کلا نگر ، باندرہ میں رہائش پزیر۸۵؍سالہ معروف شاعرہ، موسیقار اور گلوکارہ میناقاضی سے انہوں نے کہا کہ ’’آنٹی آپ قطعی فکر نہ کریں، آپ کوکچھ نہیں ہوگا، ہم لوگ آپ کی حفاظت کیلئے موجود ہیں‘‘، میوزک کلاس میں اوشا کھنہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔
EPAPER
Updated: November 26, 2023, 1:56 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
کلا نگر ، باندرہ میں رہائش پزیر۸۵؍سالہ معروف شاعرہ، موسیقار اور گلوکارہ میناقاضی سے انہوں نے کہا کہ ’’آنٹی آپ قطعی فکر نہ کریں، آپ کوکچھ نہیں ہوگا، ہم لوگ آپ کی حفاظت کیلئے موجود ہیں‘‘، میوزک کلاس میں اوشا کھنہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔
جنوبی ممبئی کے ممبئی سینٹرل علاقے کے بیلاسس روڈ پر پلی بڑھی علم وادب اور موسیقی کی دلدادہ معروف شاعرہ میناقاضی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔یہ ضرور ہےکہ وقت اور حالات کے ساتھ ہی پیرانہ سالی نے انہیں گوشۂ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے باوجود جس سریلی اور پُر کشش آواز اور طرز گفتگو کیلئے وہ مقبول تھیں ، وہ خوبیاں اب بھی ان کی شخصیت کاحصہ ہیں ۔ مدنپورہ کی خدیجہ بانو، میناقاضی تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں ۔ فون پر انہوں نے جس والہانہ انداز میں گفتگو کی ،اس سے ایسا محسوس ہو اگویا کالم نویس سے ان کے برسوں پرانےمراسم ہوں ۔ اس کالم سےمتعلق بات چیت ہونے پر انہوں نےجمعرات ، ۲؍نومبر ، رات ۹؍ بجے کارٹرروڈ ،باندرہ پر واقع اپنی رہائش گاہ پر آنے کی دعوت دی۔
مقررہ وقت پر کارٹرر روڈ، رضوی کالج کے قریب،شاداب ٹاورکی دوسری منزل پر پہنچ کر راقم نے میناقاضی کے فلیٹ کی گھنٹی بجائی ، کچھ دیر بعد ایک بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا اور بلاتامل سلام کرتے ہوئے کہا، آئیے میں آپ ہی کی منتظر تھی۔ فلیٹ میں قدم رکھتے ہی ایک تندرست اورمضبوط کُتا ’بھوبھو‘ کرنے لگا جس پر میناقاضی نے کہاکہ بالکل خوفزدہ نہ ہوں ، یہ کچھ نہیں کرےگا۔ صرف اس کےسرپر ہاتھ پھیر دیں ۔ ہدایت کے مطابق کتے کے سرپر ہاتھ پھیرنے کے بعد پوری گفتگو کے دوران وہ خاموش رہا۔ اس کے علاوہ ایک کُتا اور تھا جو بالکل خاموش ایک طرف بیٹھا تھا۔ ۲؍ بیڈروم ،ہال اور کچن پر مشتمل فلیٹ انتہائی خوبصورتی اور سلیقے سے سجایاگیاتھا۔ ہال میں ایک طرف اعلیٰ قسم کی لکڑی اور شیشےسے بنا خوبصورت شوکیش ،جس میں متعدد ٹرافیاں اور شیشے کے سامان انتہائی سلیقہ مندی سے سجائے گئےتھے۔ دوسری سمت ایک ڈائننگ ٹیبل اور ۲؍کرسیاں رکھی تھیں ۔ علاوہ ازیں سفید رنگ کا ایک بڑا صوفہ اور ۲؍ کرسیاں مہمانوں کے استقبال کیلئے بچھی ہوئی تھیں ۔ رسمی گفتگو کے بعد کالم سےمتعلق ہونے والی بات چیت کافی دلچسپ رہی۔
