’دی اکنامک ویلیو آف پیس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں جاری جنگوں کے سبب عالمی معیشت کو سالانہ ۱۷ء۴؍ کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
EPAPER
Updated: October 06, 2024, 6:42 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
’دی اکنامک ویلیو آف پیس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں جاری جنگوں کے سبب عالمی معیشت کو سالانہ ۱۷ء۴؍ کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
جب دنیا میں نئے سال یعنی ۲۰۲۴ء کا سورج طلوع ہوا تھا تو مختلف خطوں میں جنگیں شروع تھیں، جو اَب بھی جاری ہیں۔ ان جنگوں اور تنازعات میں لاکھوں افراد کی اموات ہوچکی ہیں۔ مگر یہ تنازعات گزرتے وقت کے ساتھ مزید خونیں ہوتے جا رہے ہیں۔ ہیتی، گھانا، صومالیہ، مراکش، سوڈان، فلسطین اسرائیل، آرمینیا، روس یوکرین، افغانستان، بنگلہ دیش، میانمار، منی پور (ہندوستان)، روانڈا، یوگانڈا، لبنان، ایران، شام اور ایکواڈور چند ایسے ملک اور علاقے ہیں جہاں گروہوں یا ممالک کے درمیان خونریز جنگیں چھڑی ہوئی ہیں لیکن انہیں ختم کرنے میں علاقائی حکومتیں کامیاب ہوپارہی ہیں نہ اقوام متحدہ (یو این)۔ یو این کے مطابق مسلح تصادم میں دنیا بھر میں یومیہ اوسطاً ۱۰۰؍ شہریوں کی موت ہوتی ہے۔
جنگیں صرف ان ممالک یا علاقوں کو متاثر نہیں کرتیں جہاں وہ ہورہی ہوتی ہیں، ان کے اثرات اطراف کے علاقوں اور دیگر ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔ جنگیں موت اور تباہی کا باعث بنتی ہیں، تجارت میں خلل ڈالتی ہیں، اور عوامی مالیات کو تباہ کر دیتی ہیں۔ جن ممالک میں جنگیں ہورہی ہوتی ہیں، وہاں کے افراد مالی طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس دوران وہاں مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کی بنیادی اشیاء تک کیلئے بیرونی امداد کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ویژن آف ہیومینیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں جاری ۱۰؍ بڑی جنگوں میں تشدد کی اوسط سطح، ان ممالک کی جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کے ۴۱؍ فیصد کے برابر ہے۔ دی اکنامک ویلیو آف پیس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگوں کے سبب عالمی معیشت کو سالانہ ۱۷ء۴؍ کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ بالفاظ دیگر بین الاقوامی جی ڈی پی ۱۲ء۹؍ فیصد تک متاثر ہورہی ہے۔ تنازعات کے معیشت پر بہت سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، بشمول پیداواری صلاحیت اور اقتصادی سرگرمیوں میں کمی، غیر مستحکم ادارے، کاروباری اعتماد میں کمی، اور پناہ گزینوں کا بہاؤ۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امن، خوشحالی، کم مہنگائی، اور زیادہ ملازمتوں کا باعث بن سکتا ہے۔
جنگ اور تنازعات ملک کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا کر، پیداوار میں خلل ڈال کر، اور انسانی وسائل کی دستیابی کو متاثر کر کے اقتصادی ترقی کو کم کر سکتے ہیں۔ ان کے عالمی معیشت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جن میں امن کا ختم ہونا، عالمی معیشت کی از سر نو ترتیب، اور ڈی گلوبلائزیشن شامل ہیں۔ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کہتا ہے کہ گزشتہ ۲۰؍ برسوں میں دنیا کو جنگوں اور تنازعات کے سبب جتنا نقصان ہوا ہے، اتنا آلودگی اور قدرتی حادثات کے سبب بھی نہیں ہوا ہے۔ جنگوں نے افرادی قوت کو ختم کردیا ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کی اگر اموات نہیں ہوتی تو وہ عالمی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے۔ متذکرہ اعدادوشمار کے مطابق فی شخص ۲۲۰۰؍ ڈالر کا اشتراک کرتا مگر بلاوجہ کے تنازعات نے لوگوں کی زندگیاں چھین لیں اور اس کے سبب معیشت کو جس رفتار سے مستحکم ہونا چاہئے تھا، وہ سست پڑگئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں امن قائم ہوتا اور تمام ممالک ایک ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے تو جس دنیا کا خواب ہم ۲۰۵۰ء، ۲۰۶۰ء اور ۲۰۷۰ء کیلئے دیکھ رہے ہیں وہ ۲۰۲۰ء ہی میں ممکن ہوجاتا۔
جنگوں، خاص طور پر دو ممالک کے درمیان، میں صرف ہتھیار بنانے اور انہیں سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں انکشاف کیا کہ جنگ زدہ خطوں میں دنیا کے بڑے اور سپر پاور کہلانے والے ممالک نے امداد پر ہتھیاروں کے سپلائی کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ نے ۴۹ء۵؍ بلین ڈالر کے ہتھیار سپلائی کئے ہیں جبکہ امداد کے نام پر اس نے صرف ۸ء۳؍ بلین ڈالر خرچ کئے۔ روس نے ۲۴ء۱؍ بلین ڈالر کے اسلحے برآمد کئے جبکہ ۱۲؍ ملین ڈالر امداد کے نام پر صرف کئے گئے۔ فرانس، چین اور برطانیہ نے ۱۴؍ بلین ڈالر، ۵ء۸؍ بلین ڈالر اور ۳ء۷؍ بلین ڈالر کے ہتھیار سپلائی کئے جبکہ امداد پر بالترتیب ۳۰۰؍ ملین ڈالر، ۱۰؍ ملین ڈالر اور ۹۰۰؍ ملین ڈالر خرچ کئے گئے۔
اب آپ اندازہ لگایئے کہ اگر سپر پاور ممالک ہتھیاروں کی اپنی کمپنیوں کو فروغ دینے کیلئے اتنی خطیر رقم کا سودا کرتے ہیں اور جنگ زدہ علاقوں کے شہریوں کو امداد کے نام پر اتنی قلیل رقم مختص کرتے ہیں تو دنیا کے حالات بہتر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ وہی ممالک ہیں جن کے سربراہان تنازعات والے خطوں میں جنگ ختم کرنے کے بیان دیتے نظر آتے ہیں مگر اپنی کمپنیوں کے ہتھیاروں کا سپلائی جاری رکھتے ہیں۔ کیا اس صورت میں دنیا میں امن قائم کرنا ممکن ہے؟ خیال رہے کہ عالمی معیشت مضبوطی سے جڑی ہوئی اور تمام ممالک ایک دوسرے پر منحصر ہیں، لہٰذا اگر تصادم کا اثر براہ راست نہ ہو، تب بھی یہ بالواسطہ ہو سکتا ہے۔ متذکرہ اعدادوشمار کے پس منظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپر پاور ممالک جنگوں سے فائدہ اٹھاتے نظر آرہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