Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

مالیگاؤں کا منفرد ’’بازارِاطفال‘‘ جہاں دُکاندار بھی بچے، خریدار بھی بچے

Updated: March 23, 2025, 3:17 PM IST | Mukhtar Adeel | Mumbai

بچوں کے یہ بازار بچوں کیلئے اور بچوں کے ذریعے ہی سجتے ہیں۔ عید کی چاند رات بازار کی آخری رات ہوتی ہے۔ پھراگلے رمضان کا انتظار ہونے لگتا ہے۔

Look at the hustle and bustle of this market: A view of the children`s Ramadan market in Malegaon, which lasts barely an hour. Photo: INN.
دیکھئے اِس بازار کی ہماہمی: مالیگاؤں میں بمشکل ایک گھنٹہ لگنے والے بچوں کے رمضانی بازار کا منظر۔ تصویر: آئی این این۔

رمضان المبارک میں مالیگاؤں میں ایک خاص اور منفرد بازار سجتا ہے جو بازارِ اطفال کے نام سے مشہور ہے۔ رزقِ حلال کے حصول کے محرک، تاجرانہ عوامل کے فروغ اور کاروباری مہارتوں کو اجاگر کرنے والے یہ بازار بچوں کے ذریعے اور بچوں کیلئے ہوتا ہے۔ اس کے دکانداروں، تاجروں اور خوردہ فروشوں میں پانچ سے ۱۴؍ سال تک کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ اس بازار میں آپ کو خریداروں کے درمیان ایسے بڑے بھی دِکھائی دیں گے جو اپنے بچپن کی یادوں کے آموختے کےساتھ لطف اٹھانے کیلئے آتے ہیں۔ مالیگائوں کاتانبا کانٹا، گاندھی مارکیٹ، صراف بازار، بڑی بازار، راجے بہادر کے باڑے کی بازار، مچھلی بازار، اقبال ڈابی مارکیٹ، لشکر والا نیلام، سال بھر جاری رہتے ہیں لیکن بازار اطفال ایسا ہے جس کی مدت صرف ایک مہینہ یعنی رمضان ہے۔ عید کی چاند رات کو بچے اپنی دکانیں سمیٹتے ہوئے اگلے برس کے رمضان کے منتظر ہوجاتے ہیں۔ 
بازار اطفال کا تاریخی پس منظر 
اس بازار کے متعلق کوئی تاریخی روایت مالیگائوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں نہیں ملتی۔ شہر میں جمعہ کا ہفتہ واری بازار، موسم ندی کے تٹ پرلگتا ہے، اس کے متعلق تاریخی شواہد ہیں۔ اُس ہفتے واری بازار کو بڑی بازار اُس وقت سے کہا جانے لگاجب وہ ہفتے میں ایک بار کے بجائے روزانہ لگنے لگا۔ بڑی بازارروزانہ آج بھی لگ رہا ہے۔ بازارِ اطفال مالیگائوں کے مشرقی علاقے کا خاصہ ہیں۔ یہاں کے مسلم محلوں میں موتی پورہ، قلعہ، اسلام آباد، اسلام پورہ، نیا پورہ، ایم ایچ بی کالونی، آزاد نگر سمیت تقریباً پورے مشرقی مالیگائوں کے ہر علاقے میں اس بازار کا نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ 
اِس کے آغاز کی تاریخ یا سن تو نہیں مل سکا البتہ راقم کے والدین (والد: محمد ایوب، والدہ: اشرفی فریدہ بانو) اپنے بچپن سے اس بازار کو دیکھ رہے ہیں۔ والدین کی عمر نصف صدی سے زائد ہوچکی ہے۔ اس روایت کے پس منظر میں کم ازکم یہ تو واضح ہواکہ رمضانی بازار اطفال کے آغاز کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ اس میں مزید تحقیق کی جائے تونئے گوشے وَا ہوسکتے ہیں۔ 
اس کی ساخت اور خصوصیات 
