بہتر معیارِ زندگی، کریئر، تعلیم حاصل کرنے نیز ملازمت اور کاروبار کے بہتر مواقع، اور طبی رعایتیں اور فوائد، یہ ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی ذی حیثیت شخص کو اُن ممالک میں ہجرت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جہاں انہیں متذکرہ تمام سہولتیں حاصل ہوں۔
EPAPER
Updated: June 23, 2024, 12:59 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
بہتر معیارِ زندگی، کریئر، تعلیم حاصل کرنے نیز ملازمت اور کاروبار کے بہتر مواقع، اور طبی رعایتیں اور فوائد، یہ ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی ذی حیثیت شخص کو اُن ممالک میں ہجرت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جہاں انہیں متذکرہ تمام سہولتیں حاصل ہوں۔
بہتر معیارِ زندگی، کریئر، تعلیم حاصل کرنے نیز ملازمت اور کاروبار کے بہتر مواقع، اور طبی رعایتیں اور فوائد، یہ ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی ذی حیثیت شخص کو اُن ممالک میں ہجرت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جہاں انہیں متذکرہ تمام سہولتیں حاصل ہوں۔ گزشتہ دنوں جاری ہونے والی ہینلی اینڈ پارٹنرس کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ امسال ۴؍ ہزار ۳۰۰؍ ملینیئرز (کروڑ پتی) ہندوستان چھوڑنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ وہ اُن ممالک میں سکونت اختیار کرنے والے ہیں جہاں انہیں مختلف قسم کی سہولتیں اور رعایتیں حاصل ہوں۔ اس رپورٹ میں اُن ملینیئرز کا احاطہ کیا گیا ہے جن کے پاس ایک ملین ڈالر (۸ء۳؍ کروڑ روپے) کی مالیت والے ’’لیکویڈ انویسٹ ایبل اسیٹس‘‘ (ایسے اثاثے جنہیں بآسانی نقدی میں منتقل کیا جاسکتا ہو) ہیں۔
اگر ریسرچ ادارے کا یہ تخمینہ درست ثابت ہوتا ہے تو اس طرح امسال ہندوستان چھوڑ دینے والے شہریوں کی تعداد کے معاملے میں ہمارا ملک تیسرے نمبر پر ہوگا۔ ا س معاملے میں ۱۵؍ ہزار ۲۰۰؍ شہریوں کے ساتھ چین پہلے اور ۹؍ ہزار ۵۰۰؍ افراد کے ساتھ برطانیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امسال مجموعی طور پر ۱ء۲۸؍ لاکھ امیرافراد اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں رہائش اختیار کریں گے، جس کی انہوں نے تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور امریکہ میں سکونت اختیار کریں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ ۲؍ ممالک کروڑ پتیوں کی پہلی پسند کیو ں ہیں ؟
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: آن لائن خرید و فروخت کے بڑھتے رجحان کی وجوہات
خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے بعد یو اے ای دوسرا ایسا ملک ہے جہاں گزشتہ چند برسوں سے غیر ملکی سرمایہ کاری سب سے زیادہ کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال یو اے ای کی غیر ملکی سرمایہ کاری ۳۵؍ فیصد بڑھی تھی، اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں بتدریج اضافہ ہی ہورہا ہے۔ سرمایہ کاری کے محاذ پر یو اے ای میں منفرد مواقع ہیں۔ حکومت تاجروں کو مختلف قسم کی مراعات فراہم کرتی ہے، یہاں کا ٹیکس نظام پیچیدہ نہیں ہے اور نہ ہی کمپنیوں پر ٹیکس کا ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ یہ خطہ تجارت کا ایسا مرکز بن چکا ہے جہاں یورپی، مغربی اور مشرقی ممالک مشترکہ طور پر کاروبار کرتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کی ملاقات کروانے سے لے کر مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگوں کو مل جل کر کاروبار کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ نئے بزنس آئیڈیاز کو ایک منافع بخش کاروبار میں بدلنے کیلئے ہر قسم کی مالی امداد فراہم کی جاتی ہےاس لئے یو اے ای سرمایہ کاروں، انٹرپرینیورز اور تاجروں کیلئے ایک پرکشش مقام بنتا جارہا ہے۔
