انتظامی امور کے مشیر ’پورس منشی‘ کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’میکنگ بریک تھرو اِنوویشن ہیپن‘ کا جائزہ، اس کتاب میں ۱۱؍ روشن دماغ ہندوستانیوں اور اُن کے اداروں کے کیس اسٹڈیزکو پیش کیا گیا ہےجنھوں نے ترقی اور تبدیلی کا خواب دیکھا اور اسے پورا بھی کیا۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 11:54 AM IST | Ghulam Arif | Mumbai
انتظامی امور کے مشیر ’پورس منشی‘ کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’میکنگ بریک تھرو اِنوویشن ہیپن‘ کا جائزہ، اس کتاب میں ۱۱؍ روشن دماغ ہندوستانیوں اور اُن کے اداروں کے کیس اسٹڈیزکو پیش کیا گیا ہےجنھوں نے ترقی اور تبدیلی کا خواب دیکھا اور اسے پورا بھی کیا۔
جدید دنیا میں، مینجمنٹ یعنی انتظام، ایک کافر ادا حسینہ ہے اور اِنوویشن اس کی زلفیں ، جن کا ہر ایک اسیر ہے۔ اس جادوئی لفظ کو ہماری زبان میں اختراع، نو آوری یا جدت کہا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں ہر جگہ جدت طرازی پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ تخلیقی طور پر مسائل کو حل کرنے اور خدمات کے طریقوں یا مصنوعات کی ڈیزائن میں ندرت اکثر ہماری زندگی میں بہتری کا سبب بنتی ہے۔ کام کو آسان اور اشیاء کو زیادہ مفید بناتی ہے۔ یہ ایسی چنگاری ہے جو خیالات کو دوسروں سے نمایاں اور ممتاز کرتی ہے۔ تخیل کو تدبیروں میں بدلتی ہے اور تدابیر کو حقیقت میں۔ اصولوں کی نئی وضاحت اور حدود کی توسیع کرتی ہیں۔ ہر آن تبدیلی کے عمل میں شامل رہنا جدید مینجمنٹ کا ایک اور اہم اصول ہے۔ ان تخیلات کی اہمیت کو اجاگر کرتی، پورس مُنشی کی کتاب کا عنوان ہے ’میکنگ بریک تھرو انوویشن ہیپن‘جس کا مناسب اردو ترجمہ ہوسکتا ہے کہ’ جمود شکن تدبیرِ نو کو ممکن کر دکھانا‘۔ اس کتاب میں ۱۱؍ روشن دماغ ہندوستانیوں اور اُن کے اداروں کے کیس اسٹڈیز کو پیش کیا گیا ہے جنھوں نے ترقی اور تبدیلی کا خواب دیکھا اور اپنی اختراعی کوششوں اور جدوجہد کے ذریعے اسے حقیقت میں بھی بدل کر دکھایا۔
پورس منشی پیشے سے انتظامی امور کے مشیر ہیں۔ کمپنیوں کو کاروبار ی ترقی کے گُر سکھاتے ہیں۔ سخت مقابلے کے حالات میں ، منیجروں کو درس دیتے ہیں کہ طوفانوں میں پلنے والے ہی دُنیا بدلنے والے ہوتے ہیں۔ پورس، عرصے تک موقرجریدے’ ہندو بزنس لائن‘ کیلئے کالم، ’کام اور آپ‘ لکھتے رہے۔ انھوں نےانسانی نفسیات اور کاروباری ترقی کے باہمی تعلق پر پر کافی غور کیا۔ متعدد کارپوریٹس کے لئے کام کرتے ہوئے خوب عملی تجربہ حاصل کیا۔ ۲۰۰۹ء میں اپنی کتاب شائع کروائی۔
ایک شہر میں انقلاب
ہندوستان میں سرکاری اور بلدیاتی اداروں کےطریقہ کار سے سبھی واقف ہیں۔ خدمات کے گھٹیا معیار کو شہری برداشت کر لیتے ہیں بلکہ اسے عام سندِ قبولیت بھی حاصل ہے۔ دوسری جانب خال خال ہی سہی، پُرعزم اور مخلص افسروں کی ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جنھوں نے اپنی کوششوں سے سسٹم میں زبردست تبدیلی پیدا کردی۔ مصنف نے ایک باب میں سورت میونسپل کارپوریشن کے سابق کمشنر ایس آر راؤ کے انقلابی اقدامات کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔ جب راؤنے مئی ۱۹۹۵ء میں عہدہ سنبھالا، تو سورت ایک تباہ کن طاعون کے اثرات سے نمٹ رہا تھا۔ یہ شہر اپنے ہیروں کی صنعت کیلئے جانا جاتا تھا، لیکن وہاں صفائی کی صورتحال اور بنیادی ڈھانچہ بھی بہت خراب تھا۔
ادارہ اِنٹاک کے ۱۹۹۴ء کے سروے میں، سورت کو ہندوستان کا غلیظ ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔ گجرات میں ملیریا سے ہونے والی اموات میں سے نصف سورت میں ریکارڈ ہوتی تھیں۔ کھلے گٹر، چہار سو پھیلی گندگی، تعفن، سورت کے مکینوں کا مقدر بن چکے تھے۔ متعدی بیماریوں سے لوگ بدحال تھے۔ پلیگ سے ہونے والی اموات کے بھیانک مناظر آج بھی سورت والوں کی یاداشت میں محفوظ ہیں۔ کمشنر راؤ نے کچھ ایسا کیا کہ صرف دو برسوں بعد ۱۹۹۶ء میں اُسی سروے ایجنسی نے صفائی کے معاملے میں سورت کو چنڈی گڑھ کے بعد دوسرا بہترین شہر قرار دیا۔ ۱۹۹۴ء میں ۲۲۰۰۰؍ ملیریا کیس تھے لیکن ۱۹۹۷ءمیں یہ تعداد گھٹ کر ۴۹۶؍ رہ گئی تھی۔ دیگر تمام بیماریوں سے متاثرین کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ سورت میڈیکل اسوسی ایشن کے مطابق پرا یئویٹ ڈاکٹروں کی آمدنی میں زبردست تخفیف ہوئی۔ گندگی کی نکاسی کا نظام ۶۳؍ سے ۹۷؍ فیصد اور صاف پانی کی فراہمی میں ۶۰؍ سے ۹۵؍ فیصد تک اضافہ ہوا۔ صرف ۲۰؍ ماہ کی کارکردگی میں ایک شخص کے پختہ عزم نے ایک پورے شہر کی کایا پلٹ دی۔
راؤ نے یہ سب کیسے کر دکھایا؟ وہ بیوروکریٹ تو تھے لیکن بلدیہ چلانے کا انہیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ ان کے ماتحت افسران کے پاس کام نہ کرنے کی بہت ساری وجوہات تھیں جبکہ کام کرنے کا کوئی داعیہ تھا نہ واضح پلان۔ نقشِ کہن پر اڑے ہوئے تھے اور آئین نو سے ڈرتے تھے۔ مصنف کہتا ہے کہ راؤ نے آربِٹ شِفٹنگ یعنی مدار میں تبدیلی کی تکنیک اپنائی۔ کسی بالکل نئے حل کی تلاش پر کام کرنے کے بجائے کام ہی کو مختلف طریقے سے کرنے کا راستہ اپنایا۔ اعلیٰ افسران عموماً ایئر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ راؤ نے صبح سے دوپہر تک سڑکوں پر عوام کے درمیان ڈیوٹی کے احکامات جاری کئے اور خود بھی ان پر عمل کیا۔ اب عوام کیلئے افسران سے رابطہ کرنا آسان تھا اور افسران عوام کے مسائل سے بے حس نہیں رہ سکتے تھے۔ اداروں میں عموماً نچلے درجے کے کارکنوں پر ڈسپلن نافذ کیا جاتا ہے جبکہ اعلیٰ سطح کے افراد اکرامات کے مزے لیتے ہیں۔ راؤ نے اس ضابطے کو اُلٹ دیا۔ صفائی کے ملازمین کو انعامات دیئے جانے لگے۔ اس دوران چھ اعلیٰ عہدیداروں کو استعفیٰ دینے پرمجبور کیا گیا۔ اب افسران مائکرو پلاننگ میں شامل ہونے لگے۔
برسوں سے بھٹکتے مویشی ایک بڑا مسئلہ تھے۔ انہیں پکڑ کر شہر کے باہر ایک مرکز میں جمع کیا جاتا تھا، لیکن وہ پھر واپس آ جاتے تھے۔ راؤ نے دیکھا کہ مویشی کوڑے کے ڈھیر کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں۔ انہوں نے تمام کوڑے دان ہٹوا دیئے۔ اب ملازمین براہ راست گھروں سے کچرا جمع کرنے لگے۔ لوگوں کی عادتوں میں بہتری آئی۔ راؤ نے کرپشن کو کنٹرول کرنے کیلئے چالاکی سے کام لیا۔ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کا نظام بہتر بنایا گیا، جس سے محصولات میں اضافہ ہوا اور شہری سہولیات کیلئے اضافی فنڈز میسر آئے۔ عوامی مشورے سے سڑکوں کو چوڑا کرنے اور بجلی کی فراہمی کے کام میں تیزی لائی گئی۔ یقیناً، سیاسی دباؤ کا بھی موثر طریقے سے مقابلہ کیا گیا۔ سیاست دانوں کو ان کی حدود کا احساس دلایا گیا۔
