Updated: June 04, 2023, 10:35 AM IST
| Mumbai
ایس ایس سی (مہاراشٹر کے مختلف بورڈس) کے امتحانات کے نتائج جمعہ کو ظاہر کئے گئے۔ ہم یہ روایتی جملہ ضبط تحریر میں لانا ضروری نہیں سمجھتے کہ اس بار بھی طالبات نے طلباء پر سبقت حاصل کی کیونکہ اب بیشتر امتحانات میں یہی کیفیت ہوتی ہے چنانچہ خبر تب بنے گی یا قابل ذکر بات تب قرار پائیگی جب لڑکے سبقت حاصل کریں گے۔
ایس ایس سی (مہاراشٹر کے مختلف بورڈس) کے امتحانات کے نتائج جمعہ کو ظاہر کئے گئے۔ ہم یہ روایتی جملہ ضبط تحریر میں لانا ضروری نہیں سمجھتے کہ اس بار بھی طالبات نے طلباء پر سبقت حاصل کی کیونکہ اب بیشتر امتحانات میں یہی کیفیت ہوتی ہے چنانچہ خبر تب بنے گی یا قابل ذکر بات تب قرار پائیگی جب لڑکے سبقت حاصل کریں گے۔ یہاں ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بعض کامیابیاں معمولی ہونے کے باوجود غیر معمولی بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی کے مضافاتی شہر تھانے کے اُس طالب علم کو دیکھئے جس کا نام وشال کراڈ ہے۔ اسے صرف ۳۵؍ فیصد مارکس ملے اس کے باوجود نتائج ظاہر ہونے کے بعد سے اس کالم کے لکھے جانے تک کئی صحافی اُس کا انٹرویو کرچکے ہیں یا اس کی خبر کو بطور خاص شائع کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنے کم مارکس سے حاصل ہونے والی کامیابی کیونکر موضوع بنی؟
ہر شخص جانتا ہے کہ ۳۵؍ فیصد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اتنے فیصد کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم ناکام ہورہا تھا مگر ممتحن (اگزامنر) یا بڑے ممتحن (ماڈریٹر) نے اُس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کیا اور اُسے کامیابی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اسے ممتحن کی عطا سمجھا جاتا ہے کامیابی نہیں۔ ایسے دور میں جب کہ ۷۰۔۸۰؍ فیصد کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ بہت سے طلبہ ۹۸، ۹۹؍ یا ۱۰۰؍ فیصد مارکس حاصل کرلیتے ہیں، یہ طالب علم او راس کے اہل خانہ قابل ستائش ہیں کہ اُنہوں نے ۳۵؍ فیصد کا جشن منایا۔ ہماری اطلاع کے مطابق رزلٹ پاکر یہ طالب علم اور اس کے والدین اتنے خوش تھے کہ اُنہوں نے مٹھائی منگوائی اور منہ میٹھا کیا۔ ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔
کم مارکس پر خوشی کا اظہار دو طرح کے لوگ کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جو جانتے تھے کہ کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ جب اُنہیں کامیابی مل جاتی ہے تو وہ غیر متوقع بن جاتی ہے چنانچہ خوشی منانے کا جواز پیدا کردیتی ہے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو ہر حال میں خوش رہنے کے عادی ہیں۔ایسے لوگ نہ تو کبھی فکرمند دکھائی دیتے ہیں نہ ہی محرومی کا احساس اُن کے دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے۔ اس دور کشاکش میں خوش رہنا اپنے آپ میں بڑا فن بن گیا ہے۔ لوگ خوش ہونے کے لئے تفریحات کا سہارا لیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ خوشی تفریح سے نہیں ملتی، دلِ آسودہ سے ملتی ہے اور آسودہ وہ ہوتا ہے جو قناعت پسند ہوتا ہے، راضی بہ رضا رہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ملا شاید اسی میں خیر ہے۔ وشال کراڈ کے والد رکشا چلاتے ہیں اور ماں گھریلو خاتون ہیں۔ وہ معذور بھی ہیں۔ یہ نہایت غریب خاندان ہے ۔ یقیناً ان کے نزدیک ۳۵؍ فیصد کی بھی اہمیت ہے اور جب اس یافت کو اُنہوں نے اتنی اہمیت دی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس چھوٹی کامیابی سے وشال اپنے لئے بڑی کامیابی کی راہ ہموار کرے گا۔
اتنی طویل تمہید ہم نے یہ کہنے کیلئے باندھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مارکس کی اندھی دوڑ سے کچھ نہیں ہوتا۔ طالب علم کو توقع سے کم مارکس ملیں تب بھی مغموم نہیں ہونا چاہئے۔ جو مغموم ہوتا ہے وہ شکرگزاری کے جذبہ سے عاری ہوجاتا ہے۔ ایسے ہر طالب علم کو جسے کم مارکس ملے ہوں، صرف یہ عزم کرنا چاہئے کہ آئندہ کے ہر امتحان میں زیادہ محنت سے زیادہ مارکس حاصل کرونگا۔ یہ اسلئے ضروری ہے کہ کوئی بھی امتحان آخری ہوتا ہے نہ ہی اُس پر زندگی ختم ہوتی ہے۔ کم مارکس پر والدین کو بھی لعن طعن نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ادنیٰ کامیابی اعلیٰ کامیابی کا نقطۂ آغاز ہوتی ہے۔n