ہر انسان کو اپنا ماضی یاد کرنا اچھا لگتا ہے۔ عمر کے ہر پڑاؤ پر اکثر لوگ بیتے ہوئے دور کو یاد کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ وہی ماضی جب حال تھا، اس وقت لوگ اس سے بیزار تھے لیکن جب حال ماضی بن گیاتو اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 25, 2025, 3:35 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai
ہر انسان کو اپنا ماضی یاد کرنا اچھا لگتا ہے۔ عمر کے ہر پڑاؤ پر اکثر لوگ بیتے ہوئے دور کو یاد کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ وہی ماضی جب حال تھا، اس وقت لوگ اس سے بیزار تھے لیکن جب حال ماضی بن گیاتو اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔
ہر انسان کو اپنا ماضی یاد کرنا اچھا لگتا ہے۔ عمر کے ہر پڑاؤ پر اکثر لوگ بیتے ہوئے دور کو یاد کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اہم بات تو یہ ہے کہ وہی ماضی جب حال تھا، اس وقت لوگ اس سے بیزار تھے لیکن جب حال ماضی بن گیاتو اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک انسانی فطرت ہے جس سے انسان راہِ فرار نہیں اختیار کرسکتا۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ نفسیاتی طور پر انسان اس وقت نقصان اٹھا تا ہے جب وہ بہت زیادہ ماضی میں الجھ کر رہ جاتا ہے، یا پھر ماضی کی یادوں کو اس قدر حاوی کرلیتا ہے کہ اس کا دل غموں کا مسکن بن کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ماضی کی قوموں کے جو قصے بیان کئے ہیں وہ عبرت کے لئے ہیں۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ’’لہٰذا (اے محمدؐ) آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ ‘‘ (الاعراف:۱۷۶) معلوم ہوا کہ ماضی کے قصوں کا اصل مقصد عبرت ہونا چاہئے تاکہ انسان وہ نیک کام کرے جو پچھلی قوموں نے کئے اور اس طرح رب کریم سے قربت حاصل ہو، اور ان برے کاموں سے بچے جو پچھلی قوموں نے اختیار کئے تو ان پر عذابِ الٰہی نازل ہوا۔
ماضی سے عبرت حاصل کرنا اچھی بات ہے اوریہ ایک ضروری امر بھی ہے۔ لیکن عام حالات کا مشاہدہ یہ بتلاتا ہے کہ ماضی کی یادوں کو بہت زیادہ چمٹائے رکھنا، انسان کی صحت کو، اس کی سوچ کو اور مجموعی طور پر اس کی زندگی کو فالج زدہ کر دیتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ کار چلاتے وقت ایک ڈرائیور کو دو طرف دیکھنا ہوتا ہے:آگے اور پیچھے۔ لیکن ڈرائیور کی پوری نگاہ آگے کی طرف ہوتی ہے، البتہ کبھی کبھی وہ ایک اچٹتی ہوئی نگا ہ کارکے دونوں جانب لگے آئینے کے ذریعہ پیچھے کی طرف بھی ڈال لیتا ہے۔ بس یہی معاملہ حقیقی زندگی میں بھی ہونا چاہئے کہ ہم گزرے ہوئے وقت کی طرف بھی دیکھیں لیکن ہمارا مطمحِ نظر وہ ہو جو سامنے آرہا ہے۔ کیونکہ اگر ایک ڈرائیور آنے والے مرحلے سے زیادہ پیچھے کی طرف دیکھے گا تو اس گاڑی کا کسی حادثہ کا شکار ہوجانا یقینی ہے۔
اگر ہم اس سلسلے میں مزید غور کریں تو اسلام کے احکامات کی خوبصورتی مزید عیاں ہوتی جاتی ہے۔ مثلاً اسلام نے کسی بھی مرنے والے پر تین دن غم منانے کی اجازت دی ہے، سوائے کسی شوہر کے انتقال کی صورت میں کہ اس کی بیوی چار ماہ دس دن غم منائے گی۔
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے ان سے بیان کیا کہ میں ام المومنین سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جب ان کے والد حضرت ابوسفیان ؓکا انتقال ہوا تھا، تو سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جس میں زردی ملی ہوئی تھی، وہ خوشبو ایک باندی کو لگا کر خود بھی لگائی اور کہا کہ اللہ کی قسم! مجھےخوشبو کی ضرورت نہیں، مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ کسی مردے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوا شوہر کے کہ اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ ‘‘ (صحیح بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، موطا امام مالک)
اس حکم کا نفسیاتی پہلو کتنا حسین ہے کہ حضرت ام حبیبہؓ نے قصداً اس خوشبو کا استعمال کرکے واضح کردیا کہ انتقال بھلے ہی والد کا ہوا ہو، لیکن وہ تاحیات ان کا غم نہیں منائیں گی۔ عموماً یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ انسان اپنے سے بچھڑنے والے قریبی شخص کا غم بہت زیادہ مناتا ہے، اس کی یاد میں بہت زیادہ کھوجاتا ہے۔ لیکن اسلام نے یہاں پر تین دن کی شرط لگا کر یہ واضح کردیا کہ زندگی آگے چلنے کا نام ہے، پیچھے مڑنے کا یا وہیں پرپھنسے رہنے کا نام نہیں ہے۔
ایسا اس لئے بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم مقصد انسان کو آخرت کے لئے تیار کرنا ہے تاکہ وہ نیک عمل کرے، برائی سےبچے۔ آخرت چونکہ آنے والی ابدی زندگی کا نام ہے، اس لئے ایسا انسان جو بہت زیادہ ماضی میں الجھا رہے وہ یقیناًاس مرحلے کی تیاری کو نظر انداز کردے گا اور کمتر جانے گا۔ بلکہ ہم ماضی کی قوموں کی ہلاکت کے قصے اگر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کفر وشرک کی وجہ سے ہلاک وبرباد ہوئیں اور کفر وشر ک ان میں آیا کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے آباء و اجداد کو کچھ زیادہ ہی شدت سے یاد کرتے تھے۔ عربوں میں تو یہ عادت اس قدر رچی بسی تھی کہ قرآن مجید میں ایک جگہ ذکر الٰہی کے تقابل کے لئے عربوں کے اپنے باپ دادا کو یاد کرنے کا تذکرہ آیا ہے۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:’’پھر جب تم اپنے حج کے ارکان پورے کر چکو تو (منیٰ میں ) اﷲ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدّتِ شوق سے (اﷲ کا) ذکر کیا کرو۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۰۰)ان کی اپنے باپ دادا سے یہی دیوانگی ان کے اندر شرک کے بیج ڈالنے کی بنیاد بنی کہ جب ان کے باپ دادا میں سے کوئی مرجاتا، تو وہ اس کی یاد میں اس کا مجسمہ اور تصویر بنالیتے۔ پھر صبح شام اس کو دیکھتے، اس کو یاد کرتے۔ وہ مرنے والا ایک عام انسان تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں یہ بات بھول جاتیں یا ان تک وہ مکمل معلومات پہنچتی ہی نہیں۔ نتیجتاً پھر ان آنے والی نسلوں نے ان مجسموں اور تصویروں کو الگ الگ نام دے دئیے، پھر ان سے سوال کرنا شروع کردیا، ان کو عجیب طاقتوں کا مرکز سمجھ لیا، خدائی کام ان سے منسوب کردئیے اور ان کو خدا کے درجے میں پہنچا دیا۔ اور یہ سب شاخسانہ تھا ماضی میں بہت زیادہ الجھنے کا۔
ماضی کی یادوں میں الجھنے کا ایک اور طریقہ ہوتا ہے : وہ یہ کہ انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ کاش میں یہ کام ایسے نہیں ایسے کرتا تو اس کے نتائج الگ ہوتے۔ شادی بیاہ، کاروبار، نوکری، علاج ومعالجہ، غرضیکہ زندگی کے ہر مرحلے میں انسان یہی سوچتا رہتا ہے، اور ماضی کی کوئی غلطی ایک آسیب بن کر اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ اسلام نےماضی کے متعلق ایسی منفی سوچ کے بھی دروازے بند کر دئیے کہ ہر بات اللہ عزوجل کی طرف سے اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ انسان حتی المقدور کوشش کر لے، اس کے بعد نتیجہ چاہے کچھ ہو، وہ اللہ کی تقدیر پر راضی رہے۔ مسلم شریف میں ایک حدیث ہے، اللہ کےرسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر تم پر کوئی مصیبت آ جائے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا، تو ایسا ہوجاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ’اگر‘ شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ ‘‘
اسی لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ماضی کو بہت زیادہ یادکرنے اور جذباتی ہونے سے زیادہ مستقبل کو یاد کرے۔ اس دن کو یاد کرے جو ابدی طور پر جنت جہنم کے فیصلے والا دن ہوگا۔ اس پر اپنی توجہ مرکوزکرے۔ اور ماضی کے متعلق کاش جیسے الفاظ بھی استعمال نہ کرے، اس لئے کہ اللہ عزوجل کی مشیت سے ہی ہر فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنا، اور آخرت کے لئے تیاری میں جٹے رہنا یہ دو نہایت اہم کام ہیں جن کے لئے تاحیات محنت اور جدوجہد کرنےکی ضرورت ہے۔ ’’پس اے آنکھ والو ! عبرت حاصل کرو۔ ‘‘( الحشر:۲)