اس بازار کیلئے وسیع وعریض جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس عارضی مارکیٹ کادورانیہ افطاری بعد سے عشاء کی اذان تک ہوتا ہے۔ یہ مسلم محلے کے چوک، اہم راستے، چوڑی گلیوں اور تکونے راستوں کے کنارے لگتا ہے۔ دفتی کے کارٹن بکس، باردان (ٹاٹ) کے تھیلے، پلاسٹک یا لکڑی کے باکڑے یہاں کے دکانداروں کی عارضی دکانیں بن جاتے ہیں۔ ایک قطار میں دکانیں لگتی ہیں۔ دکانداروں میں اتنی سجھداری ہوتی ہےکہ وہ ایک دوسرے کیلئے جگہ کی کشادگی کیلئے وسعت القلبی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ کسی کے ٹاٹ کا تھیلا بڑا ہے تو اس کے پڑوس میں لکڑے کا باکڑا لگانے والا بغیر جھگڑے کے اپنے باکڑے کو کھسکا لے گا۔ اس طرح یہ بازار یگانگت اور اخوت کی مثال بھی پیش کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں دکانیں لگانےوالوں کو کرایہ نہیں دینا پڑتا۔ 
یہاں پر کیا کیا مل سکتا ہے؟
یہاں پر بچپن سے جڑی ہوئی ساری چیزیں مل جائیں گی۔ آلوچاٹ اور چاول کے پاپڑ، املی کی کھٹی میٹھی چٹنی، گل قند اور سونف والے پان، پلاسٹک کے پائو چ میں چھوٹے چھوٹے رنگین انڈے، چنا مسالہ، رنگین غبارے اور بھی بہت کچھ۔ ٹیپو سلطان چوک والے روڈ پر غبارہ فروش لڑکا محمد مدثر حسین (۷؍ سال، دوری جماعت کا طالب علم) گزشتہ دو سال سے اس بازار کا حصہ بنا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ رنگ برنگے غبارے میں پانی بھر کے بیچتا ہوں۔ ایک بالٹی میں پانی بھرے بیس غبارے ایک گھنٹے میں فروخت ہوجاتے ہیں۔ غبارے کے رنگ اور جسامت کے لحاظ سے ایک روپے سے تین روپے تک قیمتیں ہوتی ہیں۔ ایک پان فروش لڑکا، جسے اپنا نام بتانے میں شرم آرہی تھی، نے کہا کہ پورے مہینے پان بیچ کر اتنا کما لیتا ہوں کہ عید پر میرا اور میرے بھائی بہنوں کے نئے کپڑے بنوانے میں والدین کو سہولت ہوجاتی ہے۔ دو سے پانچ روپے تک کے پان میری دکان میں فروخت ہوتے ہیں۔ صرف رمضان میں پان کی دکان میرے والد بھی اپنے بچپن میں لگاتے تھے۔ اُس روایت کو باقی رکھنے کیلئے مَیں نے بھی پان دکان لگائی ہے۔ 
یہ صرف مالیگائوں کا خاصہ ہے
اس مبارک مہینے میں مسلم اکثریتی شہروں میں مختلف خصوصیات دِکھائی دیتی ہیں۔ بازارِ اطفال صرف مالیگائوں کا خاصہ ہے۔ اس بازار میں بڑی عمر کے افراد اپنے چھوٹے بچوں کو کچھ دِلانے کے بہانے آتے ہیں ۔ اصل میں وہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ افطاری مکمل ہوتے ہی بچوں کا رُخ اُن کے مارکیٹ کی طرف ہوتا ہے۔ بھاگتے دوڑتے شورمچاتے ہوئے بازار میں آتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ گھر میں چھوٹے بچوں سے والدین، دادی دادا، نانی نانا یا دیگر بڑے افرادکہتے ہیں کہ روزہ رکھو گے توافطاری بعد تم کوآلو چاٹ، میٹھے پان اور چنے مسالے دِلائوں گا۔ ایک طرح سے یہ رمضانی بازار بچوں میں روزے کے اہتمام کی ترغیب کا ذریعہ بھی ہے۔ یہاں سے کچھ لینے یا مل جانے کی آس میں بھی روزے رکھ لیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK