Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ یکایک وہ جھاڑیوں سے نکلی اور مجھ پر جھپٹ پڑی! وقت جیسے تھم سا گیا تھا ‘‘

Updated: April 20, 2025, 12:33 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

مشہور شکاری جم کاربیٹ نے اپنی کتاب ’ مین ایٹرس آف کُماؤں ‘ میں اپنی داستان کچھ یوں بیان کی ہے کہ ان کا قاری ایک ایک لمحے کی شدت کو الگ الگ محسوس کرتا ہے، ۱۹۴۴ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے اب تک کئی ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جِم کاربیٹ ( ۱۹۵۵ - ۱۸۷۵ء) برطانوی ہند کے کامیاب ترین شکاری تھے۔ آدم خور شیروں اور تیندوؤں کے شکار کی غیرمعمولی مہمات نے کاربیٹ کو بے حد شہرت و مقبولیت بخشی تھی۔ ان کے آباواجداد ہندوستان میں بس گئے تھے۔ نینی تال میں پیدا ہونے والے کاربیٹ نے اپنا بچپن گھنے جنگلوں میں گزارا۔ انہوں نے ہمالیہ کے کُماؤں منطقے میں کالاڈُنگی اور نینی تال کے جنگلات میں گھومتے پھرتے قدرتی ماحول کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ فوجی خدمات کے بعد اُنہیں آدم خور درندوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کاربیٹ نے بیسیوں خونخوارجانوروں کا خاتمہ کیا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ، وہ محافظِ جنگلات بن گئے۔ جنگلوں اورشیروں کے تحفظ کی وکالت کی۔ جم کاربیٹ کی کوششوں سے ۱۹۳۶ء میں نینی تال کا نیشنل پارک قائم ہوا جسے بعد میں اُنھی سے منسوب کردیا گیا۔ 
بندوق چلانے میں مشّاق کاربیٹ، قلم کا استعمال بھی مہارت سے کرتے تھے۔ ۹؍ کتابیں لکھیں۔ بڑی، خوبی کے ساتھ اپنی تحریروں میں جنگلوں کے قدرتی مناظر اور پُرخطر ماحول کی عکاسی کی۔ ’ مین ایٹرس آف کُماؤں ‘ یعنی کُماؤں کے آدم خور، کاربیٹ کی مقبول ترین کتاب ہے۔ ۱۹۴۴ میں پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ اب تک اس کے بے شمار ایڈیشن کتب بینوں کو لذتِ مطالعہ فراہم کرتے رہے ہیں۔ شکاریات کے زمرے میں اسے کلاسک تسلیم کیا جاتا ہے۔ 
’چمپاوت کی آدم خور‘ اس کتاب کی سب سےسنسنی خیز کہانی ہے۔ موجودہ اترا کھنڈ کے نینی تال، الموڑہ، چمپاوت اور اطراف کے علاقے کو کُماؤں کہاجاتا ہے۔ ایک شیرنی اس علاقے میں خوف کی علامت بن کر ۴۳۶؍ انسانی جانیں لے چکی تھی۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا۔ ویران بستیاں، سنسان راستے، پورا علاقہ اس ایک درندے کی دہشت میں جکڑا ہوا تھا۔ حالات کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ اس شیرنی کا شکار کرنا صرف ایک معرکہ نہیں بلکہ ذہانت، صبر اورخطرے کا کھیل تھا۔ جِم گھنے جنگل میں شیرنی کا تعاقب کرتے ہیں، جہاں ایک خون آلود پتہ، مٹی میں دھندلے پنجوں کے نشانات، اور جنگل کی غیر معمولی خاموشی ہر لمحہ کسی طوفان کی پیش گوئی کر رہی ہوتی ہے۔ 
ہم میں سے اکثر نے بچپن میں ٹارزن اور فینٹم کے کامِک پڑھے ہوں گے۔ ڈینکالی کا جنگل، قبائلی زندگی، چرند و پرند کی رنگین تصویروں کے ذریعے ہم دشتِ تخیل میں کھوجا یا کرتے تھے۔ کاربیٹ کی تحریریں ان سے کچھ کم مزہ نہیں دیتیں۔ 
کاربیٹ کیلئے جنگل صرف ایک پس منظر نہیں بلکہ خود ایک متحرک اور زندہ کردار ہے۔ وہ اس کی کیفیات کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے جنگل بھی ان کے ہمراہ سانس لے رہا ہو۔ شیر کے حملے سے پہلے کی پُراسرار خاموشی، لنگوروں کی خوفزدہ چیخیں یا ہمالیائی پہاڑوں پر چھانے والی دھند۔ بچپن میں کالاڈنگی کے جنگلات میں گھومنے کی ان کی عادت نے انہیں جنگل کی ہر آہٹ، ہر تبدیلی کا ماہرمشاہد بنا دیا۔ یہی علم ان کے بیان کو غیر معمولی بناتا ہے۔ ان کی تحریر میں قاری ایک ایک لمحے کی شدت کو علاحدہ علاحدہ محسوس کرتا ہے۔ ذرا محسوس کیجئے :
’’جنگل پر ایک گہرا سکوت طاری تھا جیسے درختوں کی شاخیں بھی سانس روک کر کسی انہونی کا انتظار کر رہی ہوں۔ میں دبے پاؤں آگے بڑھا۔ بندوق مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ مجھے اپنی دھڑکن کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ کہیں قریب ہی وہ خونخوار شیرنی موجود تھی۔ میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اچانک، ایک گرج فضا میں گونجی۔ بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ میں ایک اُکھڑے پڑے درخت کے پیچھے دبک گیا۔ پھر ایک لمحے کیلئے زرد و سیاہ دھاریوں کا ایک سایہ جنبش میں آیا۔ یکایک ایک دہاڑ کے ساتھ وہ جھاڑیوں سے نکلی اور مجھ پر جھپٹ پڑی! وقت جیسے تھم سا گیا۔ میں نے گولی چلا دی۔ شیرنی کے جسم میں ایک جھٹکا پیدا ہوا مگر وہ رکی نہیں۔ خونخوار آنکھوں سے وہ مزید قریب آچکی تھی۔ دوسرا فائر.... اور وہ دھڑام سے زمین پر گری، بس چند قدموں کے فاصلے پر! اب جنگل میں حقیقی خاموشی چھا گئی تھی۔ ‘‘
مندرجہ بالا پیرا گراف ترجمہ نہیں ہے۔ دراصل اردو قارئین کو، کاربیٹ کی انگلش سنسنی سے روشناس کروانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ راقم الحروف کی تحریر کردہ ایک تخیلاتی جھلک ہے جو حقیقی واقعہ سے قریب تر ہے۔ 
کاربیٹ صرف واقعات کا بیان نہیں کرتےبلکہ وہ شکار، شکاری اور متاثرہ لوگوں کی نفسیات میں بھی اُترتے ہیں۔ وہ دیہاتیوں کے خوف کی شدت کو محسوس کرواتے ہیں۔ دہشت جس کا سایہ ہر طرف منڈلا رہا ہو۔ مچان پربیٹھ کر انتظار کرتے وقت خوف، اضطراب اور ہمت کا ملا جلا احساس۔ وہ خود سے سوال کرتے ہیں کہ آیا شیر کی دہاڑ دھمکی ہے یا محض دکھاوا؟ اس طرح کی نفسیاتی پیچیدگی ان کی تحریروں کو عام شکاری کہانیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ 
جِم کی کہانیاں ہم کو درندوں کی فطرت اور عادتوں سے واقف کرواتی ہیں۔ ایک شیر کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے آدم خور بن جاتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایسے۱۰؍ میں سے ۹؍ معاملات میں شیر اتنا زخمی ہوتا ہے کہ اس میں جنگلی جانوروں کے شکار کی طاقت باقی نہیں رہتی، تب وہ انسان کو خوراک بناتا ہے اور اکثر ایسا کسی شکاری کی غلط فائرنگ اور طریقہ شکار سے ناواقفیت کے باعث بھی ہوتا ہے۔ دوسری وجہ جانور کی پیرانہ سالی ہے۔ انسانی گوشت، شیروں کی قدرتی یا پسندیدہ غذا نہیں ہوتی لہٰذا جِم اس غلط فہمی کی بھی تردید کرتے ہیں کہ آدم خور شیر کے بچے بھی آدم خور ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اگر انسانوں پر حملہ کرتے ہیں تو صرف اپنے پیٹ کی آگ بُجھانے کی خاطر کرتے ہیں البتہ تیندوؤں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب انسانوں کے ذریعے بلا دریغ شکار کی وجہ سے دیگر جانوروں کی قلت ہو جاتی ہے تو آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ 