دوسری جانب، تعلیم، صحت اور کاروباری مواقع کے محاذ پر امریکہ آج بھی طلبہ، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی پہلی پسند ہے۔ دنیا بھر سے ہر سال ہزاروں امیر افراد امریکہ صرف اسلئے جاتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔ بالفاظ دیگر، اپنی دولت سے وہ بہتر معیارِ زندگی خریدتے ہیں، جبکہ وہ افراد جو امیر نہیں ہیں اور ملک (غریب اور ترقی پذیر) سے باہر نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ اپنی زندگی بہتر بنانے کی جدوجہد کرتے رہنے کے ساتھ اپنے ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال ۵؍ ہزار ۱۰۰؍ کروڑ پتیوں نے ہندوستان چھوڑا تھا۔ ان میں ایسے افرا د بھی ہوتے ہیں جو ہندوستانی شہریت ترک نہیں کرتے بلکہ ترقی یافتہ ملک میں کاروبار کرتے رہنے کے ساتھ ہندوستان کو اپنا ’’ثانوی‘‘ گھر قرار دیتے ہیں۔
اس معاملے کا تشویشناک پہلو، امیر ہندوستانیوں کا ملک چھوڑ کر دیگر ملک میں سکونت اختیا ر کرنا ہے۔ اگر یہی ہندوستانی اپنی سرحدوں میں کاروبار قائم کریں تو کروڑوں بے روزگاروں میں سے کم از کم سیکڑوں کو روزگار ملے گا جس سے ملک کی بے روزگاری کی شرح کم ہوگی۔ اگر یہی ہندوستانی ملک ہی میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں، غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرکے ہندوستان میں ان کی فیکٹریاں قائم کریں تو ہندوستان مینوفیکچرنگ مرکز بن سکتا ہے۔ اگر ان افراد کے پاس منفرد بزنس آئیڈیاز ہیں تو وہ ان کا اطلاق یہیں کرنے کی کوشش کریں لیکن اس کیلئے حکومت ہند کو بھی کام کرنا ہوگا۔ اسے چاہئے کہ وہ اپنے شہریوں، خاص طور پر چھوٹے اور متوسط درجے کے تاجروں اور انٹرپرینیورز کو بزنس کا وہی فریم ورک دینے کی کوشش کرے جو یو اے ای اور امریکی حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ ہماری حکومت نے کاروبار میں سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں کئی بلند بانگ دعوے کئے ہیں۔ امیر افراد کا ہندوستان چھوڑ دینا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ حکومت اپنے دعوؤں پر کھری نہیں اتری ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستان سب سے بڑی معیشت والا ملک بنے تو اسے اپنے کاروباریوں اور شہریوں کیلئے مختلف محاذ پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہر سال چند ہزار افراد قومی وسائل کا استعمال کرکے اپنی محنت سے کامیابی حاصل کرتے ہیں، اور پھر امیر افراد کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چند برسوں میں ان (کروڑ پتیوں ) کی دولت میں ۸۵؍ فیصد کا اضافہ ہوتا ہے، مگر یہ دولت ایک مخصوص مدت تک ہندوستانی معیشت میں رہتی ہے۔ پھر جب یہ افراد فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں ترقی یافتہ ملکوں میں رہائش اختیار کرنا ہے تو وہ اپنا سرمایہ سمیٹ کر وہاں جا بستے ہیں، اور ہماری معیشت کو ایک زبردست جھٹکا لگتا ہے۔ امیر افراد کی ہجرت سے ملک کی معیشت کمزور ہوجاتی ہے۔