ڈیفالٹ سرچ انجن رہنے کیلئے گوگل خطیر رقم ادا کرتا ہے اور سب سے زیادہ ایپل کمپنی کو ادا کرتا ہے ، اس کے باوجود اس کا منافع، اخراجات سے دو گنا اور تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال گوگل سرچ انجن کا منافع ۱۶۵؍ بلین ڈالر تھا۔
EPAPER
Updated: November 12, 2023, 2:39 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ڈیفالٹ سرچ انجن رہنے کیلئے گوگل خطیر رقم ادا کرتا ہے اور سب سے زیادہ ایپل کمپنی کو ادا کرتا ہے ، اس کے باوجود اس کا منافع، اخراجات سے دو گنا اور تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال گوگل سرچ انجن کا منافع ۱۶۵؍ بلین ڈالر تھا۔
۲۴؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو امریکی حکومت نے امریکہ کے محکمۂ انصاف (ڈپارٹمنٹ آف جسٹس، ڈی او جے) میں گوگل ایل ایل سی کے خلاف عدم اعتماد کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ گوگل پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ۱۸۹۰ء کے شیرمین اینٹی ٹرسٹ ایکٹ کے سیکشن ایک اور دو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اشتہاری ٹیکنالوجی (ایڈٹیک) مارکیٹ پر غیر قانونی طور پر اجارہ داری قائم کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ یہ مقدمہ ۲۰۲۰ء میں شروع ہونے والےعدم اعتماد کے مقدمے سے الگ ہے جس میں گوگل پر ’’سرچ انجن مارکیٹ‘‘ پر غیر قانونی طور پر اجارہ داری کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان مقدمات کا مقصد گوگل کو سرچ انجن اور ایڈٹیک کاروبار کے اہم حصے فروخت کرنے پر مجبور کرنا اور کمپنی سے بعض کاروباری طریقوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا ہے۔
۲۰۰۰ء کے عشرے کے آغاز ہی سے گوگل نے ایڈ ٹیک مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت کے ایکسائٹ، انفو سیک، آلٹا وسٹا، ہاٹ باٹ، آل دی ویب، یاہو اور آسک جیوز جیسے کئی سرچ انجن گوگل کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ آج سرچ انجن مارکیٹ میں گوگل کا شیئر ۸۶؍ تا ۹۶؍ فیصد ہے۔ جی میل، اسمارٹ فون، اینالٹکس اور میٹ وغیرہ جیسی گوگل کی۲۷۱؍ سے زائد مصنوعات فعال ہیں ۔ بعض زمروں میں گوگل مارکیٹ لیڈر ہے یا دوسرا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے۔ ایپل انکارپوریٹڈ کے بعد گوگل دنیا کی دوسری سب سے بڑی ٹیک کمپنی ہے۔ ڈیسک ٹاپ ہو یا اسمارٹ فون، سبھی پر گوگل سرچ انجن کی اجارہ داری ہے۔ اسی اجارہ داری کو کم کرنے کیلئے امریکہ میں گوگل پر متعدد مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
اس دوران گوگل کے متعلق کئی انکشافات ہوئے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ گوگل ایپل کے ویب براؤزر سفاری، آئی میک، آئی فون اور دیگر آلات پر ڈیفالٹ سرچ انجن (طے شدہ سرچ انجن) رہنے کیلئے کمپنی کو ہر سال خطیر رقم ادا کرتا ہے۔ اس ضمن میں ۲۰۲۱ء میں گوگل نے ایپل کو ۲۶ء۳؍ ملین ڈالر ادا کئے ہیں ۔ بیشتر قارئین کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ جب ایپل دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے تو اس نے اب تک اپنا سرچ انجن کیوں نہیں بنایا؟ دراصل، گوگل، ڈیفالٹ سرچ انجن رہنے کیلئے ایپل کو اتنی بڑی رقم اسی لئے ادا کرتا ہے کہ کہیں ایپل اپنا سرچ انجن نہ تیار کرلے۔ گوگل، ڈیفالٹ سرچ انجن رہنے کیلئے خطیر رقم ضرور ادا کرتا ہے لیکن اس کا منافع، اخراجات سے دو گنا اور تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں گوگل سرچ انجن کا منافع ۱۶۵؍ بلین ڈالر تھا۔ ڈیفالٹ سرچ انجن رہنے کیلئے گوگل سب سے زیادہ رقم ایپل کو ادا کرتا ہے اس کے بعد سیمسنگ، اوپو، ویویو اور اہم فون بنانے والی متعدد کمپنیوں کے نام آتے ہیں ۔ اس ضمن میں موزیلا (ویب براؤزر) کا نام بھی قابل ذکر ہے۔
اپنے حریفوں کے مقابلے میں گوگل تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ سرمائے کے لحاظ سے بھی یہ دیگر ٹیک کمپنیوں سے کئی قدم آگے ہے۔ گوگل اپنی اجارہ داری برقررا رکھنے کیلئے اشتہارات بھی اس طرح تیار کرتا ہے کہ منظم اور غیر منظم شعبے کے افراد بھی مختلف قسم کی معلومات کیلئے اب اسی پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔ اپنے اشتہارات کے ذریعے وہ لوگوں کے ذہنوں پر یہ نقش کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ اگر انہیں انٹرنیٹ پر کوئی چیز تلاش کرنی ہے تو اس کا جواب صرف اور صرف گوگل کے پاس ہے۔ آپ سوچئے کہ انٹرنیٹ پر کوئی بھی مواد تلاش کرنے کیلئے آخری مرتبہ آپ نے گوگل کے علاوہ کسی اور سرچ انجن کی مدد کب لی تھی؟ غالباً اس سوال کا جواب ان افراد کے پاس ہوگا جنہوں نے انٹرنیٹ آنے کے بعد بنگ، یاہو یا موزیلا استعمال کیا ہوگا اور پھر گوگل پر اس لئے منتقل ہوگئے ہوں گے کہ مارکیٹ میں اس سے بہتر سرچ انجن نہیں تھا۔ تاہم، ٹیکنالوجی کے ساتھ پروان چڑھنے والی موجودہ نسل کو گوگل کے علاوہ شاید ہی کسی سرچ انجن کا نام معلوم ہو کیونکہ اب کوئی چیز نہ معلوم ہونے پر گھروں میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’گوگل سے پوچھو‘‘ یا ’’گوگل کرلو‘‘ یا ’’گوگل پر دیکھ لو۔‘‘ اب گوگل سرچ انجن صرف ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے افراد تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ ایسا گھریلو برانڈ بن گیا ہے جس کے متعلق گھر کے بڑے سے لے کر بچے تک واقف ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ وہ سب ’’گوگل کرنا‘‘ جانتے بھی ہیں۔
۱۹۹۷ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک گوگل سرچ انجن نے اپنے آپ کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے صارفین کو ٹائپنگ سے لے کر وائس کمانڈ تک کی سہولت فراہم کی ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ کمپنی اپنی مصنوعات کو ایڈوانس کرنے کی کامیاب کوشش کرتی ہے۔ گوگل دنیا کا واحد سرچ انجن ہے جو مصنوعی ذہانت کے تلاش کردہ مشمولات بھی پیش کرتا ہے۔ واضح رہے کہ مارکیٹ پر اجارہ داری اسی کمپنی کی ہوتی ہے جو صارفین کی نبض سمجھتی ہے، بازار کے رجحانات پر نظر رکھتی ہے، اختراعات کیلئے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کرتی ہے اور اپنے حریفوں سے نمٹنے کیلئے درست حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں گوگل کے خلاف اجارہ داری کی مد میں متعدد مقدمات درج کروائے گئے ہیں لیکن یہ کمپنی کارپوریٹ کے اصولوں اور ان میں واقع خامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کامیابی سے اپنا کاروبار کررہی ہے جبکہ صارفین اسے طاقت بخشنے کیلئے مسلسل ’’گوگل کررہے ہیں۔‘‘