ممبئی سینٹرل ،بیلاسس روڈ پر واقع کیلاش اپارٹمنٹ کی جگہ پر کسی دور میں بنگلہ ہوا کرتا تھا۔ یہیں ایک بنگلے میں عبدالقادر قاضی کی فیملی آباد تھی۔ عبدالقادر کی بیٹی میمونہ قاضی جو عرف عام میں مینا قاضی سے مقبول ہیں ، ۱۹۳۸ءمیں وہیں پیدا ہوئی تھیں ۔ انہوں نے انجمن اسلام سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول سے ۸؍ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔بچپن سےپڑھائی سے زیادہ موسیقی اور نغمہ سرائی کا شوق رہا۔ اسی وجہ سے پڑھائی چھوڑ کر موسیقی کی کلاس جوائن کی۔ مہاراشٹر سنگیت ودیالیہ گرگام سے بیچلر آف میوزک کی ڈگری حاصل کی۔ موسیقی کےجنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ والدین انہیں پڑھانا چاہتے تھے، وہ پابندی سے انہیں گھر سے اسکول بھیجتے لیکن وہ اسکول کے بجائے ،بیلاسس روڈ پر واقع پی وی زویری سینٹر نامی اسٹوڈیو کے باہر اسکول بیگ رکھ کر گانے سنتی تھیں ۔ ایک مرتبہ اسکول سے غیر حاضر ہونے کی شکایت موصول ہونے پر والد عبدالقادر نے مینا کاتعاقب کیا ، معلوم ہواکہ اسکول جانے کے بجائے وہ مذکورہ سینٹر پر بیٹھ کر گانے سن رہی تھیں ۔ والد کے استفسار کرنےپر مینا نے کہا کہ مجھے پڑھائی سے زیادہ گانے کاشوق ہے۔
اسی دوران عبدالقادر قاضی کے دیرینہ ساتھی اور معروف شاعر بابا فریدکو مینا میں چھپی فنی صلاحیتوں کا احساس ہوگیا تھا۔ وہ مینا کی دلکش اور پُرکیف آوازکو شعری کلام کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے متمنی تھے۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے مینا کو شعروشاعری کا فن سکھایا۔ ان کی خواہش اور کوشش رنگ لائی۔ موسیقی کی دلدادہ مینا دیکھتے ہی دیکھتے ایک معروف شاعرہ بن گئیں ۔مینا کے کلام عام ہوتے تھے لیکن ان کی سریلی آواز انہیں خاص بنادیتے تھے ۔ یہی خوبی مینا کی کامیابی اور شہر ت کا زینہ بنی۔ اس کی بنیاد پرمختلف شہروں ،گائوں ،قصبوں اور ضلعوں کے علاوہ بیرونِ ملک مینا کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ قلیل عرصے میں ہی اس دور کے اہم شعرائےکرام جن میں کیفی اعظمی،علی سردار جعفری ، اخترالایمان،ساحر لدھیانوی، مجروح سلطانپوری، عزیزقیسی ، بیکل اُتساہی اور واجدہ تبسم کے نام قابل ذکر ہیں ، کےساتھ کئی مشاعروں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
۴۵۔۴۰؍ سال قبل ایک مشاعرہ میں شرکت کیلئے میناقاضی جھانسی کے قریب واقع شیوپوری گئی تھیں ۔ مشاعرہ کمیٹی کے ذمہ داران کے اصرار پر وہ گوالیار کے مہاراج کاقلعہ دیکھنے گئیں ۔ مہاراجہ کا مجسمہ ایک عالیشان کوٹھی میں نصب تھا۔ کوٹھی کے بلنددروازہ پرپہنچتے ہی دروازہ بندکئے جانے پر میناقاضی کے استفسار پر منتظمین نے بتایا کہ مہاراج کا غسل جاری ہے، اسلئے دروازہ بندکیا گیا ہے۔ غسل کے بعد دروازہ کھلا تو معلو م ہوا کہ مہاراجہ کے مجسمے کو روزانہ غسل دیا جاتا ہے اور اُس وقت دروازہ بند کر دیا جاتاہے۔ ساتھ ہی مہاراجہ اور مہارانی کو روزانہ کھانا بھی دیاجاتا ہے۔ یہ روایت زمانے سےجاری ہے ۔یہ دیکھ سن کر انہیں بڑی حیرت ہوئی ۔ آج کےدور میں لوگ اپنے بقیدحیات بزرگ اور بڑوں کی عزت نہیں کرتےہیں ۔ مہاراجہ اورمہارانی کو گزرے ہوئے زمانہ ہوگیا، اس کےباوجود ان کی نسل اب بھی ان کا اس طرح خیال رکھتی ہے۔
دوران گفتگو اچانک فلیٹ کی بیل بجی تو میناقاضی نے خود ہی اٹھ کر دروازہ کھولا اور وہاں موجود ایک کتے کوآنےوالے کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ میرا انٹرویو جار ی ہے ، کم ازکم آدھے گھنٹےبعد اسے ( کتے ) یہاں لائیے گا۔ وہ بندہ اثبات میں سر ہلاکر کتا لے کر چلا گیا۔ کتے کے بارے میں استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کتے سے زیادہ کبوتروں کو پالنے اور ان کاعلاج کرنے کیلئے وہ جانی جاتی ہیں ۔انہیں علاقے والے کبوتر والی چاچی سے مخاطب کرتے ہیں ۔ گھر میں ایک خاص پنجرہ کبوتروں کیلئے بنایا ہے جس میں کبوتروں کو رکھا جاتا ہے۔ بیمار، معذور ، زخمی اور دیگر امراض میں مبتلا کبوتروں کا وہ اور ان کی بڑی بیٹی مفت میں علاج کرتے ہیں ۔ کبوتروں کےٹھیک ہو جانے پر انہیں اُڑا دیتےہیں ۔ فی الحال ۲؍کبوتر بہت بیمار ہیں جن میں ایک پر فالج کا اثر ہے جبکہ دوسرے کی بینائی متاثر ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فساد کے دوران میناقاضی باندرہ کے کلانگر کی ساہتیہ سہواس کالونی میں رہائش پزیر تھیں ۔ ان کی کالونی سے متصل شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کی رہائش گاہ تھی۔ ان کےبڑے فرزند بندوٹھاکرے سے میناقاضی کے گھریلو مراسم تھے۔ فساد کے دوران بندو ٹھاکرے نے میناقاضی سے آکر کہا تھا کہ آنٹی آپ قطعی فکر نہ کریں ، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ آپ کی حفاظت کیلئے موجود ہیں ۔ علاوہ ازیں جب تک فساد جاری رہا، بندو ٹھاکرے کے رضاکار، مینا قاضی کے گھر دودھ ،بریڈ اور دیگر خوردنی اشیاء پابندی سے پہنچایا کرتے تھے۔ اسی کالونی میں ایک دیشپانڈے فیملی تھی جس نے میناقاضی اور ان کے اہل خانہ کا خاص خیال رکھا تھا۔
معروف موسیقار اُوشاکھنہ اور میناقاضی نے ایک ساتھ میوزک کا کورس کیا تھا، اسلئے دونوں کےمراسم بڑے قریبی رہے۔ اُوشا کھنہ اکثر دن کے اوقات میں میناقاضی کےگھر کلانگر آجایاکر تی تھیں ۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ ۲؍سال تک جاری رہا۔ علاوہ ازیں اپنی میوز ک کی بیشتر دھنیں بھی وہ یہیں تیار کرتی تھیں ۔ اُوشا کھنہ کا معروف گیت ’’اسی لئے ممی نے تمہیں چائے پہ بلایاہے‘ ‘ میناقاضی کے گھر میں ہی کمپوز کیاگیاتھا۔
آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والا ناری جگت کا پروگرام ایک زمانے میں کافی مقبول تھا۔ پروگرا م میں کلاسیکل موسیقی پرمبنی نغمے معروف گلوکارہ لتامنگیشکر اور مشاعرہ کی تقریب میں میناقاضی پیش کرتی تھیں۔ لتامنگیشکر کو ان کے نغموں کیلئے ۵۰؍روپے اور میناقاضی کو ۲۵؍ روپے بطور معاوضہ ملتے تھے۔ مینا قاضی،معروف گلوکارہ نورجہاں کی زبردست مداح ہیں۔ اسکول کےزمانےمیں انہیں قریب سے دیکھا اور سنا ہے۔ بیلاسس روڈ پر جہاں آج کیلاش اپارٹمنٹ ہے وہاں کسی دور میں فلم فائنانسر اورفلمساز پی وی زویری کا اسٹوڈیو اوردفتر ہوا کرتا تھا۔ نورجہاں یہاں گانوں اور رقص کی ریہر سل کیلئے آتی تھیں۔ مینا قاضی ان کے نغموں کو سننے کیلئے باہرگھنٹوں بیٹھا کرتیں۔ نورجہاں سے ان کی والہانہ وابستگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رقص کرنے کے دوران نورجہاں کے پیرو ں سے ٹوٹ کر گرنے والے ۲۰۔۱۵؍ گھنگھرو اب بھی مینا قاضی نےسنبھال کر رکھے ہیں۔