بصارت اور بصیرت
اروِند آئی ہاسپٹل، مدورائی میں وینکٹا سوامی ( جو ڈاکٹر وی کے نام سے مشہور تھے)نے ۱۲؍ بستروں کے ساتھ شروع کیا تھا۔ لاکھوں افراد موتیا بند یا دیگر امراض سے عمر بھر کیلئے نابینا بن کر رہ جاتےہیں اور ایک معمولی سا آپریشن بھی نہیں کروا پاتے۔ ڈاکٹر وی نے اس مسئلے سے نمٹنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ پتہ چلا کہ پیداواری صلاحیت کی اسمبلی لائن تکنیک کے ذریعے سرجن کی کاکردگی کو۱۰؍ گنا تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ کم وقت میں زیادہ آپریشن ممکن ہیں ۔ اس طرح سرجری کی لاگت میں غیر معمولی کمی کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں نابینا غریبوں کا آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ اروِند اسپتال کے بارے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف۳۰؍ فیصد مریض واجبی سی فیس ادا کرتے ہیں اور باقی ۷۰؍ فیصد کا علاج تقریباً مفت کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ اسپتال منافع میں چلتا ہے۔ سارا منافع پھر سے اسپتال کی توسیع میں استعمال ہوتا ہے۔ کتاب کی اشاعت تک وہاں ہر سال۲؍ لاکھ ۴۶؍ ہزار موتیا کے آپریشن ہوتے تھے اور ۲۴؍ لاکھ بیرونی مریضوں کا علاج۔ کتاب کا یہ باب بڑا بصیرت افروز ہے۔ ڈاکٹر وی کو ساحل کے سکون سے انکار نہ تھا لیکن وہ طوفان سے لڑنے کا مزہ لینا چاہتے تھے۔
ایک ڈاکٹر کا سرکاری نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی جمع پونجی، زیورات فروخت کرکے خدمت کی نیت سے اسپتال قائم کرنا۔ اس کے بہن و بہنوئی کا امریکہ میں آرام دہ زندگی کو ترک کرکے اس معمولی اسپتال میں کام کی خاطر مدورائی واپس آنا۔ آپریشن کی تیاری کے طریقوں میں جدت طرازی، نرسوں کی تربیت، ایک آپریشن تھیٹر میں دو مریضوں کی ایک ساتھ تیاری کے ذریعہ وقت میں بچت، اس سے پہلے یہ ترکیبیں کسی کو کیوں نہ سوجھیں ؟ شاید اس لئے کہ ہم میں اختراعی سوچ کی کمی تھی۔ یا شاید کرگزرنے کے جذبے کو کچل دینے والے منفی عوامل کا غلبہ تھا۔
پورس کے مطابق، ہم اپنی زندگی ایک بڑے موقع، ایک بڑے بریک کے انتظار میں گزار دیتے ہیں جبکہ وہ موقع ہمیشہ ہمارے ساتھ اور ہمارے لئےموجود ہوتا ہے، ہمارا انتظار کرتا ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد دیکھ کر ترقی کی نشانیوں کو چُن لینا ہے۔ کام صرف کرنا نہیں، نئے انداز سے انجام دینے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کے ساتھ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ کوئی بھی کام’چھوٹا‘ نہیں ہوتا، کوئی بھی کردار’چھوٹا‘ نہیں ہوتا اور کوئی بھی ذمہ داری ’چھوٹی‘ نہیں ہوتی۔ ہر کام میں یہ قوت موجود ہے کہ وہ ایک پوری تہذیب کو بدل کر رکھ دے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اسے مناسب طور پر از سر نو ترتیب دیا جائے۔ اس کتاب کے بعد بھی اس موضوع پر کافی لٹریچر شائع ہوا، لیکن یہ کتاب اب بھی کافی پڑھی جاتی ہے۔