• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملئے! مالیگائوں کے کتاب دوستوں سے جو ذاتی کتب خانے قائم کرنےکی روایات کو استحکام دے رہے ہیں

Updated: February 08, 2025, 1:47 PM IST | Mukhtar Adeel | Malegaon

دِل والوں کی بستی علم والوں کےشہر مالیگائوں میں ایسے محبکتب موجود ہیں جنہوں نے جنون کی حدتک کتب بینی کو اپنانے کےساتھ کتابوں کے تحفظ اور ذخیرے کی روایت کواستحکام بخشا۔

Shakeel Ahmad Jameel Hassan. Photo: INN
شکیل احمد جمیل حسن۔ تصویر: آئی این این

اُردوکے مشہور شاعر عاشق ؔکیرانوی کا شعر ہے
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
 دِل والوں کی بستی علم والوں کےشہر مالیگائوں میں ایسے محبکتب موجود ہیں جنہوں نے جنون کی حدتک کتب بینی کو اپنانے کےساتھ کتابوں کے تحفظ اور ذخیرے کی روایت کواستحکام بخشا۔ فی زمانہ شکوہِ عام ہےکہ اُردوکی کتابوں کی خریداری کا رجحان کم ہے۔ اُردوکے طباعتی ادارے قارئین کی عدم توجہی کی طرف توجہ دِلاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اُمیّدکی شمع جلتی ہوئی مالیگائوں میں ضرور دِکھائی دیتی ہےہم اُن قارئین کےاحوال واقعی اور ذوقِ کتب خوانی کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں جنہوں نے ہزاروں کتابیں نہ صرف خریدیں اور اُن کا عمیق مطالعہ کیا بلکہ اپنے بچوں، دوستوں اورپڑوسیوں کوبھی ان کتابوں کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 
شکیل احمد جمیل حسن 
 ان کا تعلق پارچہ بافی سے ہے۔ معلم ہیں نہ عالم۔ کامرس فیکلٹی میں گریجویشن نامکمل۔ وضع قطع سے خاندانی جولاہے۔ انہیں کتابوں میں نظریں جمائے رکھنےکا شوق اوائل عمری سے ہے۔ بچپن میں اپنے چھوٹےبھائی ڈاکٹر شفیق جمیل حسن (بی یو ایم ایس)کی رفاقت میں ’آنہ لائبریری‘اپنے گھر میں شروع کی۔ اُس زمانے کی کرنسی میں آنہ رائج تھا۔ ایک آنہ دوآنےمیں جیبی سائز کی کہانیوں کی ڈھیر ساری کتابیں صرف پڑھنے کیلئےدی جاتیں ۔ لیجانے والوں میں ۸؍سال کے بچے سے لیکر۸۰؍سال کے بوڑھےتک شامل تھے۔ ظؔ انصاری مرحوم نے ’حاجی بمبا کی ڈائری ‘ لکھی، وہ کتاب مالیگائوں میں شکیل احمد کے یہاں دستیاب ہوئی۔ گزرتے وقت کےساتھ ایک دوآنےوالی لائبریری تمام ہوئی لیکن شکیل احمدکوکتابوں سے جو عشق ہواتو اُس کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ ۱۹۸۵ءمیں اُن کے دوست خالد جلال (ہارون بی اے مرحوم، مدیرہفت روزہ بےباک کے بھتیجے)نےمستنصرحسین تارڑ(پاکستان)کی کتاب’ اندلس میں اجنبی‘بطور تحفہ عنایت کی۔ یہیں سے شکیل احمد نے طے کرلیاکہ وہ اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کریں گے۔ پہلے پہل گھر کے بالائی منزلے پرکتب خانہ بنا۔ گردشِ زمانہ کے سبب یہاں وہاں کتابیں منتقل ہوتی رہیں۔ ۲۰۱۳ء میں آبائی مکان آرسی سی بلڈنگ میں تبدیل ہواتواس بلڈنگ کے تہہ خانے میں شکیل احمد کی اپنی لائبریری مستقل طورسے بنادی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ فی الوقت ایک ہزار سے زائد ان کی اپنی خریدی ہوئیں کتابیں کتب خانے میں موجود ہیں۔ کتابوں کوبحفاظت رکھنے کیلئے ۷؍بُک شیلف، ایک کباٹ اور ایک تجوری ہے۔ ان کتابوں میں اُردوکے ادبِ عالیہ کے ساتھ سوانح، سوانحی خاکے، خودنوشت اور سفر ناموں کے موضوعات پرقیمتی خزانہ ہے۔ برصغیر ہندوپاک کے تقریبا سبھی قلم کاروں کی کتابیں موجود ہیں۔ ۱۹۲۵ء میں شائع ’حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کا روزنامچہ‘بھی ہےجسکا اصل نسخہ نایاب ہے۔ ممبئی کی محمد علی روڈپرواقع نازبک ڈپوکے باہر باکڑے پرپرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس سے خریدا تھا۔ نقوش (لاہور)کے سبھی اہم نمبرات کے اصل نسخے (پاکستان سے شائع شدہ)بھی ہیں جسے بعدکے زمانے میں ہندوستانی طباعتی اداروں نے عکس کے طور پر شائع کیا۔ ۱۳؍ جلدوں پر مشتمل رسولؐ نمبراور ۴؍جلدوں پر مشتمل قرآن نمبر اپنےآپ میں شہکار ہے۔ دلیپ کمار کے فن وشخصیت پر۵؍مجلد کتابیں دیکھنے سے نہیں پڑھنےسے تعلق رکھتی ہیں۔ شکیل احمد کہتے ہیں کہ اِس کتب خانے سے واستفادہ کرنےوالوں میں مقامی اہل علم کے ساتھ ممبئی سے آنے والے ندیم صدیقی، سہیل اختروارثی، عبید اعظم اعظمی اور شمیم طارق بھی ہیں۔ پڑوسی ملک کے مشہور قلمکارمستنصرحسین تارڑکو جب میرے کتب خانے کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے دستخط سے ان کی دو کتابیں (۱)پیارکا پہلا شہر(۲)لاہور آوارگی، ارسال فرمائی۔ شاعری میں میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ میرے پسندیدہ رہے۔ مصنفوں میں مشتاق احمد یوسفی (آبِ گم)، مختار مسعود (آوازدوست)اورمنظور الہیٰ شیخ ہیں۔ شکیل احمد نے بتایا کہ دلّی، ممبئی اور اورنگ آبادکتنی مرتبہ آمدورفت ہوئی وہ یاد ہی نہیں۔ ۷؍مرتبہ دلّی کا سفر اسلئے کیاکہ وہاں کےپرگتی میدان میں لگنےوالےعالمی کتاب میلےسے کتابیں لینی تھیں۔ مدن پورہ(ممبئی)کے مولانا آزادروڈپر ’نگار بُک ڈپو‘سے میرا مسلسل رابطہ رہا۔ عبدالقدوس بھائی (اب مرحوم ) اور مولانا مرزا عبدالقیوم ندوی(اورنگ آباد)سے گہرے تعلقات رہے۔ ادبی شخصیات میں شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، جاوید صدیقی، منوررانااور فاروق ارگلی سےخوشگوار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ الحسنات بُک ڈپو (دہلی)والے شہزاد بھائی سے بے تکلفی برقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کتابوں کے مطالعے سےمیری فکر کو نئی پروازیں ملیں اور واقعات کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔ 
ڈاکٹر سعید احمد فارانی 

ڈاکٹر سعید فارانی۔ تصویر: آئی این این
شہرت وعزت کا سبب طبابت وجراحی کا پیشہ۔ زندگی کے ۱۸؍یا ۲۰؍ سال عروس البلاد ممبئی میں جینے کا لطف۔ مالیگائوں ہی نہیں اپنے پیشے کے اعتبار سےبڑے حلقے میں معروف ڈاکٹر سعید احمد فارانی (ایم ایس جنرل سرجن)کو انگریزی ناولوں کو پڑھنے کا شوق ڈاکٹر جاوید رحمانی مرحوم کے مشورے سے لگا۔ ابتدا میں ترقی پسندادب اور اُردو کے ادبِ عالیہ میں گہری دلچسپی رہی۔ انگریزی لٹریچر کے مطالعے سے اُردو انگریزی کے ادبی تقابل وتجزئیےمیں مزہ آنے لگا۔ ڈاکٹر فارانی نے کہا کہ مالیگائوں میں میٹرک تک پڑھائی کے بعد ممبئی کا رُخ کیا۔ ایمرجنسی( ۱۹۷۵؍ تا ۱۹۷۷ء) کے خاتمے کا دور لیکن چہار جانب اسکے اثرات دِکھائی دیتے تھے۔ سیاست سے ادب اور طب سے معیشت تک ایک چھاپ نظر آتی۔ ڈرامے اور تھیٹرمیرے ذوق کا حصہ رہے۔ فلم ساز سعید مرزا سے ہم نشینی بلکہ آج بھی بے تکلف دوستی ہے۔ میرے والد محمد صدیق فارانی مرحوم کے سرہانے کتابیں رکھی ہوئی دیکھی۔ دیکھنے کا وہ عمل مثبت انداز میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے مکان میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ قائم کرلیا۔ دورِ طالب علمی میں ہاسٹل کا کمرہ کتابوں سے بھرا رہتا۔ ایک دوست کے یہاں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے لگاتووہاں بھی یہی حال رہا۔ جب مالیگائوں آکر میڈیکل پریکٹس کی تومیری بے ترتیب کتابوں کو پوری سلیقہ مندی سے بحفاظت رکھنے کا فریضہ میری اہلیہ (پروفیسر)شبانہ امان اللہ خان انجام دینے لگیں۔ اِس وقت میرے ذاتی کتب خانے میں کم وبیش ۳؍ہزار کتابیں ہیں۔ پرانے مکان سے نئے بنگلے میں منتقل ہونے سے قبل بنگلے میں ایک کمرہ صرف مطالعہ گاہ کے طور پر مخصوص طرز پر نہ صرف تعمیر کروایا بلکہ اُسے اب تک مین ٹین بھی رکھا جسکا کریڈٹ شبانہ کو جاتا ہے۔ بامعنی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ جاوید اختر(شاعر وفلمی نغمہ نگار)کی کامیابی میں بڑاکردار اہلیہ شبانہ اعظمی (اداکارہ )کا کہا جاتا ہےاسی طرح میری کامیاب زندگی کیلئے میری اہلیہ شبانہ کی قربانیاں عام رویت کی طرح ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی کے اسفار کے دوران کتابیں خریدنا میرے معمولات کا حصہ ہیں۔ میرا اور شبانہ کاذوقِ کتب بینی دیکھ کرمیرے بچوں کو کتاب پڑھنے کی تلقین کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ سبھی بچوں نے اپنے کمروں میں بُک شیلف تعمیر کروائی ہیں۔ مَیں نے بعض کتابیں اِسلئے بھی خریدی ہیں کہ میرے بچے واہل خانہ کچھ دنوں تک اسے صرف دیکھیں گے ایک وقت آئے گاجب وہ اِن کتابوں سے استفادے بھی کریں گے۔ ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘کے بارے میں کہا کہ مطالعے کی میز پر ہمہ وقت موجود رہنے والی کتاب ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ قرۃ العین حیدراور اُن کے ناول’ آگ کا دریا‘پڑھنے کےبعد ایسا ہو اکہ میرے احباب یا اصحابِ ذوق کے حلقے میں ادبی تحفے میں آگ کا دریا پیش کردیتاہوں۔ (دوسری قسط کل) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK