• Tue, 19 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشیانہ: معیشت کو استحکام بخشنے میں ای کامرس ویب سائٹس کا اشتراک

Updated: May 19, 2024, 4:09 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

۱۹۹۹ء میں فیب مارٹ ڈاٹ کام کی بنیاد رکھتے وقت ’’کے ویتھی سورن‘‘ اپنی کامیابی کے بارے میں پُر یقین نہیں تھے کیونکہ ہندوستانی گاہکوں اور صارفین کو سمجھنا ہمیشہ ہی سے ایک پیچیدہ عمل رہا ہے۔

Today, there are more than 26.5 million e-commerce websites in the world, of which the largest number (14 million) is in the US, while India has slightly less at 13.98 million e-commerce sites. Photo: INN
آج دنیا میں ۲۶ء۵؍ ملین سے زائد ای کامرس ویب سائٹس ہیں جن میں سب سے زیادہ (۱۴؍ ملین) امریکہ میں ہیں جبکہ ہندوستان میں اس سے تھوڑا ہی کم یعنی ۱۳ء۹۸؍ ملین ای کامرس سائٹس ہیں۔ تصویر : آئی این این

۱۹۹۹ء میں فیب مارٹ ڈاٹ کام کی بنیاد رکھتے وقت ’’کے ویتھی سورن‘‘ اپنی کامیابی کے بارے میں پُر یقین نہیں تھے کیونکہ ہندوستانی گاہکوں اور صارفین کو سمجھنا ہمیشہ ہی سے ایک پیچیدہ عمل رہا ہے۔ کے ویتھی سورن کو ہندوستانی ای کامرس مارکیٹ کا ’بانی‘ کہا جاتا ہے۔ اس ویب سائٹ پر سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور کیسٹ وغیرہ فروخت ہوتی تھیں۔ واضح رہے کہ ابتداء میں جن انٹرپرینیورز نے ای کامرس ویب سائٹس شروع کی تھی، وہ الیکٹرانک مصنوعات اورکتابیں ہی فروخت کرتے تھے۔ اس دور میں الیکٹرانک مصنوعات اور کتابیں ہی تفریح کا ذریعہ تھیں، اسلئے اُس وقت کے انٹرپرینیور نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کو اہم خیال کیا۔ اگر آپ غور کریں تو احساس ہوگا کہ بوسٹن کمپیوٹر ایکسچینج ہو، امیزون ہو یا فلپ کارٹ، سبھی کا بزنس ماڈل، اُس دور میں بھی ایک سا تھا۔ 
 ملک کی پہلی ای کامرس ویب سائٹ فیب مارٹ ڈاٹ کام لانچ ہونے کے چند مہینوں بعد ہی فلاپ ہوگئی۔ اس وقت ہندوستان میں نہ انٹرنیٹ مستحکم تھا اور نہ ہی ڈجیٹل انفراسٹرکچر۔ جن ممالک کے افراد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے ماہر تھے، وہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے افراد کا پیسہ، ڈیٹا اور معلومات بآسانی چوری کرلیتے تھے۔ اُس وقت ہندوستان میں آن لائن صارفین کی تعداد نہ کے برابر تھی، لیکن جیسے جیسے انٹرنیٹ مستحکم ہوتا گیا، ڈجیٹل انفراسٹرکچر کو محفوظ بنایا گیا اور صارفین کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون آگیا تو لوگوں نے آن لائن شاپنگ کی شروعات کردی۔ اسٹیٹسا کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ۲۰۲۳ء میں ہندوستان میں اوسطاً ۲۵۰؍ ملین فعال صارفین ہیں جو آن لائن شاپنگ کرتے ہیں۔ ان میں ہر عمر اور جنس کے افراد شامل ہیں۔ 

یہ بی پڑھئے: معاشیانہ: ’گھوسٹ مالز‘ کی بڑھتی تعداد؛ معیشت کیلئے مفید یا نقصاندہ؟

ابتداء میں اہم سوال یہ تھا کہ کیا ای کامرس ویب سائٹس، روایتی بازاروں پر تالہ لگادیں گی؟ اس ضمن میں ماہرین معاشیات نے متعدد تجزیئے کئے اور مضامین لکھے، لیکن اس بات پر اگر آج غور کریں تو احساس ہوگا کہ برسوں مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد ۲۰۱۳ء میں ای کامرس ویب سائٹس کو مثبت نتائج ملنے شروع ہوئے۔ تاہم، ان کی آمد سے روایتی بازار ختم نہیں ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے ہیں اور صارفین اب بھی روایتی انداز میں شاپنگ کرنے کو ترجی دیتے ہیں (اس موضوع پر آئندہ کسی وقت روشنی ڈالی جائے گی)۔ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے کاروبار کی نئی راہیں کھولیں، صارفین کا شاپنگ کرنے کا انداز تبدیل ہوا، پڑھے لکھے ہندوستانی ہوں یا کم پڑھے لکھے، سبھی کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کا طریقہ آیا، اور ’’کیش آن ڈیلیوری‘‘ سے لوگ ’’آن لائن پے منٹ‘‘ کے آپشن تک آگئے۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں اس سیکٹر نے اپنے آپ کو محفوظ اور مستحکم بنانے میں کئی محاذوں پر جنگی پیمانے پر کام کیا ہے۔ آج ای کامرس ویب سائٹس پر عوام کا اعتماد مستحکم ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں نئی کمپنیاں بھی قسمت آزما رہی ہیں۔ 
 ستمبر ۲۰۲۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق آج دنیا میں ۲۶ء۵؍ ملین سے زائد ای کامرس ویب سائٹس ہیں جن میں سب سے زیادہ (۱۴؍ ملین) امریکہ میں ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں امریکہ میں ۹؍ ملین ای کامرس سائٹس تھیں، یعنی ۴؍ سال میں ۵؍ ملین نئی سائٹس شروع ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں ۱۳ء۹۸؍ ملین ای کامرس سائٹس ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ملک میں صرف ۳ء۶؍ ملین ای کامرس ویب سائٹس تھیں، یعنی ۴؍ برسوں میں ۲۲۶ء۳؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وبائی حالات کے دوران ان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا، اور یہ دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان میں سے چند ای کامرس ویب سائٹس ہی ایسی ہیں جو کسی وجہ سے خسارے میں چل رہی ہیں، ورنہ بیشتر ایسی ہیں جنہیں ہر سہ ماہی میں منافع ہورہا ہے۔ 
 ہندوستان کی جی ڈی پی میں اس شعبے کا اشتراک ۰ء۲؍ فیصدہے جو ۲۰۳۰ء تک ۲ء۵؍ فیصد تک ہوجائے گا۔ اسوچیم کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ شعبہ (پیکنگ، شپنگ، ڈیلیوری، اور پے منٹ وغیرہ جیسے مختلف مراحل میں ) ایک ملین سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ جس تیزی سے یہ ترقی کی منازل طے کررہا ہے، اس میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے میں ان افراد کیلئے بھی روزگار کے مواقع ہیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، یا، کسی وجہ سے ان کا تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ اس شعبے میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی ملازمتیں ہیں۔ یہ شعبہ نہ صرف اپنے طور پر ملازمتیں پیدا کررہا ہے بلکہ روایتی بازاروں کو استحکام بخشنے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ ہر محاذ پر مزید مضبوطی حاصل کرے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK