• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ:’ گرے مارکیٹ‘ اور ’ڈارک ویب‘ پر متنازع ’او‘ کی بڑھتی فروخت تشویشناک

Updated: February 23, 2025, 1:53 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اوزیمپک اور اس کے جیسی دیگر دوائیں جو فوری نتائج کا وعدہ کرتی ہیں، یہ ان لوگوں کیلئے خطرناک ہوسکتی ہیں جو انہیں بنیادی طبی ضرورت کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

نئی دہلی کے ایک امیر خاندان سے تعلق رکھنے والی ۱۲؍ سالہ طالبہ کو اپنے کھانے پینے پر قابو نہیں تھا جس کے سبب اس کا وزن بڑھ رہا تھا اور پھر اسکول میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا۔ ساتھی طلبہ اس کے وزن کو نشانہ بناتے ہوئے اس پر فقرے کستے اور نت نئے ناموں سے پکارتے۔ چند مہینوں بعد ساتھی طلبہ نے محسوس کیا کہ طالبہ کے جبڑے تیکھے ہوتے جا رہے ہیں، ’’ڈبل چِن‘‘ بالکل ختم ہوگیا ہے اور اس کے وزن میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ دریں اثناء، طالبہ کی ماں نے بھی اپنی بیٹی میں یہ تبدیلی دیکھی تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی مگر یہ خوشی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکی۔ ایک دن ایک ڈیلیوری بوائے نے والدہ کے ہاتھوں میں ایک پارسل کا ڈبہ پکڑایا جسے کھول کر دیکھنے اور اس پر مختصر سی تحقیق کے بعد ان کے ہوش اُڑ گئے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بیٹی نے وزن کم کرنے کیلئے ایسا طریقہ اپنایا ہے جس کے فائدے کم نقصانات زیادہ ہیں۔ 
گزشتہ ہفتوں میں بالی ووڈ کی ۲؍ اہم اور بڑی شخصیات میں یہ تبدیلیاں نظر آئیں جن میں معروف فلمساز اور ہدایتکار کرن جوہر اور اداکار اوم کپور ہیں۔ ان کے وزن میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں، یا، یہ دونوں شخصیات نے وزن کیسے کم کیا؟ اس کے بارے میں دونوں ہی بات چیت کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا صارفین کو اندازہ لگانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان دونوں فلمی شخصیات کی تصاویر، ریلز، کلپس، شاٹس کے کمنٹ باکس میں ۹۶؍ فیصد صارفین نے یہی لکھا ہے کہ ان شخصیات نے ’’میریکل ڈرگ‘‘ (معجزاتی دوا) کا استعمال کیا ہے جس کا نام ’’اوزیمپک‘‘ہے۔ 
کم کارڈیشین اور اوپرا ونفرے جیسے ہالی ووڈ ستاروں کی طرف سے اس کے استعمال کی سرگوشیوں سے لے کر بالی ووڈ تک، اور ا ب یہ ہندوستان کے اشرافیہ حلقوں (ایلیٹ کلاسیز) میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اوزیمپک اور اس فارمولے پر بنائی گئیں دیگر دوائیں جیسے ویگووی اور مونجارو، فوری نتائج کا وعدہ کرتی ہیں۔ تاہم، یہ ان لوگوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں جو انہیں بنیادی طبی ضرورت کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ وزن کم کرنے والی دوا کے طور پر اوزیمپک میں دلچسپی صرف فلمی ستاروں اور ماڈلز تک محدود نہیں ہے۔ یہ اب مین اسٹریم کا حصہ بن گیا ہے۔ خیال رہے کہ اوزیمپک ہندوستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں کو دیا جاتا ہے نیز جو افراد وزن کم کرنے کے خواہشمند ہیں، انہیں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر یہ دوا نہیں فراہم کی جاتی۔ تاہم، ہندوستان میں مریضوں کی حالت دیکھتے ہوئے ہی ڈاکٹر یہ دوا تجویز کرتے ہیں اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں اوزیمپک کی کھپت تیزی سے کیسے بڑھ رہی ہے؟
اوزیمپک، جی ایل پی وَن (گلوکاگن لائک پیپٹائڈ۔ ۱) نامی ہارمون کی نقل کرتا ہے، جو کھانے کے جواب میں آنتوں میں خارج ہوتا ہے۔ یہ انسولین کے اخراج کو متحرک کرکے اور ہاضمے کے عمل کو سست کرکے خون میں شکر کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے، اس سے خون میں شکر کی سطح مستحکم رہتی ہے۔ جی ایل پی ون بنیادی طور پر دماغ کو بتاتا ہے کہ آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ یہ بھوک میں زبردست کمی کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں وزن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مختصراً، اوزیمپک آپ کے دماغ کو یہ سوچنے پر مجبور کر کے آپ کی خوراک کم کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ ستارے نیز سوشل میڈیا انفلوئنسرز اسے دبلا پتلا رہنے کا ’جادوئی نسخہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے عقب میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ جب ایک شخص ذیابیطس جیسی طبی حالت کے بغیر وزن میں کمی کیلئے اوزیمپک لیتا ہے تو وہ بنیادی طور پر اپنے جسم کے قدرتی نظام کو ہائی جیک کررہا ہوتا ہے۔ یہ جسم کے اندرونی اعضاء کو زبردست نقصان پہنچاتا ہے۔ بغیر طبی نسخے کے اوزیمپک استعمال کرنے سے دل کا دورہ، فالج، آنتوں کے مسائل، جگر کی پیچیدگیاں، لبلبے میں سوزش وغیرہ جیسی علامتوں اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 
ایسے ہندوستانی جو مغربی ممالک ( جہاں اوزیمپک آسانی سے دستیاب ہے) کے سفر کی استطاعت رکھتے ہیں، وہاں سے اسے اسٹاک میں خریدتے ہیں اور پھر استعمال کرتے ہیں۔ لانسیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین کے بعد ہندوستان میں شہری علاقوں کے ۷۰؍ فیصد افراد زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں۔ زیادہ وزن یا موٹاپے سے چھٹکارا پانے اور خوبصورتی کے ’غیر معمولی‘ معیار حاصل کرنے کیلئے نوجوانوں کی بڑی تعداد اوزیمپک استعمال کررہی ہے۔ اب عام ہندوستانی بھی یہ دوا حاصل کررہا ہے مگر اس کا ذریعہ ’’میڈیکل اسٹور‘‘ نہیں بلکہ ’’گرے مارکیٹ‘‘ اور ’’ڈارک ویب‘‘ ہے جہاں اسے ’’او‘‘ کہا جاتا ہے۔ گولڈ مین ساخس کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۳؍ سال میں اس کی کھپت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ۲۰۲۵ء میں اس کا مارکیٹ ۱۱۰۰؍ کروڑ روپے کا ہوگیا ہے جو ۲۰۳۰ء تک ۱۰۰؍ بلین ڈالر کا ہوجائے گا۔ اسے استعمال کرنے والوں کی عمریں ۲۰؍ سے ۵۵؍ سال کے درمیان ہے۔ 
اوزیمپک بغیر ڈائٹ یا سخت ورزش کے بغیر دبلا پتلا ہونے کا ایک شارٹ کٹ ہے لیکن ہندوستان، صحت کے اپنے چیلنجوں کے ساتھ، اس رجحان سے نقصان اٹھا رہا ہے۔ ملک میں کروڑوں افراد پہلے ہی ذیابیطس سے متاثر ہیں، ایسے میں کاسمیٹک وجوہات کی بناء پر ذیابیطس کی دوا کا غلط استعمال صحت کی عدم مساوات کو مزید خراب کر سکتا ہے اور ان لوگوں کیلئے علاج کے اختیارات کو پیچیدہ بنا سکتا ہے جنہیں حقیقی طور پر اوزیمپک کی ضرورت ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ فلمی ستارے اوزیمپک کی جو دلکش تصویر پیش کررہے ہیں، وہ سکے کا ایک رُخ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK