Updated: November 28, 2024, 1:09 PM IST
| Mumbai
سپریم کورٹ نے اُس عرضی کو خارج کردیا جس میں ای وی ایم پر سوال اُٹھائے گئے تھے۔ عدالت کا یہ کہنا تو درست ہے کہ جو پارٹیاں الیکشن ہار جاتی ہیں وہ ای وی ایم کو ہدف بناتی ہیں مگر جب وہی پارٹیاں فتح سے ہمکنار ہوتی ہیں تو اُنہیں ای وی ایم سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ نے اُس عرضی کو خارج کردیا جس میں ای وی ایم پر سوال اُٹھائے گئے تھے۔ عدالت کا یہ کہنا تو درست ہے کہ جو پارٹیاں الیکشن ہار جاتی ہیں وہ ای وی ایم کو ہدف بناتی ہیں مگر جب وہی پارٹیاں فتح سے ہمکنار ہوتی ہیں تو اُنہیں ای وی ایم سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں، اس جانب توجہ دلائے جانے پر کہ دُنیاکے بیشترممالک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کرتے عدالت نے جو جواب دیا وہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان دوسرے ملکوں سے مختلف ہو؟ اس نقطۂ نظر کو اپناکر کیا ہم غربت کے معاملے میں یہ سوچ کر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں ؟ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں، دوسروں سے مختلف ہونا تب باعث اعزاز ہوتا ہے جب بہتر ہونا ثابت ہو اور دُنیا اس کی ستائش کرے۔ ہم نہیں جانتے کہ عدالت نے یہ بات کس پس منظر میں کہی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ رہا سوال ای وی ایم میں پائی جانے والی گڑبڑیوں کی شکایات کا، تو بھلے ہی عدالت ای وی ایم کو بالکل چست اور درست سمجھتی ہو، عوام کے اطمینان کیلئے اسے ای وی ایم کی جانچ کا حکم دینا چاہئے، یہی عدالت سے ہماری درخواست ہے۔ سیاسی جماعتیں جیتنے کے بعد خاموش رہ سکتی ہیں اور ہارنے کے بعد ای وی ایم کو قصوروار ٹھہرا سکتی ہیں جیسا کہ ہوتا رہا ہے مگر عوام نیز عوامی اور فلاحی ادارے جب اس جانب توجہ دلا رہے ہیں اور بار بار ایسا کررہے ہیں تو اُن کی شکایات کو سنا جانا چاہئے کہ فریاد عدالت ہی سے کی جاسکتی ہے۔ حکومت ِ وقت تو اس پر کان دھرنے سے رہی!
ای وی ایم بذات خود بالکل ٹھیک ہوسکتی ہے مگر اس کا استعمال؟ کون ضمانت دے گا کہ اس کا استعمال بالکل ٹھیک ہوا ہے؟ اسے ٹیمپر نہیں کیا گیا ہے؟ اسے بدلا نہیں گیا ہے؟ اس میں ڈالا جانے والا ووٹ اُسی پارٹی کے کھاتے میں گیا ہے جس سے وہ متعلق ہے؟ وی وی پیٹ (ووٹر ویریفائڈ پیپر آڈٹ ٹریل) سے ملا کر کسی بھی حلقے کے نتائج کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق ممکن ہے مگر کیا کبھی تمام وی وی پیٹ کو ملایا گیا؟ حکومت اور حکومتی ادارے جب کسی بات کی تصدیق و توثیق کریں تو شہری اخلاقیات کا تقاضا اور شہریوں کا فرض ہے کہ اس پر یقین کریں مگر جب یقین کرلینے اور اطمینان دلانے کے سبب مطمئن ہوجانے کے باوجود شکوک و شبہات سر اُبھاریں اور بار بار ایسا ہو تو حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ عوام کو نئے سرے سے اطمینان دلانے کیلئے وہ سب کچھ کریں جو اُن کے اطمینان کیلئے ضروری ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج کے بعد سے عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھی ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ مہاوکاس گٹھ بندھن کی پارٹیاں اس لئے آگ بگولہ نہیں ہیں کہ وہ ہار گئی ہیں۔ وہ اس لئے چراغ پا ہیں کہ اُنہیں اتنی کم سیٹیں جیتنے کی توقع نہیں تھی۔ الیکشن پلٹتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں پلٹتے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہریانہ میں کانگریس ہاری نہیں بلکہ حکومت بنانے میں ناکام رہی جس کا ہر خاص و عام کو یقین تھا جبکہ مہاراشٹر کامعاملہ بالکل الگ ہے، یہاں مہا وکاس کی تینوں پارٹیاں بُری طرح ہاری ہیں، اُنہیں عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ ظاہر ہے کہ ان پارٹیوں کو ووٹ دینے والے پیچ و تاب کھائینگے اور جب اُنہیں کوئی واضح جواب نہیں ملے گا تو اُن کی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ یہ صورت حال چونکہ بار بار پیدا ہورہی ہے اس لئے عدالت کو عوامی مفاد میں اس کا نوٹس تو لینا ہی چاہئے۔