شکار ایک اچھی خاصی سائنٹفک مہم ہے۔ شیر کے پیروں کے نشانات سے ماہر شکاری بہت ساری معلومات اکٹھا کر لیتے ہیں۔ جِم لکھتے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ جانور نر ہے یا مادہ؟ کس سمت میں گیا ہے؟ کتنی دیر پہلے گزرا ہے؟ یہاں تک کہ اس نے حال ہی میں انسانی گوشت کھایا ہے یا نہیں ؟ اکثر مچان پر بیٹھے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسلحے کی قسم اور نوعیت بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بندوق کا درست استعمال ضروری ہے۔ جانور کی جسمانی ساخت اور طاقت کا اندازہ آسان کام نہیں۔ شکار میں مویشیوں کا استعمال، کبھی شور مچانا اور کبھی دَم سادھے رہنے کی تربیت، سب کچھ بیحد اہم ہوتا ہے۔ جِم خود لنگوروں اور دیگر جانوروں کی آوازیں نکالنے کے ماہر تھے۔ پھر اس کے علاوہ ان میں بلا کی خود اعتمادی اور بے خوفی تھی۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ ہزاروں لوگوں کو وحشی درندوں کی دہشت سے نجات دلاسکے تھے۔ 
کتاب میں چمپاوت، پوال گڑھ، موہن، کانڈا، پیپل پانی اور تھاک کے آدم خور شیروں کے دلچسپ قصے شامل ہیں۔ ایک باب میں جِم اپنے پیارے، وفادار کتے رابن کی خاکہ نگاری کرتا ہے۔ رابِن تین ماہ کا تھا جب جِم نے اسے پندرہ روپوں میں خریدا تھا۔ لکھتے ہیں کہ ہندوستان کا سارا سونا بھی اُسے مجھ سے نہیں خرید سکتا۔ وہ تربیت پاکر جِم کا بہترین معاون بنا۔ وہ شکار کی موجودگی دور سے پہچان کر خاموشی کے ساتھ سر اورآنکھوں کے اشاروں سے اطلاع کر دیا کرتا تھا۔ کاربیٹ خود کو جنگلوں کے اطراف مقیم دیہی باشندوں کیلئے ایک نجات دہندہ کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ امیدوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ایک ذمہ دار محافظ جانتے ہیں۔ فرض شناسی اکثر انھیں شکار کے بدلے انعام یا معاوضہ لینے سے روکتی ہے۔ ۱۹۳۸ء کے آخر میں، تھاک کے آدم خورکو انتہائی خطرناک مہم کے بعد ہلاک کرکے کاربیٹ نے شیروں کا شکار ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنگلی ماحولیات و فطرت کے محافظ بن گئے۔ ان کی تحریریں بھی، جانوروں سے ہمدری اور جنگلی حیات کیلئے گہرے احترام کا اظہار کرتی ہیں۔ کاربیٹ کا زمانہ ایک صدی قبل کا تھا۔ آج کل، بَن اوراُسکی ہِرن ہی نہیں، شیروں چیتوں، کے تعلق سے بھی انسان کا رویہ تبدیل ہورہا ہے۔ جانور کے شکار پر، بجا طور پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کے شکاریوں کو بھی کڑی سزائیں ملیں !
یہ کتاب صرف شکار کی سچی کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل مہماتی تجربہ ہے۔ یہ محض ایک معلوماتی کتاب نہیں بلکہ ایک ایسا سفاری ٹور ہے جو آپ کو جنگل کے بیچوں بیچ لے جاتا ہے، جہاں آپ ہر سرسراہٹ پر چونک جاتے ہیں، ہر سائے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں اور ہر پل تجسس سے بھرا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو جنگل کی پراسراریت، قدرتی حیات کا مشاہدہ کروانے والی سنسنی خیز اور حقیقی کہانیاں پسند ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK