ملک میں سرکاری اور عوامی سطح پر جو جشن منایا جا رہا ہے وہ جائز ہے۔ ہم بھی اظہار فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ملک نے چاند فتح کیا ہے۔ جن سائنسدانوں نے یہ کارنامہ انجام دیا اور وہ حکومت بھی قابلِ مبارکباد ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دینے کیلئے وسائل مہیا کئے مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کن رکاوٹوں کے باوجود ہندوستان نے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی ۔ تصویر:آئی این این
’’کم خرچ بالا نشیں ‘‘ ایک محاورہ ہے جو عام طور سے بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ محاورے میں ترمیم نہیں کی جاسکتی مگر جب یہ بات علم میں آئی کہ ۶۱۶۵۹؍ کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود روس اپنے خلائی جہاز لونا۔۲۵؍ کو تباہ ہونے سے نہیں بچا سکا اور محض ۶۱۵؍ کروڑ روپے خرچ کرکے بھارت نے چندریان۔۳؍ کے ذریعہ چاند کو فتح کر لیا تو دل سے آواز آئی کہ جب دنیا وسیع تر ہوتی جا رہی ہے اور بھارت کی خلائی تحقیقات و فتوحات میں چار چاند لگ چکے ہیں تو ’بالا نشیں ‘ کو ’چاند نشیں ‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟ بھارت کی حکومت اور اسرو کے سائنسدانوں نے تو تاریخ ہی بدل دی ہے البتہ ایک سوال ذہن میں دستک دیتا رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے دیس میں جہاں ہزاروں گھپلے ہوئے ہیں اور ان سے زیادہ قرض معاف کئے جاتے رہے ہیں کیا مجبوری تھی کہ ۲۳ء۔۲۰۲۲ء کے مقابلے ۲۴۔۲۰۲۳ء میں اسپیس ایکٹیوٹیز کیلئے مختص کی جانے والی رقم میں ۸؍ فیصد کمی کر دی گئی۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ جولائی ۲۰۲۳ء تک ’اسرو‘ نے ۳۶؍ ملکوں کیلئے ۴۳۱؍ سیٹیلائٹ لانچ کئے اور اس کام سے کل ۲۲ء۳؍ کروڑ ڈالر کی کمائی کی اور بھارت کو سیٹیلائٹ لانچ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے دس ملکوں میں باعزت جگہ بھی دلائی۔ گلوبل اسپیس اکنامی (عالمی خلائی معیشت) میں بھارت کی آج تک کی حصہ داری محض ۲؍ فیصد ہے جس کو اس دہے کے آخر تک ۹؍ فیصد بتانے کا مقصد طے کیا گیا ہے۔ اگر امکانات پر بحث کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں ۲۰۴۰ء تک ۱۰۰؍ ارب ڈالر کی اسپیس اکنامی بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ موجودہ یا حالیہ کامیابی نے تو اسرو کی راہ اور زیادہ روشن کر دی ہے مگر سائنسی تحقیقی اداروں یا سائنسدانوں کو دینے کیلئے حکومت کے پاس روپیہ کیوں نہیں ہے؟
بھارت کی خلائی تحقیق کا سلسلہ گزشتہ ۶۱؍ برسوں سے جاری ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں پہلے تو چاند پر پانی تلاش کیا گیا اور پھر چاند کے دوسرے سرے پر فتح کا پرچم لہرا دیا گیا۔ یہ دونوں واقعہ تاریخ مرتب کرنے جیسا ہے اور آئندہ ان دونوں کامیابیوں کا فائدہ پوری دنیا اٹھائے گی۔ بھارت کی صدیوں پرانی ریت بھی یہی ہے کہ دنیائے انسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ لوٹا کھسوٹا نہ جائے۔ اس ریت کو عالمی حیثیت ملنے پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ بھارت میں سرکاری اور عوامی سطح پر جو جشن منایا جا رہا ہے وہ جائز بھی ہے۔ ہم بھی اظہار فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ملک نے چاند فتح کیا ہے۔ جن سائنسدانوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے اور وہ حکومت بھی قابلِ مبارکباد ہے جس نے یہ کارنامہ انجام دینے کیلئے وسائل مہیا کئے مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کن رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے بھارت نے یہ کامیابی حاصل کی اور آئندہ ان رکاوٹوں کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اس مضمون کا عنوان سے واضح ہے، بہتوں کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ ہمارے سائنسداں کم خرچ میں تاریخی یا تاریخ ساز کارنامے انجام دے چکے ہیں اور انجام دیتے رہتے ہیں مگر یہ احساس ہونا بھی تو ضروری ہے کہ وسائل کی کمی یا عدم توجہی کے سبب جو رکاوٹیں حائل ہیں اگر وہ نہ ہوتیں تو بھارت کی خلائی تحقیق اور پیش رفت کی رفتار تیز تر ہوچکی ہوتی۔ جنہیں قدرت نے تخلیقی اور اختراعی ذہنوں سے نوازا ہے وہ ملک اور انسانی معاشرے کیلئے نعمت عظمیٰ ہیں مگر بھارت میں ہو یہ رہا ہے کہ ان سب کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ حکام وہ ہیں جو لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا، پر عمل کرتے، کروڑوں کماتے، لاکھوں خرچ کرتے اور خوشامدیوں کا جہاں آباد کرتے ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ کافی تخلیق کار بھی انہیں کے ساتھ چپکے رہتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں خلائی تحقیق کی ابتدا ہی نہ ہوتی اگر ڈاکٹر وِکرم سارا بھائی نے ۱۹۶۲ء میں ایک کمیٹی نہ بنائی ہوتی۔ وہی کمیٹی آج اسرو ہے جس نے چاند پر فتح کا پرچم بلند کیا ہے۔ ۱۹۶۲ء میں جب اس کی ابتدا ہوئی اس کا نام INCOSPAR تھا۔ ۱۵؍ اگست ۱۹۶۹ء کو INCOSPAR ہی ISRO بن گیا۔ آریہ بھٹ بھارت کا پہلا سیٹیلائٹ تھا جس کو ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۵ء میں سوویت یونین کی مدد سے لانچ کیا گیا تھا۔ پی ایس ایل وی بھارت کا لانچ وھیکل (گاڑی) ہے۔ ۱۹۹۴ء سے ۲۰۱۷ء تک اس نے ۳۹؍ کامیاب مشن انجام دیئے۔ اسی نے ۲۰۰۸ء میں چندریان۔۱؍ اور ۲۰۱۳ء میں مریخ آربیٹر اسپیس کرافٹ بھی لانچ کیا تھا۔
۲۰۱۹ء میں اسرو نے چندریان۔۲؍ لانچ کیا تھا اور یہ چاند کی سطح پر اترنے ہی والا تھا کہ لینڈر وِکرم سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ اس طرح ۴۷؍ دنوں کا اس کا سفر ادھورا رہ گیا تھا۔ چندریان۔۳؍ کی کامیاب لینڈنگ کے بعد آدتیہ ایل۔۱، گگن یان مشن اور منگل یان۔۲؍ کے لانچ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک زمانے تک روس اور امریکہ ہی خلائی دوڑ میں رہے مگر اب بھارت بھی ان چار ملکوں میں شامل ہے جو سطح چاند تک اپنا سیٹیلائٹ بھیج کر فتح کا پرچم لہرا چکے ہیں ۔ امریکہ نے ۱۹۷۶ء میں محفوظ طریقے سے اپنا سیٹیلائٹ اتارا تھا۔ سوویت یونین (روس) سے ۱۹۷۶ء میں آخری بار یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ چین ۲۰۱۳ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان یہ کارنامہ تین بار انجام دے چکا ہے۔ بھارت کے چندریان۔۳؍ کا کمال یہ ہے کہ اس کا ایک پایہ دو میٹر اونچی چٹان پر بھی پڑ جاتا تو وہ توازن کھو کر گر نہیں سکتا تھا۔ لینڈر نے اپنے سینسر اور کیمروں کی مدد سے بہتر جگہ تلاش کی اور پھر رفتار کم کرتے ہوئے لینڈنگ کی۔ ۲۰۰۸ء میں بھارت کے چندریان نے ہی انکشاف کیا تھا کہ چاند پر پانی ہے۔ طویل خلائی سفر کیلئے پانی بہت ضروری ہے۔ اس سے آکسیجن اور ہائیڈروجن الگ کرکے راکٹ فیول یعنی راکٹ کا ایندھن بنایا جاسکتا ہے۔ ۳۰؍ لاکھ ٹن ہیلیم۔۳؍ چاند پر موجود ہے جس کا استعمال ایٹمک انرجی کے لئے کیا جاسکتاہے۔
ایسی کتنی معلومات بھارت کی فتح نے مہیا کی ہیں اور وہ بھی نہایت کم خرچ میں ۔ یہ ہمارے سائنسدانوں کی خوبی ہے مگر حکومت کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وسائل کی کمی کہیں سائنسدانوں کی فتوحات کی راہ کا روڑا تو نہیں بن رہی ہے؟