ایک رپورٹ کے مطابق شاپنگ مالز کا دورہ کرنے والے ۸۰؍ فیصد افراد کوئی سامان نہیں خریدتے، وہ محض تفریح اور وقت گزاری کیلئے مالز جاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 12:59 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ایک رپورٹ کے مطابق شاپنگ مالز کا دورہ کرنے والے ۸۰؍ فیصد افراد کوئی سامان نہیں خریدتے، وہ محض تفریح اور وقت گزاری کیلئے مالز جاتے ہیں۔
شاپنگ مالز میں گاہکوں اور صارفین کی سہولت کیلئے تقریباً ہر قسم کی اشیاء کی درجنوں دکانیں اور برانڈز ہوتے ہیں۔ ان کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو ایک چھت کے نیچے ضرورت کا ہر سامان مل جائے۔ تاہم، گزشتہ چند برسوں سے شاپنگ مالز کے بیرونی اور اندرونی ڈیزائن میں مختلف قسم کی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ فوڈ کورٹ اور گیم زون، دو ایسی جگہیں ہیں جہاں گاہک زیادہ خرچ کرتے ہیں اس لئے ان دونوں ہی مقامات کو پُرکشش برانڈز اور سرگرمیوں سے لیس کیا جا رہا ہے۔ سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق شاپنگ مالز کا دورہ کرنے والے ۸۰؍ فیصد افراد حقیقت میں کوئی چیز یا سامان نہیں خریدتے، وہ محض تفریح اور وقت گزاری کیلئے مالز جاتے ہیں۔ ’’ونڈو شاپنگ‘‘کرتے ہوئے اگر کچھ پسند آجائے تو اپنی استطاعت کے مطابق خرید لیتے ہیں ورنہ خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں۔ ۲۰؍ فیصد افراد ایسے ہیں جو یہاں سے ڈھیر ساری اشیاء خریدتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر افراد ایسے ہیں جو کھانے پینے یا گیم وغیرہ کھیلنے کیلئے شاپنگ مالز کا دورہ کرتے ہیں۔ غالباً شاپنگ مالز میں دکانوں کے رقبے میں تبدیلی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
حال ہی میں فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ شاپنگ مالز میں موجود سپر مارکیٹس کا رقبہ تیزی سے سکڑتا جارہا ہے۔ بیشتر ایسے ہیں جن کا رقبہ ۵۰؍ فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ ’’کوئک کامرس‘‘ (Quick Commerce) یا ’’کیو کامرس‘‘ کو قرار دے رہے ہیں جو صارفین کی خریداری کا طریقہ تیزی سے تبدیل کررہا ہے۔ جن سپر مارکیٹس کی کا رقبہ کبھی ۵۰؍ ہزار مربع فٹ ہوتا تھا، اب ۳۰؍ سے ۲۵؍ ہزار مربع فٹ رہ گیا ہے۔ خیال رہے کہ کیو کامرس شاپنگ کے ایسے آن لائن ایپس ہیں جن کی مدد سے منٹوں میں سامان صارفین تک پہنچ جاتا ہے۔ صارف کو کسی شاپنگ مال، سپر مارکیٹ یا گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا۔ وہ دفتر یا گھر میں بیٹھے آرڈر دیتا ہے اور چند منٹوں میں سامان اس کے دروازے پر ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثالیں زیپٹو، بلنک اِٹ، فلپ کارٹ منٹس اور انسٹا مارٹ ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ صرف رعایتی داموں میں معیاری اشیاء گھر تک پہنچاتی ہیں بلکہ پوائنٹس اور واؤچرس وغیرہ جیسی اسکیموں کے ذریعے قیمتوں میں مزید کمی بھی کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے آن لائن آرڈرز کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ گروسری اور روزمرہ کی گھریلو اشیاء کیو کامرس ایپس کے ذریعے کی جانے والی تمام خریداریوں کا تقریباً ۷۵؍ فیصد ہیں۔ کیو کامرس روایتی سپر مارکیٹس کو متاثر کررہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر ڈی مارٹ جیسا سپر مارکیٹ رعایتی دام میں ایک کلو شکر ۳۰؍ روپے میں فروخت کرتا ہے تو وہی شکر کیو کامرس پر ۲۵؍ یا ۲۰؍ روپے میں دستیاب ہے۔
متذکرہ رپورٹ میں مختلف مالز کے مالکان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سپر مارکیٹس کے منافع میں چونکہ کمی واقع ہورہی ہے اس لئے ان کا رقبہ کم ہورہا ہے یا وہ مالز میں اپنے آؤٹ لیٹس بند کررہے ہیں۔ انہیں انفرادی اسٹور کھولنے میں زیادہ فائدہ نظر آرہا ہے۔ ایسے میں مالز مالکان کیلئے بڑا چیلنج ہے کیونکہ گروسری جیسی اشیاء کے ذریعے صارفین کو مالز تک لانے کا ان کا حربہ اب ناکام ثابت ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ صارفین کے بدلتے رجحان کے پیش نظر مالز میں کھانے پینے کے آؤٹ لیٹس اور بیوٹی اینڈ ہیلتھ برانڈز کو جگہ دے رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پریمیم مالز میں بیوٹی اینڈ ہیلتھ کے برانڈز کی تعداد تقریباً دوگنا ہو گئی ہے، جو وبائی مرض سے پہلے ۶؍ فیصد تھی۔ اسی طرح کھانے پینے کے آؤٹ لیٹس اب مالز کے ۲۸؍ سے ۲۰؍ فیصد حصے پر قابض ہیں جو پہلے ۸؍ فیصد حصے پر تھے۔
اب تقریباً ہر مال شاپنگ کے بجائے تفریح کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اِن میں فوڈ کورٹ اور گیم زون کے علاوہ ایسے تفریحی مراکز بھی شروع کئے جارہے ہیں جو خالصتاً پکنک کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً اسنو ورلڈ، کڈزینیا اور پلے اینڈ لرن وغیرہ۔ اب مالز مختلف موقعوں، تہواروں اور خصوصی دنوں کی مناسبت سے تھیم کے مطابق سجائے جاتے ہیں اور تفریح کی خاطر مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ ان سبھی کا ایک ہی مقصد ہے، زیادہ سے زیادہ صارفین کو اپنے آپ سے جوڑنا تاکہ ای کامرس اور کیو کامرس کی دنیا میں ان کا وجود ختم نہ ہوجائے جو پہلے ہی سپر مارکیٹس اور روایتی بازاروں کو زبردست ٹکر دے رہے ہیں۔