• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

منموہن سنگھ نے اپنے خط میں کئی محاذوں پر حکومت کو گھیرا ہے

Updated: June 03, 2024, 4:42 PM IST | Arkam Noorul Hasan

سابق وزیر اعظم نے عوام کے نام جو خط لکھا ہے اس میں انہوں نے واضح طورپر کہا ہےکہ ملک میں جمہوریت اور آئین کو بچانے کا یہ آخری موقع ہے، اس کے علاوہ انہوں نے جی ڈی پی کا ذکر کیا ، اگنی ویر پرحکومت کو نشانہ بنایا ،کسانوں کی زبوں حالی پرحکومت کو آئینہ دکھایا لیکن کیا سابقہ حکومت کے سربراہ کی باتوںکو بی جےپی اور مودی کوئی اہمیت دیں گے؟

Manmohan Singh. Photo: INN
منموہن سنگھ۔ تصویر: آئی این این

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی شبیہ ایک باوقار اور سنجیدہ سیاستداں کی رہی ہے۔ وہ مزاجاًکم گو ہیں لیکن قومی اہمیت کےحامل کسی پر موضوع پران کی رائے کا ملک کے ہر طبقے میں احترام کیاجاتا ہے۔ ۳؍ اپریل ۲۰۲۴ء کووہ راجیہ سبھا سے ریٹائر ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ان کا ۳۳؍ سالہ سیاسی کریئر بھی اختتام کو پہنچا۔ راجیہ سبھا سے ان کی سبکدوشی کے دن وزیراعظم مودی نے ہی ان کی خدمات اورملک کی ترقی کیلئے ان کے اقدامات کا اعتراف کیا تھا۔ اب انہی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انتخابی مرحلے کے آخری دن پنجاب کے ووٹروں سے جمہوریت اور آئین بچانے کی اپیل کی ہے اوربی جےپی کے دوراقتدار میں ملک کی حالت کو’ناقابل تصورشورش ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 
 منموہن سنگھ نے اس اپیل کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا ہےکہ صرف کانگریس ہی ترقی پر مبنی مستقبل کو یقینی بنا سکتی ہے جہاں جمہوریت اور آئین دونوں محفوظ رہیں گے۔ پنجاب کے ووٹروں کے نام تحریرکردہ اپنے تین صفحات پر مشتمل خط میں سابق وزیر اعظم نے کئی موضوعات پر بحث کی اورووٹروں سے کہا کہ یہ ملک کو بچانے کا آخری موقع ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے خط کے موضوع بہ موضوع اقتباسات کا اگرجائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہےکہ وہ سرگرم سیاست سے بھلے ہی سبکدوش ہوگئے ہوں لیکن ملک وعوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے وہ پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: گھاٹکوپر ہورڈنگ حادثہ غیر قانونی ہورڈنگز پرمعاملہ صرف نوٹس بھیجنےاورخط وکتابت تک محدودکیوں؟

وزیر اعظم مودی پرنشانہ 
 وزیر اعظم مودی کی مسلسل فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی تقریروں کے حوالے سے منموہن سنگھ نے لکھا’’ `ماضی میں کسی بھی وزیر اعظم نے سماج کے کسی خاص طبقے یا حزب مخالف کو نشانہ بنانے کیلئے بدنیتی پر مبنی، غیر پارلیمانی اور غیر مہذب زبان کا استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے میرے تعلق سے بھی کچھ غلط بیانات دئیے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایک کمیونٹی کو دوسرے سے علاحدہ نہیں کیا۔ اس (کام ) پر بی جے پی کا کا پی رائٹ ہے۔ ‘‘
 واضح رہےکہ ایک انتخابی جلسے میں وزیر اعظم مودی نے منموہن سنگھ پر الزام لگایا تھا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم کے بیان کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہےکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ اقلیتوں سے متعلق ا سکیموں کی بات کررہے تھے اور مسلمانوں کے سب سے بڑی اقلیت ہونے کی حیثیت سے انہوں نے یہ بات کہی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے تویہاں تک کہا تھا کہ کانگریس ملک کی دولت دراندازوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ مودی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ تقریر کررہے تھے لیکن اس معاملے پر جب وہ اپوزیشن کی سخت تنقیدوں کی زد میں آئے تو گزشتہ دنوں وہ اس بات سے صاف مکر گئےکہ وہ ہندومسلم کی سیاست نہیں کرتے۔ 
اگنی ویر اسکیم پر تنقید
 ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اگنی ویر اسکیم کو ہماری مسلح افواج پر مسلط کردہ ایک ناقص اسکیم قراردیتے ہوئے کہاکہ بی جے پی سمجھتی ہےکہ حب الوطنی، بہادری اورملک کی خدمت کی قیمت صرف ۴؍ سال ہے۔ اس سے ان کی فرضی دیش بھکتی کا اظہار ہوتا ہے۔ ‘‘ واضح رہےکہ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راجناتھ نے اگنی ویر اسکیم کا دفاع کیا ہے اورکانگریس پراگنی ویر اسکیم کے تعلق سے جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔ امیت شاہ کاکہنا ہےکہ اگنی ویروں کو سروس کے بعدملازمت کیلئے جدوجہد نہیں کرنی پڑے گی، مختلف سیکوریٹی کمپنیوں میں ان سے خدمت لی جائے گی، پولیس اور نیم فوجی دستوں میں اگنی ویروں کو ترجیح دی جائے گی اور ان کیلئے ریزرویشن ہوگا۔ 
 کانگریس لیڈران راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور سونیا گاندھی کے بعد منموہن سنگھ کا اگنی ویر کے تعلق سے موقف حکومت کیلئے مشکل کھڑی کرسکتا ہےکیونکہ منموہن سنگھ کے ۱۰؍سالہ دور میں نیز اس سے قبل کانگریس کے اقتدارکی تاریخ فوج کے وقار کی گواہ رہی ہے اور فوج میں بھرتی کا طریقہ بھی پُروقاررہاہے۔ اگنی وزیر وقتی طورپر تو نوجوانوں کو روزگار اور فوج کی خدمت کا موقع دے سکتی ہے لیکن مستقل طورپر یہ اسکیم نوجوانوں کو راغب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس سے خود نوجوان بھی واقف ہیں۔ 
جی ڈی پی پر منموہن سنگھ نے کیا لکھا ؟
 منموہن سنگھ کے خط کا یہ سب سے اہم موضوع تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے لکھا کہ ’’نوٹ بندی، جی ایس ٹی اورکووڈ کے دوران ہونے والی بد نظمی نے ملک کو ایک سنگین بحران میں دھکیل دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ۶؍ سے ۷؍ فیصدشرح نموکی توقع معمول کی بات ہوگئی تھی(اور حکومت کی کوشش بھی ترقی کا اشاریہ اسی کے ارد گرد رکھنے کی تھی )۔ بی جےپی کے دور حکومت میں شرح نمو۶؍ فیصد سے بھی نیچے گر گئی تھی جبکہ یوپی اے کی میعاد کار میں یہ۸؍ فیصد تک پہنچی تھی۔ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور نا برابری کی جو موجودہ صورتحال ہےوہ ۱۰۰؍ برسوں میں کبھی نہیں تھی۔ ‘‘عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ۲۰۱۰ء میں ملک کی شرح نمو نے ۸ء۵؍ فیصد کے عدد کو چھولیا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں جب پوری دنیا معاشی کسادبازاری کے سائے میں تھی، اس وقت شرح نمو۳ء۱؍ فیصد تک گری تھی۔ ۲۰۲۱ء میں شرح نمو۹ء۱؍ فیصد تک پہنچی تھی جبکہ اس سے قبل کورونا بحران میں یہ منفی ۵ء۸؍تک کھسک گئی تھی۔ 
 منموہن سنگھ نےاپنے مکتوب میں واضح کیا کہ ’’متعدد چیلنجوں کے باوجود یوپی اے حکومت نے اپنے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کیا، جبکہ بی جےپی کی بد انتظامی کے سبب آج گھریلو بچت کا اشاریہ ۴۷؍سال کی ریکارڈ پست سطح پرآ گیا ہے۔ ‘‘ڈاکٹر سنگھ نے کانگریس کے انتخابی منشور کا بھی ذکر کیا جس میں ۳۰؍ لاکھ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کا وعدہ کیا گیا ہے اورپیپرلیک کے معاملات پر کہا کہ اس سے طلبہ کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپر لیک کے معاملات موجودہ تعلیمی نظام اور اس کے ذمہ داروں پر بہت بڑا سوال کھڑاکرتے ہیں۔ 
کسانوں کی زبوں حالی
سابق وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ نے وزیراعظم نریندرمودی حکومت پر کسانوں اور بالخصوص پنجاب کے کسانوں کے سا تھ شدید نا انصافی کا الزام لگایا۔ ۴؍سال قبل کسانوں کے احتجاج نے ہی مودی حکومت پرتین متنازع زرعی قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ 
اس پرمنموہن سنگھ نے لکھا ’’کسانوں پر جب لاٹھیاں اورربرکی گولیاں ناکافی ثابت ہوئیں تو وزیر اعظم نے بھرے ایوان میں ان کیلئے ’پرجیوی ‘ (جراثیم) جیسے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔ وزیر اعظم مودی نے کسانوں کی آمدگنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج ایک کسان کی اوسط آمدنی ۲۷؍ روپے فی دن ہےجبکہ فی کسان پر اوسط قرض ۲۷؍ ہزار روپے ہے۔ ‘‘سابق وزیر اعظم کے مطابق یوپی اے کے دور میں ۳ء۷۳؍ کروڑ کسانوں کا ۷۲؍ ہزار کروڑ کا قرض معاف کیا گیا تھا۔ فصلوں کی کم از کم سہارا قیمت میں اضافہ ہوا تھا، پیداوار بڑھی تھی اور برآ مدات کو فروغ ملا تھا۔ وزیر اعظم مودی جنہوں نےحال ہی میں اپنے پیش روکی سیاسی خدمات کا صدق دل سے اعتراف کیا ہے، کیا مذکورہ بنیادوں پر اپنی حکومت کا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کیلئے تیار ہوں گے؟اس کا امکان کم ہی ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK