Inquilab Logo

اِبلاغِ عامہ اور قرآنی تعلیمات

Updated: September 16, 2022, 1:44 PM IST | Dr. Ehsan-ul-Haq | Mumbai

آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کو ہر امیرغریب کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ کے استعمال میں قرآنی اصول کو سامنے رکھیں تاکہ معاشرہ انتشار سے بچا رہے

The things that are prohibited in communication include avoiding lying, distorting the news and irresponsible reporting etc..Picture:INN
ابلاغ میں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان میں جھوٹ سے اجتناب، خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ وغیرہ شامل ہیں ۔ تصویر:آئی این این

| اِبلاغ عربی زبان کے بابِ افعال سے بطور مصدر مستعمل ہے جس کا معنی ہے: پہنچا دینا۔ باب تفعیل سے یہی مصدر ’تبلیغ‘ کے وزن پر آتا ہے جس کا مفہوم خوب اچھی طرح پہنچا دینا ہے۔ اِبلاغ عامہ کی انگریزی اصطلاح ماس کمیونکیشن کا مفہوم بھی یہی ہے کہ عام لوگوں تک بات پہنچائی جائے۔ اس اصطلاح سے پہلے جرنلزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن اس کا دائرہ محدود تھا۔ یعنی صرف صحافتی دنیا میں شائع ہونے والی خبریں مراد تھیں۔ اب اِبلاغِ عامّہ میں اخبار کے علاوہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، سی ڈیز، فلم، انٹرنیٹ وغیرہ سب شامل ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت خبر کی اشاعت کا بڑا ذریعہ شاعری، اسواق (میلے) ندوات (مقامی مجلسیں) اور ’سھرات‘ رات کی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ قرآن حکیم نے اِبلاغ کے ضمن میں اتنی جامع رہنمائی دی ہے جو ہر دور پر منطبق ہوتی ہے۔
اِبلاغ کے بنیادی اصول
lمستند اور ٹھوس حقیقت: پہلا اصول یہ دیا کہ خبر بے لگام نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اس کا ایک حوالہ ہونا چاہئے۔ اور وہ حوالہ اللہ کی ربوبیت پر ایمان کی دعوت کے ساتھ انسانیت کی خیرخواہی اور راست بازی کا قیام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’(حضرت ہود ؑنے اپنی قوم سے کہا) کہ میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (اعراف:۶۸) 
lواضح اور ابہام سے پاک: دوسرا اصول یہ دیا کہ خبر واضح ہو۔ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے قرآن حکیم ’بلاغ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم واضح پیغام (اعلامیہ) ہے:
’’یہ (قرآن) لوگوں کے لئے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے اور یہ کہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ (ابراہیم :۵۲) 
کہیں اِبلاغ کے ساتھ مبین کا لفظ استعمال ہوا، جیسا کہ اس آیت میں ہے:
’’ اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ (یٰسین:۱۷)
lمؤثر اِبلاغ: تیسرا اصول یہ دیا گیا کہ اچھی خبر سے آگاہ کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ اسے بار بار نشر کرنا اور دلوں کی گہرائی میں اُتارنا ضروری ہے۔ فرمایا گیا:
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔ اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں۔‘‘ (المائدہ:۶۷)
یہ فریضۂ اِبلاغ پوری دل سوزی کے ساتھ ادا کیا جائے:
’’انہیں نصیحت کرتے رہیں اور ان سے ان کے بارے میں مؤثر گفتگو فرماتے رہیں۔‘‘ (النساء :۶۳)
lجرأت اور بے خوفی: چوتھا اصول یہ دیا گیا کہ سچا پیغام پہنچانے میں کوئی خوف نہ ہو اور نہ ہی خوف کو قریب آنے دیا جائے:
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘‘ (احزاب :۳۹)
lمثبت طرزِ فکر کا فروغ: پانچواں اصول یہ دیا گیا کہ معاشرے میں ایسی خبررسانی ہو جس سے طبیعتوں میں ہیجان انگیزی اور انتشارِ ذہنی کے بجائے امن و آشتی اور مثبت طرزِفکر کو فروغ حاصل ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں (دنیا میں) پاکیزہ قول کی ہدایت کی گئی اور انہیں (اسلام کے) پسندیدہ راستہ کی طرف رہنمائی کی گئی۔‘‘
(الحج :۲۴)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔‘‘ (احزاب:۷۰)
’’بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ 
(النور:۱۹)
اِبلاغ کا منفی پہلو
اِبلاغ میں جن باتوں سے روکا گیا ہے (منہیات) وہ حسب ذیل ہیں:
lجھوٹ سے اجتناب: ’’اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔‘‘(الحج :۳۰) 
lخبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا: بنی اسرائیل کی مذمت میں ارشاد ہوا کہ انہیں شہرمیں داخل ہوتے وقت جس کلمے کی ادائیگی کا حکم دیا گیا، انہوں نے توڑ مروڑ کر اسے کچھ کا کچھ کردیا:
’’پھر (ان) ظالموں نے اس قول کو جو ان سے کہا گیا تھا ایک اور کلمہ سے بدل ڈالا سو ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے (بصورتِ طاعون) سخت آفت اتار دی اس وجہ سے کہ وہ (مسلسل) حکم عدولی کر رہے تھے۔‘‘(البقرہ : ۵۹) 
lغیرذمہ دارانہ رپورٹنگ سے گریز: اسلام نے خوف اور امن کی غیرذمہ دارانہ خبروں کی رپورٹنگ سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ منافقین کی عاداتِ بد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔‘‘ 
(النساء : ۸۳) 
مسلمانوں کو حکم دیا گیا:
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘(الحجرات :۶)
lدھوکا دہی اور چربہ سازی کی ممانعت:کسی کی تحریر کو بغیر حوالے کے اپنے نام سے نقل کردیا جائے، یا اصل مصنف کی طرف وہ کچھ منسوب کردیا جائے جو اس نے نہ کہا ہو۔ ارشاد ہے:
’’پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے اس (کتاب کی وجہ) سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۷۹) 
حوالہ دی گئی آیات شانِ نزول کے اعتبار سے مختلف پس منظر رکھتی ہیں مگر قرآن حکیم کا ایک حوالہ آفاقی ہدایت ہے۔ جو اشارتاً زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ خود وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’خبر‘ کہا:
’’جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لے کر لاتا ہوں ۔‘‘ (النمل:۷) 
خود نبی کریمؐ کیلئے حدیث میں ’مخبرصادق‘ (سچی خبردینے والا) کا لقب استعمال ہوا۔
ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں اِبلاغ کے منصب پر فائز تمام شخصیات، صحافی، براڈکاسٹر، میڈیا سے وابستہ شخصیات، داعی، اساتذہ وغیرہ سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بقدر استطاعت خبر کے اِبلاغ میں درج ذیل باتوں کی پابندی کریں:
 انہیں انسانیت کا خیرخواہ ہونا چاہئے۔
 انہیں امانت دار ہونا چاہئے۔
 انہیں بے باک ہونا چاہئے۔
ان کا اِبلاغ بے رنگ نہیں، بلکہ بامقصد ہونا چاہئے۔
خبر کے ذیل میں درج ذیل باتوں کی پابندی کرنی چاہئے:
مثبت پہلوئوں کو بھی خبر میں نمایاں مقام دیا جائے۔
پاکیزہ بات کہی جائے۔
جھوٹ سے بچا جائے۔
  بات کرنے کا انداز سیدھا سادا ہو۔
بات دل سے کہی جائے۔
بات ذمہ دارانہ طریقہ سے کی جائے۔
اگر ان اصولوں کو صرف اِبلاغ عامہ کے ادارے ہی نہیں، ہم بھی اپنی روزمرہ زندگی میں اپنا لیں تو معاشرے کو انتشارِ ذہنی اور اضطرابِ فکری سے بچایا جاسکتا ہے اور اسے ایک صحیح سمت دی جاسکتی ہے، اس لئے کہ درست سمت کے تعین کے بغیر دائروں کے سفر میں قوم کی نسلوں کی نسلیں بھٹکتی رہیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK