اب دَور بدل گیا ہے۔ ملٹی کیوزن کی جگہ ’سنگل کیوزن‘ نے لے لی ہے۔ ممبئی میں ایسے بے شمار ریستوراں ہیں جو خاص طور پر کسی ایک ملک کے پکوانوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 30, 2025, 12:34 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
اب دَور بدل گیا ہے۔ ملٹی کیوزن کی جگہ ’سنگل کیوزن‘ نے لے لی ہے۔ ممبئی میں ایسے بے شمار ریستوراں ہیں جو خاص طور پر کسی ایک ملک کے پکوانوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
آج سے کم و بیش ۳۰۔ ۴۰؍ سال پہلے ایسے ریستوراں کو ’’شاندار‘‘ قرار دیا جاتا تھا جو کئی کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلا ہو۔ ملٹی کیوزن (مختلف ممالک کے پکوانوں کا مرکز) ریستوراں کو فائیو اسٹار کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن ایسے ہوٹل اور ریستوراں بہت کم تھے۔ چھوٹے ہوٹلوں کی بھرمار تھی جو ہر علاقے میں تھے اور جہاں گاہکوں کی اچھی خاصی بھیڑ ہوتی تھی۔ ان کے مینو میں کھانے پینے کی چنندہ اشیاء ہی ہوتی تھیں۔ یہاں ملٹی کیوزن کا آپشن ہی نہیں تھا۔ زمانہ بدلا اور کھانے پینے کے طریقے بھی بدل گئے۔ نت نئے پکوانوں کو لگژری کے ساتھ پروسنے کا دور آگیا۔ یعنی شاندار ریستوراں بنائے گئے۔ مہنگی تزئین کاری کے طریقوں کو ملحوظ رکھا گیا اور گاہکوں کو لبھانے کیلئے ہر ممکن بہترین خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لائیو موسیقی سے موسیقی، پھر آرکسٹرا، اس کے بعد موسیقی اور لائیو موسیقی کا زمانہ دوبار ہ آگیا۔ اب بیشتر ریستوراں میں اسٹینڈ اَپ کامیڈی اور رقص و موسیقی کے چھوٹے موٹے شوز بھی باقاعدگی سے منعقد کئے جاتے ہیں۔
غور کریں تو احساس ہوگا کہ کئی کلومیٹر رقبہ پر پھیلے ریستوراں اب سکڑتے جارہے ہیں، خاص طور پر ممبئی جیسے بڑے شہر میں جہاں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ فلک بوس عمارتوں کا جنگل بنتا جارہا ہے۔ یہاں سب کچھ سکڑتا محسوس ہورہا ہے۔ وسعت غائب ہونے لگی ہے۔ چند ہی علاقے ایسے ہیں جہاں کشادگی کا احساس ہوتا ہے ورنہ ہر جگہ ’’تنگ‘‘ سی نظر آتی ہے۔ اب ریستوراں یا ہوٹل کسی عمارت کے نیچے ہی نظر آتا ہے۔ باقاعدہ عمارت کی شکل میں کوئی ریستوراں شاید ہی موجود ہو۔ گاہکوں کے بدلتے رجحان، کھانے پینے کے انداز میں تبدیلی، مختلف ممالک کے پکوانوں کو بنانے کی تراکیب کی آسان دستیابی، بڑھتی مہنگائی اور گاہکوں کو ’’لگژری‘‘ کے ساتھ بہترین ’’سروس‘‘ دینے کی دوڑ میں بعض ریستوراں کا رقبہ اس قدر سکڑ گیا ہے کہ بیک وقت بمشکل ۱۲؍ سے ۱۵؍ لوگوں ہی کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کی بھیڑ ان کے باہر ’’ویٹنگ‘‘ (انتظار) کرتی نظر آتی ہے کیونکہ ریستوراں کے پکوان منفرد اور لذیذ ہیں، اور یہاں بہترین سروس فراہم کی جاتی ہے۔
سکڑتے ریستوراں کو ’مائیکرو ڈائننگ‘ (Micro-dining) کا نام دیا گیا ہے۔ مائیکرو ڈائننگ سے مراد وہ ریستوراں ہیں جو چھوٹے پیمانے پر کام کرتے ہیں، جن میں کم کھانے والے (عام طور پر ۸؍ سے ۲۰) ہوتے ہیں اور اکثر مخصوص کھانوں یا پکوانوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جو کھانے کا زیادہ قریبی اور ذاتی نوعیت کا تجربہ پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی ایسا ریستوراں جو چند مربع میٹر رقبہ پر پھیلا ہو اور جہاں مخصوص پکوان (اطالوی، ہسپانوی، میکسیکن، فلسطینی یا عربی) ہی ملتے ہوں۔ اس طرح گاہک کسی ایک ملک کے پکوانوں پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں اور کھانا محض پیٹ بھرنے کیلئے نہیں بلکہ اسے ’’محسوس‘‘ کرنے کیلئے کھاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ہندوستان بھی ’’مائیکرو ڈائننگ‘‘ کا عروج دیکھ رہا ہے۔ اب دور بدل گیا ہے۔ ملٹی کیوزن کی جگہ ’’سنگل کیوزن‘‘ نے لے لی ہے۔ ممبئی میں ایسے بے شمار ریستوراں ہیں جو خاص طور پر کسی ایک ملک کے پکوانوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، مثلاً باندرہ (مغرب) میں واقع ’’ٹروپی کول‘‘ جو برازیلین ڈشیز پیش کرتا ہے، اسی علاقے میں ’’ ویتنوم‘‘ (ویتنامی پکوان)، ’’اِزومی‘‘ (جاپانی ڈشیز)، ’’جی جی‘‘ (یورپی کھانے)، ’’لاس کاوؤس‘‘ (پیرو کی ڈشیز) جیسے مائیکرو ڈائننگ والے درجنوں ریستوراں ہیں۔ یہ صرف ایک علاقے میں موجود چند ریستوراں کے نام ہیں، ممبئی اور مضافات میں مائیکرو ڈائننگ کا تجربہ فراہم کرنے والے ہزاروں ریستوراں کھل چکے ہیں۔
مائیکرو ڈائننگ اس لئے بھی عروج پر ہے کہ اب گاہک اپنے آپ کو گاہک محسوس نہیں کروانا چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ’’مہمان‘‘ سمجھا جائے۔ ریستوراں کا اسٹاف بھی اسٹاف کی طرح نہیں بلکہ ’’میزبان‘‘ کی طرح ’’مہمانوں ‘‘ کا خیال رکھتا ہے۔ مہمان یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں ریستوراں میں ’’گھر جیسا‘‘ محسوس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مائیکرو ڈائننگ ریستوراں انتہائی آرام دہ بنائے جاتے ہیں جن میں دو لوگوں کی بیٹھنے کی ایک میز پر مختلف سائز کے نصف درجن تکیے ہوتے ہیں۔ تزئین کاری اس انداز میں کی جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ آپ اپنے ہی گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں۔ اگر مہمان کو پکوان پسند آتے ہیں تو وہ صرف بل ادا کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ شیف کی براہ راست تعریف کرتا ہے۔
پونے، گوا اورجنوبی ممبئی میں ایسے مائیکرو ڈائننگ ریستوراں بھی ہیں جہاں انجان لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تفریحات کے ایسے پرواگرم منعقد کئے جاتے ہیں کہ سبھی آپس میں دوست بن جاتے ہیں۔ ایسے ریستوراں کا مالک ’’میزبان‘‘ کا کام بخوبی انجام دیتا ہے اور سبھی کو ایک دوسرے سے متعارف کرواتا ہے۔ مائیکرو ڈائننگ میں میزیں اس قدر قریب لگی ہوتی ہیں کہ نجی باتیں نجی نہیں رہ جاتیں بلکہ اطراف میں بیٹھا ہر شخص اسے آسانی سے سن لیتا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کو ’’عجیب‘‘ محسوس نہیں ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مائیکرو ڈائننگ کا تجربہ فراہم کرنے والے جو ریستوراں شہرت کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں، اُن کا ’’ویٹنگ ٹائم‘‘ مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔
راقم نے جولائی ۲۰۲۴ء میں شلپا شیٹی کے ریستوراں ’باستیان‘ میں بکنگ کیلئے فون کیا تو معلوم ہوا کہ آئندہ ۶؍مہینوں کیلئے ریستوراں کی کوئی بھی میز دستیاب نہیں ہے، اور اسے جنوری ۲۰۲۵ء کی تاریخ دی گئی۔ صرف ’’باستیان‘‘ ہی نہیں ایسے کئی ریستوراں ہیں جو مہینوں کیلئے بُک ہوچکے ہیں۔ مگر تیزی سے بدلتے زمانے میں اہم سوال یہی قائم ہوتا ہے کہ یہ رجحان کتنے عرصے تک باقی رہے گا؟