’ سوپان جوشی‘ نے اپنی کتاب ’مینگی فیرا اِنڈیکا‘ میں آموں سے متعلق کئی دلچسپ حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جاپان میں آم قیمتی زیور جیسے اہتمام سےفروخت ہوتے ہیں، وہاں ۲۰۱۹ء میں دو عدد آم تین لاکھ روپوں میں نیلام ہوئے تھے۔
EPAPER
Updated: December 29, 2024, 1:24 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
’ سوپان جوشی‘ نے اپنی کتاب ’مینگی فیرا اِنڈیکا‘ میں آموں سے متعلق کئی دلچسپ حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جاپان میں آم قیمتی زیور جیسے اہتمام سےفروخت ہوتے ہیں، وہاں ۲۰۱۹ء میں دو عدد آم تین لاکھ روپوں میں نیلام ہوئے تھے۔
اس سال شائع ہونے والی چند دلچسپ کتابوں میں سے ایک ’مینگی فیرا اِنڈیکا‘بھی ہے۔ یہ آم کے درخت کا سائنسی نام ہے۔ بارے آموں کے کچھ بیان کرنے کے شوق میں، مصنف نے برسوں تحقیق کی۔ بہت آموں کی تمنا میں بہت خاک چھانی، پھر خامےکو’ نخلِ رطب فشاں ‘کیا۔ سوپان جوشی صحافی ہیں۔ اخبارات اور جریدوں کیلئے رپورٹیں اور مضامین لکھتے رہے ہیں۔ اس مزیدار کتاب میں ہم دنیا کے بہترین باغات کا ذکر پڑھتے ہیں جہاں آموں کے پھول، خوش رنگ، رس بھرے پھلوں میں نمو پاتے ہیں۔ بازاروں تک لائے جاتے ہیں جہاں کی گہما گہمی بھری فضا آموں کے وجود سے مہک اُٹھتی ہے۔ بالآخر ہماری پلیٹوں تک پہنچ کر زبانوں کو ہمارا پسندیدہ ذائقہ دیتے ہیں۔
پسندیدہ رِشوت
ہندوستان میں آم، پیمائشِ تعلقات کی اکائی ہے۔ آم ایک میموری ڈسک ہے۔ ہندوستان کی سماجی و جذباتی زندگی کا آدھار کارڈ۔ یہاں اس کارڈ کا زندگی سے لِنک ہونا لازمی ہے۔ آم آپ کے اندر پوشیدہ بچّے کو نمودار کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر آم کھانے کے بعد آپ صاف ستھرے نظر آئیں تو شاید آپ نے اس کا خاطر خواہ مزہ نہیں لیا۔ مصنف آم کے فضائل، مختلف قسموں کی تفصیلات، آم کے موسم کی باتیں کرتا ہے۔ ساتھ ہی ثقافت، تاریخ اور مذہب سے اس کے رشتے کو بیان کرتا ہے۔ آم ہندوستان کی پسندیدہ رشوت ہے۔ بابوؤں اور ان کے اہل خانہ کیلئے مرغوب سوغات۔ تحفہ بھجوائیے، کام نکلوائیے۔
ہاپوس کا دھونس دھڑکّا
اپنے علاقے کے آم سے نسبت جوڑنا لوگوں کیلئے باعثِ افتخار ہوتا ہے۔ الفانسو شاوِنِزم یعنی ہاپوس کا دھونس دھڑکا ہر جگہ نہیں چل پاتا۔ لنگڑے، دسہری، بے نشان، امام پسند کے شوقینوں کو ہاپوس نہیں بھاتا۔ چوسا، طوطا پری، نیلم، کیسر، رانی پسند، زردہ، مان کُراڈ، رٹول، ثمر بہشت، آمر پالی، سارولی، رومانی، کشن بھوگ، لال بابا، سورن ریکھا، زردالو اور مالدہ۔ ایک مکمل فوج کھڑی ہے ہاپوس کی ہفتہ وصولی کے بالمقابل۔ آم دو طریقوں سے کھایا جاتاہے چوس کر اور کاٹ کر۔ خود کو ایک بایئولوجِیکل ہستی مانتے ہوئے بتائیے کہ جنابِ والا کون سا طریقہ پسندکرتے ہیں ؟ آم اُگایا بھی دو طریقوں سے جاتا ہے۔ بیج بوئیے یا قلمکاری کیجئے۔ راقم جیسے بَلَدی نابَلَدوں کیلئے، ایسی کتابیں ذریعہ معلومات ہیں ۔
تاریخ اور پھلوں کا بادشاہ
مصنف، بادشاہ اشوک کے فرمان کا ذکر کرتا ہے جس میں شاہراہوں کے کنارے آم کے باغات لگانے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری نے گرینڈ ٹرنک روڈ کے ساتھ آم کے درخت لگوائے۔ اکبر نے سمستی پور کے قریب آم کے ایک لاکھ پودے لگوائے۔ وسطی ایشیاء سے ماہر باغبان طلب کئے۔ اورنگ زیب نے آموں کی دو قسموں کو سنسکرت نام، سُدھا رس اور رسنا وِلاس دیئے۔ بُرے منتظم، نالائق بیٹے اور سڑے آم، اُس کی خفگی کا سبب بنتے۔ مورخین کے مطابق مغلیہ دور میں، جو شخص اپنی زمین کو باغ میں تبدیل کرتا، اس کے محصولات معاف کئے جاتے تھے۔ میتھلا علاقے میں بیسویں صدی تک آم کے باغات پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ پیشوا دور میں، مالی مشکلات کے باعث محصولات کی شرح بڑھائی گئیں تو آم جیسی نقد آور فصلوں کی کاشت کو فروغ دیا گیا۔ برطانویوں نے آم کی اہمیت سمجھنے کے باوجود اس کی کاشت کو فروغ دینے کیلئے کچھ خاص نہیں کیا۔ ریلوے لائنوں کے ساتھ آم کے درخت لگانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس، جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی۔ سکندرِ اعظم کے سپاہیوں کو آم کھانے سے منع کیا گیا کیونکہ اس سے پیچش ہو سکتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے چودھویں صدی میں مالابار علاقے میں آم سے متعلق ایک قصہ لکھا۔ پہلی جنگِ پانی پت ( ۱۵۲۶)آم کےایک باغ کے قریب لڑی گئی تھی جبکہ جنگِ پلاسی ( ۱۷۵۷) بھی آم کے ایک باغ میں لڑی گئی تھی۔ بنگال کے نواب، شجاع الدولہ نے آم کی کاشت کیلئے ماہر باغبانوں کی مدد سے مرشدآباد میں ’انبہ خانہ‘ تحقیقی مرکز قائم کیا۔ ہندوستان کے مختلف علاقو ں جیسے لکھنؤ، حیدرآباد اور جوناگڑھ میں درباری سرپرستی کی بدولت عمدہ آموں کے باغات وجود میں آئے۔
مینگو ڈپلومیسی
آم کی سیاسی اہمیت قدیم ہے اور آج بھی قائم ہے۔ پنڈت نہرو میز پر نہایت نفاست اور مہارت سے آم کو دو حصوں میں کاٹ کر گٹھلی نکالتے تھے۔ انہوں نے امریکی صدر کینیڈی اور مشہور ادیب برنارڈ شا کو آم تحفے میں دیئے۔ سوویت لیڈر خروشیف کو آم چوس کر کھانے کا طریقہ سکھایا۔ چینی وزیر اعظم چاؤ این لائی کو رسمی انداز میں کاٹ کر، چمچ سے کھانے کیلئے آم پیش کئے گئے تو انھوں نے کہا کہ وہ ایک نئی مٹھاس اور خوش مزاجی کی دنیا سے متعارف ہوئے ہیں۔ اس کے بعد وہ نہرو کے قریب ہو گئے اور مشہور مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کر دیئے۔ پاکستان بھی مینگو ڈپلومیسی میں پیچھے نہیں رہا۔ ۱۹۶۸ء میں پاکستانی وزیر خارجہ نے چیئرمین ماؤزے تنگ کو آموں کا ایک کریٹ بھجوایا جسے انھوں نے اپنی تشہیری ٹیم کے حوالے کردیا۔ بس کیا تھا، آم کمیونسٹ رہنما کا نشان بن گئے یہاں تک کہ اُس سال قومی دن کے پریڈ میں آم سیاسی علامت کے طور پر پیش کئے گئے۔ ’آمی‘ سفارت کاری کو ہندو پاک تعلقات میں خاص مقام حاصل ہے۔ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی کوشش ہوتی ہے، آم کی ٹوکریاں سرحد پار بھیجی جاتی ہیں۔ ۱۹۸۱ءمیں، صدر ضیاءالحق نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو آم بھیجے۔ ان کے اس عمل پر کسی اخبار میں کارٹون شائع ہوا جس میں آموں کے ٹوکروں کو ایف۔ ۱۶؍ طیاروں میں چڑھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ ضیاءالحق طیارے کے پائلٹ سے کہتے ہیں :’’پہلے آم پہنچا دو، بعد میں بم پہنچانا!‘‘ ۲۰۱۵ء میں نواز شریف نے نریندر مودی کو عید کے موقع پر آم بھیجے۔
