قرآن مجید میں علم کا مقام و مرتبہ اخلاق و کردار سے مشروط ہے۔ دولت علم سے متمتع ہونے کے بعد ایک شخص کے اندر جہاں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہاں تواضع اور خاکساری کا وصف بھی اس کی ذات کو مزین کر دیتا ہے
EPAPER
Updated: November 18, 2022, 1:29 PM IST | Dr. Tauqeer Alam Falahi | Mumbai
قرآن مجید میں علم کا مقام و مرتبہ اخلاق و کردار سے مشروط ہے۔ دولت علم سے متمتع ہونے کے بعد ایک شخص کے اندر جہاں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہاں تواضع اور خاکساری کا وصف بھی اس کی ذات کو مزین کر دیتا ہے
کسی بھی قوم کا عروج اس پر منحصر ہے کہ وہ فکرونظر اور علم و دانش کی کس شاہراہ پر گامزن ہے۔ فلک بوس عمارتیں، دعوت نظارہ دیتی ہوئی خوبصورت اور مسطح سڑکیں، دلکش اور جاذبِ نظر مراکز تجارت یہ سب ترقی و کامرانی کے سطحی مظاہر ہیں جن سے قوم ووطن کی حقیقی عظمت و رفعت کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ فی الحقیقت ذہنی آزادی، افکار و خیالات کی وسعت و ہمہ گیری، انسانیت دوستی پر مبنی تعلیمات اور علوم نافعہ کی اشاعت ایک فرد، معاشرہ اور قوم کی زندگی کا نوشتۂ تقدیر تیار کرتی ہیں اور دوسری طرف اقوام عالم میں عظمت سے روشناس کراتی ہیں۔ علم و دانش وہ متاع بیش بہا ہے جو فرد اور معاشرے، دونوں کی زندگی کو انقلاب آشنا کر دیتی ہے،فکر کی کجی ختم ہوتی ہے، سوچنے سمجھنے کے انداز مہذب اور نشست و برخاست کے طریقے شائستہ ہو جاتے ہیں، مصروفیات و مشغولیات کا رُخ بدل جاتا ہے اور شب و روز میں حیرت انگیز تغیر رونما ہوتا ہے جس کی بنا پر ظلمتوں کا سدباب ہو جاتا ہے اور شاہراہ ِزندگی روشن ہو جاتی ہے۔
مخلوقات اراضی و سماوی میں انسان کو شاہ کار کی حیثیت حاصل ہے۔ قوت فکر و شعور کی نعمت سے اُسے نوازا گیا ہے۔ چاند، سورج،آسمان، زمین، شجر، حجر اور پوری کائنات اس کی خدمت میں مصروف ہے۔ انسان کو تسخیر کائنات کا پروانہ عطا کیا گیا: ’’اور اس نے زمین و آسمان کی ساری ہی چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں۔‘‘ (الجاثیہ :۱۳) مخدوم کائنات اور اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق کا مقصد بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں واضح فرما دیا کہ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔‘‘ (الذاریات :۵۶)
اسلام میں عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں خوفِ خدا کی دلوں پر حکمرانی ہو اور اس کی ہر سعی و عمل پر مرضی ٔ مولا کے اشتیاق کی چھاپ ہو۔ اللہ رب العزت سے محبت اور تخلیق انسانیت کی عظیم و مقدس غایت کو کماحقہ عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا جب تک کہ علم و فضل کی ضیا پاشیوں سے قلب و ضمیر روشن نہ ہوں۔ اللہ کا دین ایک امانت عظمیٰ کی شکل میں جن بندگانِ خدا کو ملا ہے ان میں سے ہر ایک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے خدا کے ان بندوں تک پہنچائے جو اللہ کے دین سے دور ہیں اور اس نعمت کی قدر و عظمت سے آشنا نہیں ہیں۔ اس مقصد کی بازیابی کیلئے بھی ضروری ہے کہ علم و حکمت کی شمع فروزاں کی جائے اور اس کی دولت گراں بہا سے فیض یاب ہوا جائے۔
علم جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور اس کا فیض پورے معاشرے پر جاری و ساری رہتا ہے۔ خوگر علم اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کا علم بردار بن کر حیات اُخروی کی ابدی مسرتوں کے حصول کے گُر جان لیتا ہے۔ علم و حکمت کے زیور سے آراستہ ہونے والوں کے سامنے کائنات کی ساری نشانیاں کھلی ہوئی کتاب ہوتی ہیں، انہیں حق و باطل میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مختلف پیرایۂ بیان میں علم اور اہل علم کی فضیلت بیان کرتی ہے:
’’اے محمدؐ! فرما دیجیے کہ کیا جو لوگ زیور علم سے آراستہ ہیں وہ اور جو اس سے محروم ہیں وہ ،دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘(الزمر :۹)
قرآن اس شخص کو چشم بینا کا متحمل نہیں قرار دیتا جو علم و حکمت کے جوہر سے محروم ہو اور پھر اس کے نتیجے میں راہِ حق پر گامزن ہونے کے بجائے ظلمتوں کا ہم نشین بن جائے۔ قرآن کی نگاہ میں علم کی روشنی رکھنے والا شخص ہی بینا ہے اور اس کے برعکس جو اس سے محروم ہے وہ نابینا اور بے بصارت ہے۔ بینائی سے محرومی تاریکیوں سے عبارت ہے: ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں، نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں۔‘‘ (الفاطر: ۱۹-۲۰) ایک مقام پر ایمان و ایقان اور علم و عرفان کی نعمت سے بہرہ ور ہونے والوں کے رفع درجات کا اعلان ہوتا ہے: ’’جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائیگا۔‘‘ (المجادلہ: ۱۱)
احادیث نبویؐ بھی علم و فضل کی قدر و منزلت پر سند فراہم کرتی ہیں۔ اللہ کے محبوب ترین بندے خاتم النبیینؐ نے اہل علم و دانش کو انبیاء کرام کا ورثہ قرار دیا ہے۔ ان العلماء ھم ورثۃ الانبیا (الصحیح للبخاری،ج اوّل، کتاب العلم،ص ۱۶) ’’بلاشبہ علماء ہی انبیا ئے کرام کے وارث ہیں۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر آسمان کے ان درخشاں تاروں سے ان علما کی تعبیر کی جو منزل مقصود تک رسائی کے لئے مشعلِ راہ بنتے ہیں: ’’اہل زمین میں علما ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحروبر کی ظلمتوں میں راہ یاب ہوا جاتا ہے۔‘‘(مسند احمد،ج ۳،ص ۱۵۷)
اسلام میں علم و دانش کی فضیلت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبوداور ہدایت و کامرانی کے لئے معزز ترین ضابطۂ زندگی کے نزول کا آغاز بھی اِقْرَاْ (العلق : ۱) ’’پڑھئے‘‘ کی مبارک تعلیم سے ہوتا ہے۔ اس کے معاً بعد وحی الٰہی کے جو الفاظ کتاب الٰہی میں محفوظ ہیں، ان کی روشنی میں علم کی روح،انسان کی حیثیت اور اللہ کے مقابلے میں انسان کو نوازے گئے علم کی حقیقت پوری طرح عیاں ہے ، فرمایا گیا: ’’ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھئے اور آپ کا رب کریم ہے،جس نے قلم کے ذریعے علم کی نعمت سے بہرہ ور کیا۔ اس نے انسان کو وہ کچھ بتایا جس سے وہ ناآشنا تھا۔‘‘ تحصیل علم کو رب حقیقی کے نام کے ساتھ مشروط کر کے دراصل قرآن نے اس فکر کا علم بلند کیا ہے کہ علم دراصل پوری انسانیت کیلئے متاع محبوب ہے،اور اس کی اہمیت و افادیت اسی وقت مسلمہ ہو سکتی ہے،جب کہ خالق حقیقی کو فراموش نہ کیا جائے۔
اسلام علوم و فنون کے مابین جائز و ناجائز کا،مستحسن و قبیح اور دینی و دنیوی ہونے کے اعتبار سے کوئی خط امتیاز نہیں کھینچتا بشرطیکہ یہ مالک حقیقی کے بے پایاں احسانات کے استحضار کے ساتھ اور مرضی ٔ مولا کے حصول کے پیش نظر کئے جا رہے ہوں۔ جغرافیہ، تاریخ، معاشیات،سیاسیات اور انگریزی کی تعلیم بھی حالات کے تقاضوں کے پیش نظر بسا اوقات دینی ضرورت بن جاتی ہے بشرطیکہ خوشنودیٔ رب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جائے۔ چنانچہ چاند کا سفر، ستاروں کی گزرگاہوں کی دریافت، سورج کی شعاعوں کی تسخیر، خلائوں کی سیر، دریا کی موجوں اور سمندر کی لہروں پر گرفت،یہ سب مسعود و مبارک بن جاتے ہیں اگر انسان ذکر الٰہی سے اپنی شب تاریک میں قندیل روشن کر لے اور انسانیت کی ظلماتِ حیات کو سپیدیٔ سحر سے بدل دینے کا عزم کر لے۔
اسلامی عبادات کی روح تقویٰ ہے۔ یہ مخصوص اوقات میں محدود مقامات پرایک خاص قسم کی پُرتکلف کیفیت پیدا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خشیت الٰہی سے عبارت ہے۔ دلوں کی دنیا پر جب خوفِ خدا کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے تو پھر کسی خود ساختہ قانون کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی پولیس کا ڈنڈا برائیوں کا قلع قمع کرنے میں محرک ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی،چوراہا یا شاہ ر ا ہ یا بند کوٹھری، آبادی ہو یا ویرانہ، رزم گاہ ہو یا بزم گاہ، ہرجگہ یہ خشیت الٰہی ایک ضابطہ بن جاتی ہے۔ علم و فضل وہ دولت گراں مایہ ہے جو فرد اور معاشرے کی فلاح کی ضمانت ہے۔ اگر تقویٰ کی روح نہ رہے تو انسان کی زندگی میں امن و سکون عنقا ہو جاتا ہے اور پھر یہ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر اپنی ناکامی و نامرادی کا نوشتۂ تقدیر خود اپنے ہاتھوں تیار کر لیتا ہے۔ ایک بڑے سے بڑا فلاسفر، ماہر سے ماہر طبیب،علم کیمیا اور علم طبیعیات کا ماہر، ریاضیات و شماریات کا حاذق،خلائوں کا ہم نشیںاور سمندروں میں اپنی دنیا بسانے والا اگر مالک حقیقی کی اطاعت و وفاشعاری اور خشیت الٰہی کے زیور سے آراستہ نہیں ہے توقرآن کی نگاہ میں علم و فضل کا حامل نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن وسنّت اور فقہ و سیرت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والے بندگان خدا کی زندگیاں خشیت الٰہی سے محروم ہیں تو قرآن کریم انہیں علما کی فہرست میںشامل نہیں کرتا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (الفاطر :۲۸)
تحصیل علم کے لئے تقویٰ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ علوم وفنون کی تحصیل کے مراحل میں اگریہ اہم ترین اصول پیش نظر نہ ہو تو علم حقیقی روح سے عاری ہو جاتا ہے اور پھر بندئہ مومن کا مقصد حیات رضائے الٰہی مجروح ہو کر دولت کمانا،شہرت و ناموری حاصل کرنا اور جاہ و اقتدار طلب کرنا،علم کے مقاصد بن جاتے ہیں۔ جب یہ سطحی چیزیں مقصد حیات بن جائیں تو ایک طرف انسانوں کے مابین اخوت و محبت اور ہمدردی و غم گساری کے جذبات بتدریج معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ظلم و ناانصافی، کجی، ہٹ دھرمی اور بغض و عناد کے مظاہر فروغ پاتے ہیں اور مستزاد یہ کہ رشد و ہدایت کی شاہراہ سے گریز کرتے ہوئے شعوری اور غیر شعوری طور پر ضلالت و گمراہی کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی محروم القسمت لوگوں کے بارے میں کتاب اللہ میں یہ قول فیصل موجود ہے: ’’یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے ہیں،یہ اب نہ پلٹیں گے۔‘‘ (البقرہ : ۱۸)اس کے برعکس علم حقیقی حق شناسی کی ضمانت بنتا ہے۔ آیات بینات، امثال و قصص اور احکام و ہدایات علم و دانش کے انہی علم برداروں کے لئے سودمند ثابت ہوتے ہیں جو ہر قسم کے تحفظات سے بری ہو کے اللہ اور فی اللہ تدبر و تفکر کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ اس صداقت پر کتاب اللہ کی یہ سند ملاحظہ کی جائے۔ فرمایا جاتا ہے: ’’اس طرح کی مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں مگر انہیں وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔‘‘ ( سورہ العنکبوت:۴۳) دوسرے مقام پر حقیقی علم و فضل کی نعمت سے متمتع ہونے والوں کا طرز عمل یوں سراہا جاتا ہے:’’اور (اے نبیؐ!) علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے۔‘‘(سبا :۶) قرآن مجید میں علم کا مقام و مرتبہ اخلاق و کردار سے مشروط ہے۔ دولت علم سے متمتع ہونے کے بعد ایک شخص کے اندر جہاں بہت سی خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہاں تواضع اور خاکساری کا وصف بھی اس کی ذات کو مزین کر دیتا ہے۔ اسے ایک طرف وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً کے مطابق اپنے علم کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلِمْہٖٓ اِلاَّ بِمَاشَآء (البقرہ:۲۵۵)( ’’وہ بندوں کے سامنے موجود اور اوجھل ساری چیزوں کو جانتا ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز اس کی مشیت کے بغیر ان کی گرفت ِ ادراک میں نہیں آسکتی‘‘) کے ارشاد کے مطابق رب العالمین کے سرچشمۂ علم و فضل ہونے کا اسے ایمانِ کامل ہوتا ہے۔ اس سے اس کے اندر شکرکے جذبات نشوونما پاتے ہیں اور اس کے اندر کبر اور سرکشی کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں بلکہ خدا کی عطا کردہ نوازش کا احساس اور خالق دوجہاں کے ہی منبع علم ہونے کا ایمان تواضع و انکساری کے لئے مہمیز کرتا ہے۔ الخلق عیال اللّٰہ کی تعلیم نبویؐ کو مستحضر رکھتے ہوئے اور حقوق العباد کے تلف ہونے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور جواب دہ شخصیت گردانتا ہے، چنانچہ خدمت خلق کے جذبے سے معمور ہو کر اس کے بازو دوسروں کے لئے جھک جاتے ہیں۔ اس کے اندر گیرائی و گہرائی ہوتی ہے لیکن سکوت و خاموشی اس کا شعار ہوتا ہے۔ علم و حکمت کی متاع بے بہا سے اس کی شخصیت بلاشبہ بھاری بھرکم ہو جاتی ہے لیکن وہ شجر ثمربار کے مانند ہوتا ہے جو ہر خاص و عام کی خاطر و مدارت کیلئے جھکا رہتا ہے۔ اس طرح اُسے عباد الرحمٰن کی ربانی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز مل جاتا ہے: ’’رحمان کے بندے (فی الحقیقت) وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں۔‘‘(الفرقان :۶۳)