بین الاقوامی میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا پر ایسی سیکڑوں خبریں، ویڈیو کلپس اور تصاویر وائرل ہیں جن میں غزہ، فلسطین میں بھکمری کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 31, 2024, 4:18 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
بین الاقوامی میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا پر ایسی سیکڑوں خبریں، ویڈیو کلپس اور تصاویر وائرل ہیں جن میں غزہ، فلسطین میں بھکمری کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا پر ایسی سیکڑوں خبریں، ویڈیو کلپس اور تصاویر وائرل ہیں جن میں غزہ، فلسطین میں بھکمری کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ بھکمری کا سب سے بڑا شکار بچے ہیں اور اس سے ہونے والی اموات کی جو تصاویر دنیا بھر میں دیکھی جارہی ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ لیکن صرف غزہ ہی نہیں دنیا کے ۱۹۵؍ ممالک میں سے ۵۱؍ میں قحط اور بھکمری جیسے حالات ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) ۲۰۲۳ء کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں ۳۳۳؍ ملین ایسے لوگ ہیں جنہیں ’غذائی تحفظ‘ حاصل نہیں ہے، یعنی اگر انہوں نے ایک وقت کا کھانا کھالیا ہے تو پھر وہ اس بات کیلئے پُریقین نہیں ہیں کہ انہیں اگلی خوراک کب ملے گی۔ اقوام متحدہ کے غذائی اور زرعی ادارے (ایف اے او، فوڈ اینڈ اگریکلچر آرگنائزیشن) کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ دنیا میں ۸۲۸؍ ملین (دنیا کی مجموعی آبادی کا ۱۰؍ فیصد) آبادی ہر رات بھوکے پیٹ سوتی ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ۲۰۲۲ء میں دنیا بھر میں روزانہ ایک بلین (ایک ارب) کھانے پینے کی اشیاء ضائع کی گئیں۔ اسے غذائی بحران کا ’عالمی المیہ‘ (گلوبل ٹریجڈی) قرار دیا گیا ہے۔ جب دنیا کی ۸۲۸؍ ملین آبادی روزانہ بھوکے پیٹ سور ہی ہے، دیگر افراد اور ادارے کم و بیش ایک کھرب ڈالر مالیت کی غذا روزانہ برباد کر رہے ہیں۔ انسان ایک بلین ارب ٹن سے زیادہ غذا روزانہ کی بنیاد پر ضائع کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا میں انسانوں کی حقیقت
اقوام متحدہ کی ہنگر ہاٹ اسپاٹس رپورٹ میں برکینا فاسو، مالی، جنوبی سوڈان، سوڈان اور مقبوضہ فلسطین کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں غذائی بحران سب سے زیادہ ہے۔ بھکمری اور قحط سے متاثرہ افراد میں سے ۷۵؍ فیصد سے زائد متذکرہ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ دوسری جانب، عالمی ادارہ صحت کی ۲۰۲۲ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ۱۲۲؍ ملین بچے غذائی تغذیہ کا شکار ہیں جن میں سے بیشتر ایسے ہیں جو اپنی عمر سے کہیں زیادہ چھوٹے یا بڑے نظر آتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو عمر کے لحاظ سے کافی دبلے پتلے ہیں۔ قحط، بھکمری، غذائی تغذیہ اور غذا کے ضیاع کی یہ رپورٹیں ایک باشعور انسان کو کئی محاذ پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاء کے ضیاع سے ماحولی تبدیلی ہورہی ہے، امیری اور غریبی کے خلاء میں اضافہ ہورہا ہے، عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور عالمی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ بھکمری والے علاقوں میں رہائش پذیر افراد پھرتیلے انداز میں کام کاج کرنے سے قاصر ہیں، وہاں کی معیشت کی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے، صحت عامہ کے اخراجات زیادہ ہیں اور ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں قحط کے سبب عالمی معیشت کے مالی نقصان میں ۶۳؍ فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ماحولی تبدیلی کی وجہ سے زمینیں بنجر ہورہی ہیں اور دریا سوکھ رہے ہیں۔ غذائی تغذیہ کے شکار علاقوں میں بچوں کو وہ غذائیت وقت پر نہیں مل پا رہی ہیں جن کی انہیں ایک مخصوص عمر میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما قدرتی طریقے سے نہیں ہورہی ہے۔ ان کا ذہن عام بچوں کے ذہن کی طرح تیز نہیں ہوتا۔ اگر درست وقت پر ان کے ذہن اور جسم کو غذائیت سے بھرپور کھانا نہ ملے تو وہ دنیا کی افرادی قوت میں صحیح طریقے سے شامل نہیں ہوپاتے اور چھوٹی بڑی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
کاشتکاری اور بیج کے خرید و فروخت کا عمل کافی طویل ہوتا ہے۔ اس پورے عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایسے اناج کاشت کئے جارہے ہیں جنہیں کبھی کھایا ہی نہیں جائے گا بلکہ ضائع کردیا جائے گا۔ رپورٹ کی شریک مصنفہ کلی منٹن او کانر کہتی ہیں کہ ہم نے ایک محتاط اندازے کے مطابق ضائع ہونے والی اشیاء کا اندازہ ایک ارب لگایا ہے، درحقیقت یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھانے پینے کی سب سے زیادہ اشیاء گھروں سے ضائع کی جارہی ہیں، یعنی ۶۰؍ فیصد۔ ریستوراں اور ہوٹلوں میں ۲۸؍ فیصد اور دکانوں وغیرہ سے ۱۲؍ فیصد اشیاء ضائع ہورہی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف گھروں سے ۶۳۱؍ ملین ٹن کھانا ضائع کیا جارہا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ اشیاء خرید رہے ہیں اور بچی ہوئی اشیاء کو استعمال کرنے کے بجائے ضائع کر رہے ہیں۔
خوراک کا ضیاع صرف امیر ممالک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر ملک کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ ہر ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کو بے دریغ ضائع کیا جارہا ہے۔ کبھی ایکسپائری ڈیٹ (جو سامان خریدنے سے پہلے دیکھنا چاہئے) کے نام پر تو کبھی زیادہ کھانا پکا کر اسے کچرے کے ڈبے میں پھینک دینے کے نام پر۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ضائع ہونے والی اشیاء کو ایک میدان میں جمع کیا جائے تودنیا کی کاشتکاری کے قابل زمین کا ۳۰؍ فیصد حصہ بھر جائے گا۔ اگر کھانوں کے ضیاع کو ایک ملک کا درجہ دے دیا جائے تو یہ امریکہ اورچین کے بعد کاربن کے اخراج کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہوگا۔
پیسوں کے درست استعمال، توانائی کی بچت، کاربن کے اخراج میں کمی، کھانے پینے کی اشیاء کی منصوبہ بند طریقے سے خریداری، اور اضافی اور بچ جانے والی اشیاء کی مستحقین تک رسائی جیسی باتوں پر انسانوں کی ایک بڑی تعداد غور نہیں کررہی ہے جبکہ ہم ماحولی تبدیلی کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ان باتوں پر غور کیا جانا چاہئے اور کھانے پینے کی اشیاء کے ضیاع کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں۔