• Wed, 13 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مولانا آزاد کو خطابت ورثے میں ملی تھی مگر اَدب کا گہرا مطالعہ ان کے اپنے ریاض کا آئینہ ہے

Updated: November 10, 2024, 11:42 AM IST | Mumbai

کل، صاحب طرز ادیب مولانا ابوالکلام آزاد کے یومِ ولادت (۱۱؍نومبر ) کی مناسبت سے اُن کے اسلوب ِ نثر پر ایک تحریر جس میں ان کے تحریری سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے محاسن بیان کئے گئے ہیں۔

The flavor of rhetoric in writing and a coherent expression in speech are both mirrors of Maulana`s mood. Photo: INN
تحریر میں خطابت کی چاشنی اور تقریر میں ایک مرتب اظہار دونوں مولانا کے مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ تصویر: آئی این این

اگرچہ  مولانا برابر سمجھتے رہے کہ میں اپنے زمانے کے بہت بعد کا آدمی ہوں مگر در اصل مولانا کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو سمجھنے کیلئے ان کے دور کی بعض خصوصیات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ مولانا کے دور میں جو پڑھا لکھا طبقہ تھا وہ عام طور پر اردو کے علاوہ فارسی جانتا تھا اور عربی سے بھی مس رکھتا تھا۔ وہ انگریزی زبان و ادب سے بھی متاثر ہو رہا تھا۔ مولانا آزاد کی دلچسپی مذہب، ادب اور سیاست سے شروع سے تھی۔ مذہبی مسائل پر اظہار خیال کے لئے جو زبان رائج تھی اس پر عربی فارسی کا خاصا غلبہ تھا۔ ادب میں سرسید اور حالیؔ کے باوصف محمد حسین آزاد اردوئے معلیٰ کے ہیرو سمجھے جاتے تھے۔ شرؔر کے دلگداز کا خاصا چرچا تھا۔ نئی نسل میں اک رومانی لہر آ گئی تھی جو آگے چل کر ادب لطیف کے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ سجاد حیدر نے شاعرانہ نثر لکھنی شروع کر دی تھی۔ 
بیسویں صدی کے آغاز میں ’’مخزن‘‘ کا اجرا ہوا اور بہت جلد نئی نسل کے فکر و فن کا گہوارہ بن گیا۔ اس نے اردو کو اقبالؔ، ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری، شیخ عبدالقادر، غلام بھیک نیرنگ اور ایسے کئی شاعر اور ادیب دیئے۔ آزادؔ ایک قدامت پرست ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ ان کے والد ایک ممتاز عالم اور ایک ممتازخطیب تھے۔ اس زمانے کے علماء کے ہاں خطابت کے بغیر کسی کی شہرت نہ ہوسکتی تھی اور نہ اس کے خیالات کی اشاعت۔ مولانا آزاد نے شروع سے مطالعہ میں انہماک کا ثبوت دیا۔ ان کا مطالعہ ہی انہیں خاندانی عقائد سے سرسید کی تفسیر کی طرف، پھر ایک طرح کی دہریت کی طرف اور بالآخر مذہب پر ایک نئے یقین اور عقیدے کی نئی استواری کی طرف لایا۔ 
اس زمانے میں انہیں شاعری کا شوق ہوا مگر یہ زیادہ دن نہ چل سکا۔ اس زمانے سے ان کی خطابت کے جوہر کھلنے لگے اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ ملک کے ایک ممتاز خطیب مانے جانے لگے۔ شبلی کی صحبت میں ان کے ذوق کو جلا ہوئی۔ خطابت انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی مگر مذہبی علوم کے علاوہ عربی اور فارسی ادب اور پھر اردو ادب کا گہرا مطالعہ ان کے اپنے ریاض کا آئینہ ہے۔ ان کی والدہ عرب تھیں۔ خود انہیں اردو خاصی دیر میں سکھائی گئی اور پھر اپنے ذاتی شوق کی وجہ سے انہوں نے کلاسیکی اردو ادب اور نئی مطبوعات دونوں کا مطالعہ کیا۔ ان کا خاندان دہلوی تھا مگر ان کا بچپن زیادہ تر کلکتے میں گزرا۔ مولویوں کی اردو اور کلکتے کی اردو کے کچھ نہ کچھ اثرات ان کے یہاں برابر رہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ شروع سے ان کی تحریروں میں کچھ انگریزی الفاظ ملنے لگتے ہیں۔ مثلاً تصویر کے بجائے فوٹو اور تبصرے کے بجائے ریویو۔ کہنا یہ ہے کہ مولانا آزاد نے چونکہ شروع سے تحریر و تقریر دونوں پر توجہ کی اس لئے دونوں میں خطابت کے عناصر قدرتی ہیں۔ خطابت بہرحال ایک ادبی اسلوب ہے۔ اس میں منطق بھی ہوتی ہے، جذبات بھی، تکرار بھی اور لفظوں کا ایک خاص استعمال بھی۔ 
ایسا نہیں ہے کہ مولانا آزاد خطابت کے بغیر ’’لقمہ نہ توڑ سکتے ہوں۔‘‘ ان کی ابتدائی تحریروں میں سے یہ اقتباس ملاحظہ ہوں: ’’مخزن‘‘ میں ان کا پہلا مضمون مئی ۱۹۰۲ء میں فن اخبار نویسی پر شائع ہوا تھا۔ اس میں اسلوب یہ ہے:
’’کیا اخبار کے سوا کوئی بڑی سے بڑی ایسی دوربین ہے جس سے آپ دُنیا کو اپنا منظر بنا سکیں اور کیا اخبار کے سوا کوئی اونچے سے اونچا بلند مقام یا کوئی پہاڑ ہے جس پر بیٹھ کر آٖپ دنیا کا نظارہ کر سکیں؟ نہیں! ہرگزنہیں! نہ دنیا میں ایسی کوئی دوربین ہے نہ کوئی ایسا بلند مقام ہے۔ یہ صرف اخبار ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ملاحظے سے آپ تمام دنیا کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں اور جس کے حاصل کرنے سے آپ تمام دنیا کے نظارے حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ (مخزن، جلد۳، نمبر۲، مئی ۱۹۰۲ء) ۔ اسی سال ایک دوسرے مضمون خاقانی شروانی میں فرماتے ہیں:
’’اس زمانے میں فردوسی اور محمود غزنوی کی حکایتیں زبان زد خاص و عام تھیں۔ ہر ایک شخص کو شاعری کا شوق و ذوق تھا اور اس خیال میں سرمست تھا۔ جس علمی مجلس میں جاؤ تو وہاں منطق اور فلسفہ کی پریشان کن دماغی بحثوں کی بجائے شاعری کی خوش کن بحثیں ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔ جس دربار میں پہنچو اس میں شاعری کے دلکش راگ گاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ خون لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا آج ہم کہتے ہیں لیکن اس مثل کا سچا مصداق وہی زمانہ تھا اور یہ نہ تھا کہ لوگ شہیدوں میں داخل ہوجاتے تھے بلکہ شہید بھی ہو جاتے تھے۔ ہر ایک شخص یہی چاہتا تھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا تعالیٰ سے اس کی یہی دعا ہوتی تھی کہ میں فردوسی ہو جاؤں۔‘‘ (مخزن لاہور، اگست ۱۹۰۲) 
’’آپ جانتے ہیں اور یقیناً مجھ سے اچھا جانتے ہیں کہ محرکین تعلیم انگریزی کہ انگریزی کی اشاعت سے کیا غرض تھی۔ اشاعت علوم نہ ہوئی مگر افسوس ہے کہ یہ غرض تو حاصل نہ ہوئی اور انگریزی ذریعہ ٔ ملازمت سمجھ لی گئی۔ اب نہ کوئی سائنس سے غرض ہے نہ فلسفے سے۔ بس انٹرنس یا ایف  اے تک انگریزی حاصل کی اور روپے پر ملازم ہو گئے۔ پس حالت موجودہ کے لحاظ سے اس وقت اس کی بڑی ضرورت ہے کہ اپنی ملکی زبان میں علوم مغربی کا ترجمہ کیا جائے اور سائنٹفک سوسائٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی سے اتفاق کیا جائے۔‘‘ (مرقع علم میں خط۔ ۱۱؍ جون ۱۹۰۲ء) 
لسان الصدق کے بعد الندوہ کی ادارت میں شرکت، وکیل کی ادارت میں شرکت اور اسکے بعد الہلال کی ادارت کا نمبر آتا ہے۔ ابتدائی تحریروں میں مقصدیت غالب ہے۔ عبارت میں اگرچہ بعد کی روانی نہیں مگر ایک عزم، ایک جوش ملتا ہے۔ خطابت کی چاشنی بھی نظر آنے لگتی ہے۔ یہاں یہ بات پھر دہرانے کی ضرورت ہے کہ آزاد جتنا وقت تحریر کو دیتے تھے لگ بھگ اتنا ہی تقریر کو۔ اس زمانے میں جب بہت سے خطیب اپنا لوہا منوا چکے تھے، مولانا کی خطابت کی شہرت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ تحریر میں خطابت کی چاشنی اور تقریر میں ایک مرتب اظہار دونوں مولانا کے مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ بچپن سے ہی وہ باتیں نہیں کرتے تھے خطاب کرتے تھے۔ 
خطاب پر آج کل لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ بیان و بدیع کے علم کی زبان کے برتنے کے سلسلہ میں جو اہمیت ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پھر جو کام آج رسالے کرتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر تقریروں کے ذریعہ سے ہونا تھا۔ ہزاروں کے مجمع کو اپنے خیالات کے ذریعہ متاثر کرنا، ان کے ذہن کو کسی بڑی شخصیت، کسی بڑی تحریک، کسی بڑے مسئلے پر روشنی کے ذریعے سے متاثر کرنا، ان کو مذہب، علم، سیاست، تعلیم کے کسی پہلو سے آشنا کرکے عمل کی تحریک ان کے اندر پیدا کرنا یہی خطابت کا مقصد تھا۔ اس کے لئے نہ صرف زبان پر قدرت بلکہ علم بیان و بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کام لینا ضروری تھا۔ 
مولانا کو الندوہ کی ادارت میں شرکت یا وکیل کی ادارت میں شرکت اس لئے مطمئن نہ کرسکی کہ وہ خود اپنے ایک اخبار کے ذریعہ سے پوری قوم کو روشنی اور گرمی دینا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ اور رشید رضاکی مثالیں تھیں۔ شبلی سے بھی وہ خاصے متاثر تھے۔ وہ قدیم علوم سے واقف مگر قدیم طریقۂ تعلیم سے ناآسودہ تھے۔ وہ روشن خیال اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے علماء پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ علی گڑھ گروپ کی برطانیہ نواز پالیسی سے بیزار تھے۔ وہ بنگال کے شورش پسندوں سے بھی رابطہ رکھتے تھے۔ ان کا خطاب اگرچہ مسلمانوں سے تھا مگر وہ صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہ سوچتے تھے۔ ان کی نظر میں پوری ہندوستانی قوم تھی۔ وطن کی آزادی کا جذبہ شروع سے ان کے دل میں موجزن تھا۔ الہلال کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ اس میں فرماتے ہیں:
’’۱۹۰۶ء کے موسم سرما کی آخری راتیں تھیں جب امرتسر میں میری چشم بیداری نے ایک خواب دیکھا۔ انسان کے ارادوں اور منصوبوں کو جب تک ذہن و تخیل میں ہیں، عالم بیداری کا ایک خواب ہی سمجھنا چاہئے۔ کامل چھ برس اس کی تعبیر کی عشق آمیز جستجو میں صرف ہو گئے۔ امیدوں کی خلش اور ولولوں کی شورش نے ہمیشہ مضطرب رکھا۔ یہاں تک کہ آج اس خوابِ عزیز کی تعبیر عالم وجود میں پیش نظر ہے۔‘‘ 
 آگے چل کر انہوں نے الہلال کے عظیم مقاصد کا ذکر کیا ہے اور ایک تجارتی، کاروبار اور دوکاندارانہ شغل کے ذریعہ سے قومی خدمت اور ملت پرستی کے نام سے گرم بازاری پیدا کرنے کے بجائے الہلال کے بلند مقاصد اور جامع پروگرام کا ذکر کرکے لکھتے ہیں: ’’باغوں کے سرسبز و ثمردار درختوں کی حفاظت کی جاتی ہے مگرجنگل کے خشک درختوں کو جلانا ہی چاہئے۔ جس دل میں خلوص اور صداقت کو جگہ نہیں ملی اس کو کامیابی کے لئے کیوں باقی رکھا جائے۔‘‘
 الہلال کا اہم ترین حصہ اس کا دینی حصہ تھا۔ شروع ہی سے اس بات پر زور تھا کہ الہلال ایک اہم دعوت لے کر اٹھا ہے۔ بقول مولانا کے یہ ساری تحریک کام سے زیادہ‘‘ کام کی پکار‘‘ تھی۔ انہوں نے الہلال میں یہ لکھا بھی کہ میرے اعتقاد میں پہلی چیز کاموں کی تلاش نہیں ہے بلکہ کام کرنے والوں کی تلاش ہے۔ دنیا میں کاموں کی کمی نہیں رہی اصل کمی کام کرنے والوں کی ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں اپنے کاموں کا معرکۂ زار دکھلانا چاہتا ہوں کہ معلوم کروں کہ کتنے سپاہی مستعد ہیں اور کتنے ہیں جو اپنے خدا اور اپنی ملت کو اپنی زندگی اور اپنی قوت کاکچھ حصہ دے سکتے ہیں۔‘‘ 
 الہلال کے اسلوب کی وجہ سے مولانا کے اسلوب میں خطابت اورعربی فارسی الفاظ کی کثرت پر اعتراض کئے جاتے رہے ہیں۔ بلاشبہ الہلال کے اسلوب میں خطابت ہے۔ چونکہ الہلال کی تحریک میں ایک دعوت تھی۔ اس لئے اس میں خطابت کا عنصر ناگزیر تھا۔ الہلال کے اسلوب میں چونکہ دعوت ہے اس لئے خطابت بھی ہے مگر یہ صرف خطابت کی طلسم بندی نہیں ہے۔ اس میں گنجینہ معنی بھی ہے۔ اس میں ایک وسیع مطالعے، عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی اور ترکی زبانوں کے برگزیدہ اسالیب کا عطر بھی ہے۔ اس میں آیات اور اشعار کے برمحل حوالوں سے ایک لطف و کیف بھی ہے۔ اس میں خندۂ تیغ اصیل بھی ہے اور گریۂ ابر بہار بھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK