پچھلے ماہ اترپردیش میں جاری مہاکمبھ میں بھگدڑ مچنے سے اب تک درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے۔
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 1:55 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
پچھلے ماہ اترپردیش میں جاری مہاکمبھ میں بھگدڑ مچنے سے اب تک درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے۔
وطن عزیز میں بھگدڑ مچنے سے کچل کر ہلاک ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے سال ہاتھرس کے ایک ستسنگ میں ہوئی بھگدڑ سے ۱۲۱؍ لوگ مارے گئے تھے۔ تقریباً ۲۰؍ سال پہلے مہاراشٹر میں مانڈھرا دیوی کے میلے میں ۳۴۰؍ عقیدت مند اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے ۳؍ سال بعد راجستھان کے ایک مندرکے سامنے مچی بھگدڑ میں ۲۵۰؍ لوگ کچلے گئے تھے۔ اسی سال ہماچل پردیش میں نینا دیوی کے میلے میں ہوئی بھگدڑ سے ۱۶۲؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ چھوٹے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ پچھلے ماہ اترپردیش میں جاری مہاکمبھ میں بھگدڑ مچنے سے اب تک درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ ابھی اس حادثے میں مہلوکین کی صحیح تعداد پر بحث چل ہی رہی تھی کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر المناک سانحہ پیش آیا جس میں ۱۸ افراد کچل کر ہلاک ہوگئے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر اردو اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے؟
انتظامیہ کی لاپروائی اور ناقص انتظامات
ہندی اخبار ’لوک مت سماچار‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’پچھلے سنیچر کی شب مہاکمبھ میں نہانے کیلئے نکلے ۱۸؍ افراد کی نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر موت ہوگئی۔ اس سے قبل سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پریاگ راج میں بھگدڑ کے دوران ۳۰؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بھلے ہی دونوں واقعات مختلف نوعیت کے ہیں مگر مسئلہ وہی انتظامیہ کی حد درجہ لاپروائی اور ناقص انتظامات ہیں۔ ۱۴۴؍ سال بعد ہورہے مہاکمبھ کیلئے اعلیٰ انتظامات کا دعویٰ ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے زور و شور سے کیا اورمیڈیا نے بھی اس کی خوب تشہیر کی۔ اس کے نتیجے میں ملک کے گوشے گوشے سے عقیدت مند پریاگ راج پہنچے، لیکن آمدورفت کے ذرائع اور راستوں کی کمی جواب دینے لگی۔ کہیں ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ اور بعض مقامات پر ۳۰۰؍ کلومیٹر کا جام لگ گیا۔ دراصل کمبھ کی تیاریوں میں پریاگ راج تک پہنچنے کے راستوں اور ذرائع پر گہرائی سے غور وفکر کرنا ضروری تھا۔ پچھلے چند برسوں میں سڑکوں کی اچھی حالت کی وجہ سے لوگوں نے پرائیویٹ گاڑیوں سے سفر کرنا پسند کیا۔ اسلئے یہ یقینی تھا کہ میلے کے دوران سڑک پر دباؤ بڑھے گا۔ ریلوے نے بھی بڑی تعداد میں اسپیشل ٹرینیں چلائیں جس کی وجہ سے ریلوے اسٹیشنوں پر مسافروں کا ہجوم بڑھ گیا لیکن ناقص انتظامات کی وجہ سے مسافروں کو کافی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ٹرینوں میں ٹکٹ کی دستیابی سے متعلق شرائط پہلے سے واضح ہونے چاہئیں تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا جس کا خمیازہ مسافروں کو اپنی جان دے کر بھگتنا پڑا۔ ‘‘
غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت
مراٹھی اخبار ’مہاراشٹر ٹائمز‘ نے ۱۸؍ فروری کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ پریاگ راج سانحہ کے بعد دہلی اسٹیشن پر بھگدڑ کا واقعہ اس تلخ سچائی کو اجاگر کرتا ہے کہ ملک میں انسانی جانوں کی قیمت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔ تروپتی اور پریاگ راج کے بعد اس تیسرے سانحہ میں تین بچوں سمیت ۱۸؍ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے عزیزوں اور ساتھیوں کی دم گھٹتی سانسیں دیکھ کر متاثرین کی ذہنی کیفیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حفاظت کا فقدان، کم سے کم نظم وضبط اور احتیاطی تدابیر میں خامی ایسے حادثات کی وجوہات ہیں تاہم اس حادثے سے سبق حاصل کرتےہوئے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرنا، غفلت اور عدم توجہی کی انتہا ہے۔ اس سانحہ کے پیچھے کارفرما نظام کی حد درجہ لاپروائی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ریلوے انتظامیہ نے پریاگ راج کی بھگدڑ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پریاگ راج جانے والی ٹرینوں کے ریزرو اور غیر ریزور سیٹوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ٹکٹیں فروخت کی گئیں۔ ایسے وقت میں ریلوے حکام کو ٹکٹوں کی فروخت روکنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ریزویشن ہونے کے باوجود مسافروں کو بھیڑ عبور کرکے ٹرین میں داخل ہونا پڑا۔ ۱۵؍ سال قبل چھٹ پوجا کے موقع پر دہلی اسٹیشن پر ایسا ہی سانحہ پیش آیا تھا جس کے بعد ہر سال چھٹ پوجا پر صرف ٹکٹ رکھنے والے مسافروں کو ریلوے اسٹیشن میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ ایسا انتظام اُس دن کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
یہ خالص ریلوے کی بد انتظامی کا معاملہ ہے
مراٹھی اخبار’پڈھاری‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ہندوستان کثیر آبادی والا ملک ہے جس کی اکثریت مذہبی رجحان کی حامل ہے، اسلئے وہ مذہبی مقامات کی سیر کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سال کا مہاکمبھ ۱۳؍ جنوری سے پریاگ راج میں شروع ہوا۔ اس کی اہمیت نایاب سیاروں کی وجہ سے کافی بڑھ گئی ہےلہٰذا ہر کوئی اس میں شرکت کیلئے پر جوش نظر آرہا ہے۔
اس دوران دہلی اسٹیشن پر مچنے والی بھگدڑ سے ۱۸؍ عقیدت مندوں کی دردناک موت واقع ہوگئی۔ ذرائع سے پتہ چلا کہ ہر گھنٹہ میں ۱۵۰۰؍ ریل ٹکٹ فروخت کئے جارہے تھے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسٹیشن پر پہنچیں گے اس کیلئے پیشگی منصوبہ بندی اور مناسب تیاری کی ضرورت تھی۔ سنیچر کی شب دہلی سے پریاگ راج کیلئے چار ٹرینیں روانہ ہونے والی تھیں جن میں سے تین تاخیر سے چل رہی تھیں۔ اسلئےپلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جب پریاگ راج ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر ۱۴؍ پر کھڑی تھی، اسی وقت پلیٹ فارم نمبر ۱۶؍ پر دوسری ٹرین کا اعلان کر دیا گیا۔ اسلئے مسافروں کا تذبذب میں پڑنا فطری تھا کہ ان میں سے کون سی ٹرین اُن کی ہے۔ اگر اسپیشل ٹرین کا پہلے انتظام کیا جاتا اور اس کی پیشگی اطلاع مسافروں کو ہوتی تو یقیناً یہ حادثہ ٹل سکتا تھا۔
ہماری کمزور یادداشت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے
انگریزی اخبار’دی ٹائمز آف انڈیا‘ نےاداریہ لکھا ہے کہ ’’ہندوستانیوں کی یادداشت بڑی کمزور ہے۔ اس کا سبھی کو اندازہ ہے، ورنہ سنیچر کی شب نئی دہلی اسٹیشن پر ۱۸؍ افراد نہ مرتے۔ ۲۰۱۰ء میں اسی اسٹیشن پر، جو ہندوستان کا مصروف ترین ریلوے اسٹیشن ہے، پر پلیٹ فارم کی تبدیلی سے مچنے والی بھگدڑ میں ۱۲؍فراد مارے گئے تھے۔ اس کے باوجود ریلوے انتظامیہ نے وہی غلطی دہرائی۔ عینی شاہدین کے مطابق ریلوے انتظامیہ نے اچانک ٹرین کا پلیٹ فارم تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔ ریلوے انتظامیہ اس کی تردید کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھگدڑ اس وقت مچی جب پلیٹ فارم نمبر۱۴؍ اور ۱۵؍ کی جانب جانے والی سیڑھیوں پر ایک مسافر پھسل کر گر پڑا۔ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان عالمی سطح پر بھگدڑ میں مرنے والوں کی تعداد ۱۳۷۰۰ تک پہنچ گئی تھی جن میں سے اکثر کی شروعات کسی ایک شخص کے گرنے سے ہوئی، اسلئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ‘‘