• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ممتا نے عوام کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے

Updated: September 18, 2024, 11:26 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

اگرممتا کے ۵۰؍سالہ سیاسی کرئیر پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ انہوں نے مشکل ترین حالات کا ہمیشہ دلیری، اولوالعزمی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور کبھی بھی کسی کے سامنے ہتھیا ر نہیں ڈالے لیکن جونیئر ڈاکٹروں کے احتجاج کے آگے وہ پہلی بار مجبور نظر آئی ہیں

Mamata Banerjee
ممتا بنرجی

جو کام ان کے سیاسی مخالفین آج تک نہیں کرسکے وہ بنگال کے جونئیر ڈاکٹروں نے کردکھایا۔ اگرممتا بنرجی کے ۵۰؍سالہ سیاسی کرئیر پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ انہوں نے مشکل ترین حالات کا ہمیشہ دلیری، اولوالعزمی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور کبھی بھی کسی کے سامنے ہتھیا ر نہیں ڈالے۔ جس کانگریس پارٹی نے انہیں محض ۲۹؍سال کی عمر میں رکن پارلیمنٹ اور یوتھ کانگریس کا جنرل سیکریٹری بنادیا جب اسی پارٹی کے صوبائی لیڈروں نے ممتابنرجی کو دبانے کی کوشش کی تو انہوں نے بغاوت کردی اور اپنی الگ پارٹی بنالی۔ نوزائیدہ ترنمول کانگریس این ڈی اے کی مخلوط حکومت میں  شامل تو ہوئی لیکن اپنی شرطوں پر۔ ممتا بنرجی اٹل بہاری واجپائی جیسے قدآور لیڈرکے سامنے بھی اپنے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ممتا برسوں بلکہ دہائیوں تک پہلے جیوتی باسو اور پھر بدھادیب بھٹاچاریہ سے لوہا لیتی رہیں۔ انہوں نے مارکسی جبر کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا۔ ان پر حملے ہوئے، ان کی جان پر بن آئی لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ سچی لگن، انتھک محنت اور مستقل مزاجی کا پھل انہیں ۲۰۱۱ء میں  ملا۔ جو بایاں محاذ ۳۴؍برسوں تک بنگال میں حکمرانی کرنے کی وجہ سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اسے انہوں نے اکھاڑ پھینکا۔ پچھلے ۱۰؍برسوں سے بنگال میں ممتا کو ایک نئے سیاسی حریف بی جے پی کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن ممتا بنرجی نے نریندر مودی اور امیت شاہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر ممتا نے جونئیر ڈاکٹروں کے سامنے ہاتھ کیوں جوڑے؟ ۹؍ستمبر کوجب آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور مرڈر کے ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی ڈاکٹروں نے ہڑتال ختم نہیں کی تو وزیر اعلیٰ کوبنگال میں بدلے ہوئے سیاسی ماحول کا ادراک ہوگیا۔ انہوں نے جونئیر ڈاکٹروں کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا اور انہیں مذاکرات کی دعوت دی۔ پہلی دو دعوتیں مسترد کردی گئیں۔ تیسری بار ڈاکٹروں کا وفد وزیر اعلیٰ سے ملنے سکریٹریٹ(نبانہ) گیا ضرور لیکن ڈاکٹروں کے اڑیل رویے کی وجہ سے میٹنگ نہیں ہوپائی۔ ۱۴؍ستمبر کو وزیر اعلیٰ بہ نفس نفیس سواستھ بھون پہنچ گئیں جہاں ہڑتالی ڈاکٹر دھرنے پر بیٹھے تھے۔ دیدی کی ذاتی درخواست پرڈاکٹر شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچے لیکن ایک بار پھر لائیو ٹیلی کاسٹ کی ان کی شرط کی بنا پر میٹنگ نہیں ہوپائی۔ پیر کے دن حکومت نے ڈاکٹروں کو پانچویں بار مذاکرات کی دعوت دی اور یہ واضح کردیا کہ یہ آخری دعوت ہوگی۔ ممتا کی رہائش گاہ پر پانچ گھنٹوں تک چلے مذاکرات کے بعد آدھی رات کے وقت میٹنگ ختم ہوئی۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ احتجاجی ڈاکٹروں کے مطالبات کی منظوری اور حکومت کے ساتھ سمجھوتے کے بعد بھی ہڑتال ابھی تک ختم کیوں نہیں کی گئی جبکہ سپریم کورٹ بھی بار بار ہڑتال اور احتجاج ختم کرنے کی ہدایت دے رہی ہے۔  
 جس ممتا بنرجی کا ماضی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی شرطیں منوائی ہیں۔ وہ ممتا جو واجپائی یا  منموہن سنگھ حکومت کے سامنے نہیں جھکیں اسی ممتا نے جونئیر ڈاکٹروں کے تقریباً تمام مطالبات کیوں تسلیم کرلئے؟ انہوں نے دل پر پتھر رکھ کرکیوں اپنے چہیتے پولیس کمشنر ونیت گوئل اور شعبہ صحت کے دو اعلیٰ عہدے داروں کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا؟ ممتا اتنی کمزور کیوں پڑ گئیں کہ انہیں جونیئر ڈاکٹروں کے سامنے اس طرح سرنگوں ہونا پڑا؟ جواب یہ ہے کہ ممتا جونیئر ڈاکٹروں کے سامنے نہیں بنگال کے عوام کے سامنے سر نگوں ہوئی ہیں۔
ڈاکٹروں کے احتجاج کو عوام کی حمایت حاصل ہے کیونکہ سرکاری اسپتال میں ہوئے اس بہیمانہ جرم سے صوبے کے عوام بری طرح مضطرب ہوگئے۔میں اپنے پچھلے دو کالموں میں یہ نکتہ اجاگر کرتا رہاہوں کہ وزیر اعلیٰ اگر یہ سمجھ رہی ہیں کہ دس اگست سے جاری احتجاج کے لئے بی جے پی اور سی پی آئی (ایم) ذمہ دار ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ بی جے پی اور سی پی آئی (ایم) موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش ضرور کررہی ہیں تاہم ان پارٹیوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ ممتا حکومت کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کا انعقاد کراسکیں اور اسے اتنے طویل عرصے تک جاری رکھ سکیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور مرڈر کی تحقیقات میں کی گئی کوتاہیوں اور غفلتوں کی وجہ سے بنگال کے عوام برہم ہوگئے ہیں۔ ان کی برہمی دراصل کلکتہ پولیس اور اسپتال کے پرنسپل سندیپ گھوش کے خلاف تھی جو ممتا بنرجی حکومت کے خلاف تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ اس تحریک میں کلکتہ کے شاعر، ادیب، فلمی شخصیات، طلبہ، پروفیسرزاور لاکھوں مڈل کلاس بھدرلوک حصہ لے رہے ہیں۔ کلکتہ کی فضاؤں میں انقلابی نغمے گونج رہے ہیں۔ کلکتہ کا احتجاج سوشل میڈیا فیس بک اور واٹس اپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعہ چند دنوں کے اندر پورے ملک اور بیرون ملک میں بھی پھیل گیا۔امریکہ اور یورپ میں لاکھوں بنگالی اعلیٰ عہدوں پرفائز ہیں۔انہوں نے اس احتجاج کو عالمی احتجاج میں بدل دیا ہے۔ یہ بنگالی Diasporaجو کبھی دیدی کا فین ہوا کرتا تھا، آر جی کار اسپتال کے سانحے کے بعدان سے بے حد ناراض ہے۔ اس ایک واقعے کی وجہ سے پورے صوبے کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 
وہ شہر جو ممتا کو دیدی کہتا تھا وہاں ان کے پتلے جلائے جانے لگے ہیں۔ درگا پوجا کمیٹیوں کو ریاستی حکومت ہر سال ایک بڑی رقم سرکاری چندے کے طور پر دیتی ہے۔ اس بار بطور احتجاج ان کمیٹیوں نے ممتا کا چندہ لینے سے انکار کردیا ہے۔ ممتا بنرجی کو جب یہ احساس ہوگیا کہ ہوا کا رخ بدل گیا ہے تو انہوں نے اپنا جارحانہ انداز تکلم ترک کرکے لب و لہجہ نرم کرلیا اور تصادم کی راہ تیاگ کر کے مصالحت کی راہ اپنالی۔ گو ممتا نے یہ دعویٰ کیا کہ بنگال کو بنگلہ دیش بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن دل ہی دل میں وہ یہ سمجھ گئیں کہ اگر عوام بدظن ہوجائیں تو شیخ حسینہ جیسی مضبوط حکمراں کا تختہ بھی پلٹا جاسکتا ہے۔
 پچھلے چالیس دنوں سے گودی میڈیا بریکنگ نیوز کے نام پر فیک نیوز کے ذریعہ کلکتہ پولیس، سرکاری افسران اور ممتا حکومت کے خلاف عوام کا برین واش کررہا ہے۔آر جی کار اسپتال کے اندراکتیس سالہ مسیحاکے ساتھ کی گئی درندگی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ریپ کیا صرف کلکتہ میں ہوتاہے؟ مہاراشٹر ہو یا مدھیہ پردیش،اترپردیش ہو یا اتراکھنڈ ملک کے ہر صوبے میں ہر روز ریپ، گینگ ریپ   اور عورتوں کے خلاف دیگر جنسی جرائم کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔لیکن انہیں اس طرح تو نہیں اچھالا جارہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(NCRB) کے اعدادو شمار کے مطابق پچھلے سال ملک میں اکتیس ہزار سے زیادہ ریپ ہوئے یعنی ہر دن ۸۶؍ریپ کی وارداتیں ہوئیں۔ ممتا حکومت کو معتوب کرنے والے یہ کیوں فراموش کرجاتے ہیں کہNCRBکے مطابق پچھلے دو سال سے لگاتار کلکتہ کو عورتوں کے لئے محفوظ ترین شہر ہونے کا اعزاز مل رہا ہے۔
 گودی میڈیا کسی بڑی طاقت کے اشارے پر کلکتہ میں احتجاج کے ذریعہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ممتا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ احتجاجی ڈاکٹر انصاف نہیں ان کی کرسی چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی کرسی پر کسی اور کی نظر ہے۔’’ دافا ایک دابی ایک: مکھیہ منتریر پدوتیاگ‘‘(ایجنڈہ ایک، مطالبہ ایک: وزیر اعلیٰ کا استعفیٰ)،بی جے پی یہ نعرہ لگا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے پانچ نکاتی مطالبات میں ممتاکے استعفے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ لیکن تکلیف دہ سچائی یہ ہے کہ آج جو عوام احتجاج کررہے ہیں کل انہوں نے ترنمول کانگریس کو ووٹ دیا تھا۔ یہ لوگ دیدی کے مداح تھے جو ان سے روٹھ گئے ہیں۔ممتا سمجھ گئیں کہ اگر ان کو نہیں منایا گیا تو ان کی گدی نہیں بچے گی۔She Stoops to Conquer انگریزی ادب کا ایک کلاسیکی ڈرامہ ہے۔ جس کانام ایک ضرب المثل بن گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی بڑے خطرے کو ٹالنے اور بڑی فتح کوحاصل کرنے کے لئے اپنے اعلیٰ منصب سے نیچے جھک کر کوئی سمجھوتہ کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ ممتا بنرجی نے ڈاکٹروں کے مطالبات مان کر دراصل بنگال کے عوام کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے تاکہ کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرسکیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK