گیارہ سال بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے ’’ہاؤز ہولڈ کنزمپشن ایکسپینڈیچر سروے (ایچ سی ای ایس) ‘‘ (گھریلو اخراجات کاسروے) کی رپورٹ کے چند ابتدائی صفحات اور اعدادوشمار گزشتہ دنوں جاری کئے گئے۔
EPAPER
Updated: March 03, 2024, 3:00 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
گیارہ سال بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے ’’ہاؤز ہولڈ کنزمپشن ایکسپینڈیچر سروے (ایچ سی ای ایس) ‘‘ (گھریلو اخراجات کاسروے) کی رپورٹ کے چند ابتدائی صفحات اور اعدادوشمار گزشتہ دنوں جاری کئے گئے۔
گیارہ سال بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے ’’ہاؤز ہولڈ کنزمپشن ایکسپینڈیچر سروے (ایچ سی ای ایس) ‘‘ (گھریلو اخراجات کا سروے) کی رپورٹ کے چند ابتدائی صفحات اور اعدادوشمار گزشتہ دنوں جاری کئے گئے۔ عام طور پر اس سروے کی رپورٹ ہر ۵؍ سال بعد جاری ہوتی ہے۔ اس سے قبل یہ رپورٹ ۱۲۔ ۲۰۱۱ء میں جاری ہوئی تھی۔ ۱۸۔ ۲۰۱۷ء کی رپورٹ کو مختلف ’’تضادات‘‘ کی بناء پر رد کردیا گیا تھا۔
حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ شہروں میں ایک اوسط ہندوستانی خاندان ماہانہ ۶؍ہزار ۵۲۱؍ روپے جبکہ دیہاتوں میں ۳؍ ہزار ۸۶۰؍ روپے خرچ کرتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں یہ رقم بالترتیب ۲؍ہزار ۶۳۰؍ اور ایک ہزار ۴۳۰؍ روپے تھی۔ لہٰذا اوسط ماہانہ اخراجات میں ۲ء۵؍ اور ۲ء۷؍ گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ حیران کن یا متاثر کن نہیں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان جیسے بڑے ملک میں اخراجات کی یہ رقومات کم ہیں۔ اعدادوشمار سے واضح ہے کہ خط افلاس سے نیچے یا قریب، اور انتہائی امیر افراد اس سروے میں شامل نہیں کئے گئے ہیں۔ ویسے بھی ان طبقات کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا کم و بیش۲۰؍ فیصد ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ کی تعداد زیادہ ہے، اور ۱۱؍ سال میں محض ۲ء۵؍ گنا اضافہ تشویشناک ہے۔ ہماری معیشت کے بڑھتے حجم اور جی ڈی پی کے اعدادوشمار کی بنیاد پر نہ صرف اس طبقہ کی آمدنی بلکہ اخراجات بھی زیادہ ہونے چاہئیں۔
اس رپورٹ کے متعلق کئی ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اسے آنے والے لوک سبھا انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے جس میں اعدادوشمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے قوی امکانات ہیں۔ دی وائر کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حالیہ رپورٹ میں اخراجات زیادہ دکھائے گئے ہیں جبکہ ۱۸۔ ۲۰۱۷ء کی لیک رپورٹ میں یہ کم ہیں۔ چونکہ یہ رپورٹ حکومت کے حق میں نہیں تھی اس لئے اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔
حالیہ رپورٹ دعویٰ کررہی ہے کہ ملک میں اب غریبوں کی آبادی ۵؍ فیصد سے کم ہے۔ اخراجات کا بڑھنا اس لئے بھی خو ش آئند نہیں ہے کہ گزشتہ ۱۱؍ سال میں مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق قومی آمدنی ۷۷ء۴۲؍ لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر ۱۳۳ء۴۸؍ لاکھ کروڑ (۷۲ء۳۴؍ فیصد) ہوگئی ہے۔ اس مناسبت سے اخراجات کا ڈیٹا آمدنی کے ڈیٹا سے بہت کم ہے۔
یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ: اسمارٹ فون مارکیٹ ۱۲؍ سال کے بعد ایپل کی بادشاہت
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امیری اور غریبی کا خلاء گھٹ گیا ہے۔ آکسفم کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی ۱۰؍ فیصد آبادی کے پاس ملک کی ۷۷؍ فیصد دولت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایچ سی ای ایس کے اعدادوشمار کو درست خیال کیا جائے یا آکسفم کے۔ کیونکہ آکسفم کے ڈیٹا واضح طور پر امیری اور غریبی کے بڑھتے خلاء کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ یہی اعدادوشمار ایشیاء ٹائمز نے بھی جاری کئے تھے۔ حکومت نے یہ رپورٹ اگست ۲۰۲۲ء سے جولائی ۲۰۲۳ء کے سروے کرکے تیار کی ہے۔ ایشیاء ٹائمز اور آکسفم نے اپنی اپنی رپورٹیں اپریل ۲۰۲۳ء اور نومبر ۲۰۲۳ء میں جاری کی تھیں۔ اگر عالمی سطح پر مصدقہ ان ۲؍ اداروں کی رپورٹ کو درست خیال کیا جائے تو حالیہ رپورٹ کو کیا مانا جائے؟
اس قسم کے اعدادوشمار ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن اسی وقت جب انہیں واقعی سنجیدگی سے تیار کیا گیا ہو۔ سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے اعدادوشمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور عوام کو بے وقوف بنانا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ یہ اعداد و شمار ماہرین اور پالیسی سازوں کو ملک کے گھرانوں کے اخراجات اور آمدنی کی سطح کا ایک جامع جائزہ پیش کرتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ گھرانے اپنی محنت کی کمائی کیسے اور کہاں خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ڈیٹا پالیسی سازوں کیلئے اہم ہے کہ اس کی بنیاد پر مستقبل کی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
مکمل رپورٹ جاری ہونے سے پہلے ہی تنازع کا شکار ہوگئی ہے۔ اور اگر پالیسی ساز اس رپورٹ کی بنیاد پر مستقبل کی پالیسیاں مرتب کریں گے تو کیا یہ درست ہوگا؟ کیا ان کا فائدہ عوام کو ملے گا؟ غلط رپورٹوں اور اعدادوشمار کی بنیاد پر پورے ملک کے مستقبل، خاص طور پر عام شہریوں، کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ موجودہ حکومت کو اس سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں وہ شاید شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