• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مہاراشٹر میں بی جے پی کو اس کی چالاکیاں ہی لے ڈوبیں

Updated: June 05, 2024, 1:49 PM IST | Nadir | Mumbai

وزیراعظم نریندر مودی نے ایک جلسہ عام بڑے طمطراق کے ساتھ کہا تھا کہ اجیت پوار نے ۷۰؍ ہزار کروڑ روپے کا گھوٹالا کیاہے ، بہت جلد میں انہیں جیل میں ڈالنے والا ہوں۔ اس کے صرف ۳؍ یا ۴؍ روز بعد اجیت پوار این سی پی کے ۴۰؍ اراکین کو لے کر مہایوتی حکومت میں شامل ہو گئے۔

Maharashtra. Photo: INN
مہاراشٹر۔ تصویر : آئی این این

وزیراعظم نریندر مودی نے ایک جلسہ عام  بڑے طمطراق کے ساتھ کہا تھا کہ اجیت پوار نے ۷۰؍ ہزار کروڑ روپے کا گھوٹالا کیاہے، بہت جلد میں انہیں جیل میں ڈالنے والا ہوں۔ اس کے صرف ۳؍ یا ۴؍ روز بعد اجیت پوار این سی پی کے ۴۰؍ اراکین کو لے کر مہایوتی حکومت میں شامل ہو گئے۔ ان کے سارے’ پاپ‘ دھل گئے   اور وہ ملک کی ترقی کے تعلق سے نریندر مودی کے ’ویژن‘ کا حصہ بن گئے۔ میڈیا میں ہمت نہیں تھی کہ  جو شخص ۷۰؍ ہزار کروڑ کی بد عنوانی کا ملزم ہے وہ اچانک حکومت میں کیسے شامل کر لیا گیا؟ بی جے پی کو لگ رہا تھا یہ اس کی بازی گری ہے، اور عوام کا کام صرف اس کے ہر دائو پر داد دینا رہ گیا ہے۔ مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت جس طرح غیر آئینی طریقے سے گرائی گئی، شیوسینا کا نام اورنشان چھین کر ایکناتھ شندے کے حوالے کیا گیا ، اسے بی جے پی  ملک میں اپنے دبدبے اور حاکمیت کی علامت سمجھ رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ عدالت، الیکشن کمیشن،  سی بی آئی کو قابو میں کر لینے سے ملک فتح کیا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کے ’حاکموں کو اندازہ نہیں تھا کہ سوشل میڈیا پر بیٹھا اس کا کیڈر الگ ہے اور ریاست کے عوام الگ۔ عوام صحیح غلط کا اندازہ لگانا اب بھی جانتے ہیں۔ خاص کر مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ریاست کے لوگ۔ 
مراٹھا ریزرویشن تحریک کا اثر
ممکن ہے کہ ماہرین کا ایک طبقہ مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیوسینا (شندے) کی شکست کا ایک اہم سبب منوج جرنگے کی تحریک اور مراٹھا سماج کی ناراضگی کو قرار دیں  لیکن جن لوگوں نے مراٹھا تحریک کو قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ احتجاج کے دوران مراٹھا سماجی کارکنان نے جتنی تقریریں کی ان میں سے بیشتر میں انہوں نے اس بات کا حوالہ ضرور دیا کہ ’’اگر حکومت بنانے کیلئے اجیت پوار کے ساتھ مل کر آدھی رات کو حلف لیا جا سکتا ہے، اگر اسمبلی اسپیکر قانون کو توڑ مروڑ کر شیوسینا کا انتخابی نشان شندے گروپ کو دے سکتے ہیں تو پھر حکومت مراٹھا سماج کو ریزرویشن دینے کیلئے قانون میں ترمیم کیوں نہیں کرسکتی؟ یاد رہے کہ منوج جرنگے نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کریں گے مراٹھا سماج جسے چاہے ووٹ دے البتہ اتنی اپیل ضرور کریں گے کہ وہ مراٹھا ریزرویشن کی مخالفت کرنے والوں کو ہرانے کی کوشش کریں۔ مراٹھا ریزرویشن تحریک کا اثر اس الیکشن میں دکھائی تو دیا ہے لیکن  انتخابی نتائج واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں ہے   بی جے پی اور اسکے حلیفوں کی شکست کی۔ ممبئی شہر میں جہاں گزشتہ دونوں لوک سبھا انتخابات میں ۶؍ میں سے ۶؍ سیٹیں  بی جے پی کےا میدواروں نے  ایک بڑے فرق کے ساتھ جیتی تھیں۔  اس بار اس کے سارے امیدوار چاروں خانے چت ہو گئے۔ وجہ  یہی تھی عروس البلاد  میںبی جے پی کے کریٹ سومیا آئے دن پریس کانفرنس منعقد کرکے مہا وکاس اگھاڑی  میں شامل کسی  لیڈر پر بد عنوانی کا الزام عائد کرتے تھے۔ باقاعدہ اس کے ثبوت پیش کرتے تھے۔ ان ثبوتوں کو حکام تسلیم بھی کر لیتےتھے اور تحقیقات شروع کر دیتے تھے۔ لیکن  دوران تحقیقات وہ لیڈر بی جے پی یا مہایوتی میں شامل ہو جاتا تھا اور سارے ثبوت زائل ہو جاتے تھے، تحقیقات بند کر دی جاتی تھی۔ 
مرکز میں ۳۰۳؍ سیٹوں کے ساتھ ایک مستحکم حکومت کا بی جے پی نے یہ مطلب نکال لیا تھا کہ عوام نے اسے ملک میں جمہوریت کو ختم کرکے  بے دریغ من مانی کرنے کا سرٹیفکیٹ دیدیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کریٹ سومیا اگلی پریس کانفرنس میں یہ کہہ بھی رہے تھے کہ ’’ ملک کی خاطر کچھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں‘‘ یعنی بی جے پی بد عنوانوں کو ملک کی خاطر اپنی حکومت میں شامل کر رہی تھی۔ ایسی منطق سوشل میڈیا پر  بیٹھے بے روزگار مودی بھکتوں میں تو کام آ سکتی ہے لیکن عام آدمی جو ۲؍ وقت کی روٹی محنت و مشقت سے کماتا ہے اور ترقی کے معنی سمجھتا ہے اس کے آگے نہیں چل سکتی۔ 
ادھو ٹھاکرے کی تضحیک 
ادھو ٹھاکرے کے مہا وکاس اگھاڑی کے ساتھ چلے جانے پر جس طرح بی جے پی پہلے کنگنا رناوت ، پھر نتیش رانے کے ذریعے ادھو ٹھاکرے کی تضحیک اور تذلیل کروائی ، وہ ایک عام ’مراٹھی مانس‘ کو تو کیا  ادھو  کے مخالفین کو بھی پسند نہیں آئی۔ نتیش رانے جس طرح کی زبان ادھو ٹھاکرے کے خلاف استعمال کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بی جے پی کے کارندے جس طرح ان کا مذاق اڑا رہے تھے وہ ایک وزیر اعلیٰ (سابق) تو کیا ایک عام انسان کیلئے بھی لوگ برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن بی جے پی نے یہی سمجھ رکھا تھا کہ پورا ملک اسی کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ رہی سہی کسر نریندر مودی نے ایک انتخابی ریلی کے دوران ادھو ٹھاکرے کو شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کا ’نقلی بیٹا‘ کہہ کر پوری کر دی۔ اس طرح کی بدزبانی کم از کم مہاراشٹر میں تو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ مراٹھا سماج کا ریزرویشن کا مطالبہ، اور او بی سی سماج کا ذات پات پر مبنی مردم شماری  ایک اہم سنجیدہ موضوع تھا جنہیں نظر انداز کرکے بی جے پی  اپنی چالاکیوں میں مصروف رہی جو بالآخر اسے وہاں تک لے گئی جسے کیفر کردار کہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK