہ اخبار، رسائل یا کتابیں خرید کر ہی پڑھتے تھے۔ ہم لوگ اپنے ابتدائی دنوں میں ممبئی میں جہاں مقیم تھے وہاں کھتری لائبریری ہمارے والد کی دکان کے بالکل سامنے ہی تھی لیکن انہوں نے کبھی وہاں جاکر مفت میں اخبار بینی کی کوشش نہیں کی بلکہ جس دن اخبار نہیں ملتا تھا وہ ہمیں بھنڈی بازار یا دیگر جگہوں پر بھیج کر اخبار منگواتھے۔ وہی عادت میں نے بھی اپنائی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماحول اور آپ کے بزرگوں کے طرز و عمل کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ آپ کے آس پاس کا ماحول مطالعہ کے ذوق پر اثر انداز ہو تا ہے۔ ایک اور بات عرض کروں گا کہ میرے مطالعہ کے ذوق کو جلا بخشنے میں میری ممانی کا بھی اہم رول رہا۔ وہ ابن صفی کے ناول پڑھنے کی شوقین ہیں۔ بچپن میں انہوں نے مجھے لکھنا پڑھنا سکھایا۔ مشکل الفاظ کو کیسے پڑھنا ہے اور کیسے یاد رکھنا ہے یہ سب انہی کی دین ہے۔ ابھی حال کی بات ہے کہ دہلی میں ایک عالمی کتاب میلہ منعقد کیا گیا تھا۔ میں نے بھی اس میں شرکت کی۔ وہاں دیگر زبانوں اور خاص طور پر انگریزی کتابوں کے اسٹالس پر خلقت ٹوٹ پڑرہی تھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کتب بینی یا مطالعہ کا شوق اب بھی کم نہیں ہوا ہے بلکہ بڑھ رہا ہے لیکن جو اسٹال اردو کے تھے وہاں بس چند ہی افراد نظر آرہے تھے۔ یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ میں یہاں کسی مغربی مفکر کا یہ جملہ بطور حوالہ پیش کروں گا کہ ہمیں فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ کون سی کتاب پڑھی جائے کیوں کہ کتاب بہت شاندار چیز ہے۔ تحریرایک عجیب و غریب ایجاد ہے کیوں کہ یہ ان انسانوں کو ایک دوسرے سے ملادیتی ہے جو ایک دوسرے سے نہیں ملے ہیں۔ کتابیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان بھی کمال کرسکتا ہے۔ میں امید کرتاہوں کہ ہم کتابوں سے کوئی سبق لیں گے اور مطالعہ کو اپنی زندگیوں میں دوبارہ رائج کرنے کی کوشش کریں گے۔
ندیم صدیقی (معروف شاعر، صحافی اور خاکہ نگار ہیں )
’’کتابیں ہمارے لئے ہمیشہ محرک رہی ہیں ‘‘

یہ بڑا طرفہ تماشہ ہے کہ اردو جاننے والوں کی تعداد تو کہیں نہ کہیں بڑھ رہی ہے لیکن مطالعہ کا ذوق کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں اس جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ مطالعہ کے ذریعے ہی اور کتب بینی کے ذریعہ ہی ہم اپنے ضمیر کو روشن کرسکتے ہیں۔ جن عوامل نے مجھے مطالعہ کی تحریک دی اس میں ممبئی میں واقع کھتری لائبریری تو ہے ہی ساتھ ہی میری دادی کا بھی بہت اہم رول ہے۔ وہ نعتیہ کلام پڑھنے کی شوقین تھیں اور اکثر اس تعلق سے کتابیں ڈھونڈنے کے لئے مجھے ساتھ لے کر جاتی تھیں ۔ کتابوں کی دکانوں پر پہنچ کر احساس ہوتا تھا کہ یہ پڑھنے کی چیزیں ہیں۔ مجھے وہ کلام تو نہیں ملتا تھا لیکن کہانیوں کی کتابیں ضرور مل جاتی تھیں۔ ان کہانیوں کی وجہ سے ہی مجھ میں مطالعہ کا ذوق پیدا ہوا۔ اس ذوق کو جلا بخشنے میں میونسپل لائبریریوں نے بھی بہت اہم خدمت انجام دی۔ اس دور میں ممبئی میں ۳؍ میونسپل لائبریریاں تھیں۔ جاملی محلے کی میونسپل لائبریری میں میری ملاقات اپنے دیرینہ دوست رفیع نیازی سے ہوئی۔ یہ دوستی آج تک قائم ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جو آپ کا حال چال نہیں پوچھتے ہیں بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ کون سی کتاب پڑھی ؟ اگر کوئی کتاب نہ پڑھی ہوتو وہ کتاب فراہم کرنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ کنیڈا میں مجھے تقریباً ۲؍ سال رہنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں لائبریریوں کا نظام بہت متاثر کن ہے۔ مغربی قوموں کی ترقی کا یہی راز ہے کہ وہاں ہوٹل اور چائے خانہ کم ہیں اور لائبریریاں زیادہ ہیں۔ وہاں ہر محلے میں ایک لائبریری ہے جہاں کم از کم ۵؍ ہزار کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کے وسط میں ایک بڑی لائبریری بھی ہوتی ہے جہاں کم از کم ۵؍ لاکھ کتابیں ہوتی ہیں۔ یہی حال یورپی ممالک کا بھی ہے۔ میں نے ایمسٹرڈیم میں میٹرو اسٹیشن کا ہال دیکھا جہاں لوگ بیٹھ کر کتابیں پڑھ رہے تھے۔ وہاں کتابوں کیلئے جو سہولت دی جاتی ہے اس کا ہم یہاں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کتابیں میرا پہلا اور آخری عشق ہیں۔ کتابوں کے تعلق سے یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ان کے مطالعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں جنت کے کسی گوشے میں پہنچادیا گیا ہے۔
پروفیسر سید اقبال ( معروف کالم نگار اور ادب نواز ہیں )
’’مطالعہ کا زمانہ واپس لانا ہو گا ‘‘

معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اخبارات پڑھ کر اپنی رائے قائم کرتا ہے اور شعبہ صحافت معاشرے سے مسلسل جڑے رہ کر لکھنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی ایس سی جیسے مسابقتی امتحانات میں رہنمائی کرنے والے ادارے یا حضرات اخبار بینی پر خاص طور پر زور دیتے ہیں خاص طور پر تجزیہ نگاری والے مضامین پر۔ مطالعے میں لائبریری کلچر کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہے امریکن لائبریری۔ ممبئی میں امریکی سفارت خانے میں واقع اس لائبریری میں کئی افراد سے ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ مطالعہ کتنا ضروری اور اہم شغل ہے۔ اگر ہم اپنی معیاری لائبریریوں کی بات کریں تو ایک ہے انجمن اسلام کی کریمی لائبریری اور دوسری ہے عوامی ادارہ اور اتفاق سے دونوں ہی تزئین کاری کے نام پر اس وقت بند ہیں۔ سنجیدہ مطالعے کا سب سے بڑا دشمن موبائل ہے۔ یکسوئی سے مطالعہ کرنے کے لئے ہمیں موبائل سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم موبائل یا لیپ ٹاپ پر مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کاغذ کا وہ لمس محسوس نہیں ہو تا جو مطالعہ کئےگئے الفاظ و واقعات کو ذہن نشین رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ کسی زمانے میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کے لئے ابھارا جاتا تھا لیکن وہ طریقہ بھی اب مقفود ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں مطالعہ کا زمانہ واپس لینے کےلئے ہمیں ہی کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا ہو گا اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ اس پر ثابت قدم بھی رہنا ہو گا۔
فرید احمد خان (صدر، اردو کارواں )