بُدھ راہب ہندوستان سے اپنے مذہب کے ساتھ آم بھی لے گئے لہٰذا بُدھ مت اور آموں کا ساتھ ساتھ فروغ ہوا۔ پیدائش اور موت کی ہندو رسومات میں آم کی پتیوں کا استعمال خاص اہتمام سے ہوتا ہے۔ مصنف، سرسّید کے آم سے پرہیز کرنے کی مذہبی وجہ کابھی تذکرہ کرتا ہے۔ جین، مانسون کی آمد کے ساتھ ہی آم کھانا ترک کردیتے ہیں کہ کہیں کوئى کیڑا بھی پیٹ میں نہ چلا جائے۔ ممبئی میں پارسیوں کے مینارِ خموشاں کے اطراف آم کے بہت سارے درخت ہیں۔ مصنف غالب کا ذکر کئی بار کرتاہے۔ قصیدہ ’در صفت انبہ‘ کا انگریزی املا بڑے احتیاط سے رقم کرتا ہے۔ کالی داس کے شکُنتلا کو آم کے ذکر میں، سُنہری معیار گردانتا ہے۔
قومی یا عوامی پھل
سوپان، آم کو قومی یا عوامی پھل کہتے ہیں جو اَب عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ مرشدآباد کا کوہِ طور ایک عدد ۸۰۰؍ روپے تک بھی بِکتا ہے۔ دنیا میں آم کی کل ۱۶۸۲؍ قسموں میں سے ایک ہزار ہندوستانی ہیں لیکن سائنسدانوں کے مطابق آم کی ابتداء کے متعلق حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ جاپان کے میازکی بازار میں آم کسی قیمتی زیور جیسے اہتمام سے فروخت ہوتے ہیں۔ وہاں ۲۰۱۹ء میں دو عدد آم تین لاکھ روپوں میں نیلام ہوئے تھے۔ دنیا میں آم کی کل پیداوار کا سب سے بڑا حصہ ۴۴؍ فیصد، ہندوستان میں ہوتا ہے۔ لیکن برآمدات میں ہندوستان کا نمبر تیسرا ہے۔ میکسیکو ایکسپورٹ میں سرِفہرست ہے جہاں دنیا کا صرف۴؍ فیصد آم پیدا ہوتا ہے۔ زراعت و باغبانی کے عالمی معیار کی پاسداری میں ہم کافی پیچھے ہیں۔ پھل بالکل بے حسی کے ساتھ اگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھل کا معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ کیمیائی مادوں کی مدد سے آم کو پکانے کی وجہ سے کئی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ جوشی کیڑے مار ادویات کے اندھا دھند استعمال پر بھی تنقید کرتےہیں۔ وہ کچے پھلوں کی درآمد کے خطرے کو بھی اجاگر کرتے ہیں جو نئے کیڑوں کو متعارف کراتا ہے، جو فصلوں کو زَک پہنچاتے ہیں۔
آم اور اصل ہندوستان
آم کی کاشت میں دیو گڑھ کے ودیادھر جوشی اور رتنا گری کے وِویک بِھڑے ہیں تو امروہہ کے کلیم الدین صدیقی اور ملیح آباد کے مجیب خان۔ بیوپاریوں میں واشی کےاشوک ہانڈے، پونےکے دیسائی برادران کے ساتھ جوناگڑھ کے قیوم بھائی کریم بھائی اور لکھنؤ کے شنّے میاں ۔ کتاب میں آم کے گودے کے سب سے بڑے ایکسپورٹر تنویر حسین کا ذکر بھی ہے۔ آج کے ہندوستان میں، آم کے تھوک فروشوں میں اندازاً ۷۰؍ فیصد مسلمان شامل ہیں جبکہ ۸۰ء کی دہائی میں یہ تعداد ۹۰ فیصد تھی۔ سوپن کہتے ہیں کہ (آم ) پر تحقیق نے مجھے ہندوستان اور ہندوستانیوں میں تکثیریت اور تنوع دیکھنے والی نئی آنکھیں عطا کیں۔
یہ کتاب ہندوستان کے پسندیدہ پھل آم کی سرگزشت ہے۔ الِف بُک کمپنی نے الف سے ے تک آم کے متعلق ساری معلومات عام کرنے والی یہ خاص کتاب شائع کی۔ ہلکے پھلکے مطالعے کے ذریعے یہ کتاب ذہن کو اُتنی ہی بھرپور غذائیت دیتی ہے جتنی خوش ذائقہ آموں کی قاشیں۔ یہ مبصر سبھی باذوق قارئین سے اِس کتاب کی سفارش کرتا ہے۔ اس میں جگہ جگہ مِٹھاس کا ذکر آتا ہے۔ اس وقت آم کا موسم نہیں ہے، مٹھائی کھانےکو دل کرے گا۔ ذیابطیس کے مریض احتیاط کریں۔