Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ملئے! مالیگائوں کے کتاب دوستوں سے جو ذاتی کتب خانے قائم کرنےکی روایات کو استحکام دے رہے ہیں

Updated: February 09, 2025, 12:12 PM IST | Mukhtar Adeel | Malegaon

دِل والوں کی بستی علم والوں کےشہر مالیگائوں میں ایسے محبکتب موجود ہیں جنہوں نے جنون کی حدتک کتب بینی کو اپنانے کےساتھ کتابوں کے تحفظ اور ذخیرے کی روایت کواستحکام بخشا۔

Shakeel Ahmad Jameel Hassan. Photo: INN
شکیل احمد جمیل حسن۔ تصویر: آئی این این

اُردوکے مشہور شاعر عاشق ؔکیرانوی کا شعر ہے
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
 دِل والوں کی بستی علم والوں کےشہر مالیگائوں میں ایسے محبکتب موجود ہیں جنہوں نے جنون کی حدتک کتب بینی کو اپنانے کےساتھ کتابوں کے تحفظ اور ذخیرے کی روایت کواستحکام بخشا۔ فی زمانہ شکوہِ عام ہےکہ اُردوکی کتابوں کی خریداری کا رجحان کم ہے۔ اُردوکے طباعتی ادارے قارئین کی عدم توجہی کی طرف توجہ دِلاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اُمیّدکی شمع جلتی ہوئی مالیگائوں میں ضرور دِکھائی دیتی ہےہم اُن قارئین کےاحوال واقعی اور ذوقِ کتب خوانی کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں جنہوں نے ہزاروں کتابیں نہ صرف خریدیں اور اُن کا عمیق مطالعہ کیا بلکہ اپنے بچوں، دوستوں اورپڑوسیوں کوبھی ان کتابوں کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 
شکیل احمد جمیل حسن 
 ان کا تعلق پارچہ بافی سے ہے۔ معلم ہیں نہ عالم۔ کامرس فیکلٹی میں گریجویشن نامکمل۔ وضع قطع سے خاندانی جولاہے۔ انہیں کتابوں میں نظریں جمائے رکھنےکا شوق اوائل عمری سے ہے۔ بچپن میں اپنے چھوٹےبھائی ڈاکٹر شفیق جمیل حسن (بی یو ایم ایس)کی رفاقت میں ’آنہ لائبریری‘اپنے گھر میں شروع کی۔ اُس زمانے کی کرنسی میں آنہ رائج تھا۔ ایک آنہ دوآنےمیں جیبی سائز کی کہانیوں کی ڈھیر ساری کتابیں صرف پڑھنے کیلئےدی جاتیں ۔ لیجانے والوں میں ۸؍سال کے بچے سے لیکر۸۰؍سال کے بوڑھےتک شامل تھے۔ ظؔ انصاری مرحوم نے ’حاجی بمبا کی ڈائری ‘ لکھی، وہ کتاب مالیگائوں میں شکیل احمد کے یہاں دستیاب ہوئی۔ گزرتے وقت کےساتھ ایک دوآنےوالی لائبریری تمام ہوئی لیکن شکیل احمدکوکتابوں سے جو عشق ہواتو اُس کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ ۱۹۸۵ءمیں اُن کے دوست خالد جلال (ہارون بی اے مرحوم، مدیرہفت روزہ بےباک کے بھتیجے)نےمستنصرحسین تارڑ(پاکستان)کی کتاب’ اندلس میں اجنبی‘بطور تحفہ عنایت کی۔ یہیں سے شکیل احمد نے طے کرلیاکہ وہ اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کریں گے۔ پہلے پہل گھر کے بالائی منزلے پرکتب خانہ بنا۔ گردشِ زمانہ کے سبب یہاں وہاں کتابیں منتقل ہوتی رہیں۔ ۲۰۱۳ء میں آبائی مکان آرسی سی بلڈنگ میں تبدیل ہواتواس بلڈنگ کے تہہ خانے میں شکیل احمد کی اپنی لائبریری مستقل طورسے بنادی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ فی الوقت ایک ہزار سے زائد ان کی اپنی خریدی ہوئیں کتابیں کتب خانے میں موجود ہیں۔ کتابوں کوبحفاظت رکھنے کیلئے ۷؍بُک شیلف، ایک کباٹ اور ایک تجوری ہے۔ ان کتابوں میں اُردوکے ادبِ عالیہ کے ساتھ سوانح، سوانحی خاکے، خودنوشت اور سفر ناموں کے موضوعات پرقیمتی خزانہ ہے۔ برصغیر ہندوپاک کے تقریبا سبھی قلم کاروں کی کتابیں موجود ہیں۔ ۱۹۲۵ء میں شائع ’حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کا روزنامچہ‘بھی ہےجسکا اصل نسخہ نایاب ہے۔ ممبئی کی محمد علی روڈپرواقع نازبک ڈپوکے باہر باکڑے پرپرانی کتابیں بیچنے والے کے پاس سے خریدا تھا۔ نقوش (لاہور)کے سبھی اہم نمبرات کے اصل نسخے (پاکستان سے شائع شدہ)بھی ہیں جسے بعدکے زمانے میں ہندوستانی طباعتی اداروں نے عکس کے طور پر شائع کیا۔ ۱۳؍ جلدوں پر مشتمل رسولؐ نمبراور ۴؍جلدوں پر مشتمل قرآن نمبر اپنےآپ میں شہکار ہے۔ دلیپ کمار کے فن وشخصیت پر۵؍مجلد کتابیں دیکھنے سے نہیں پڑھنےسے تعلق رکھتی ہیں۔ شکیل احمد کہتے ہیں کہ اِس کتب خانے سے واستفادہ کرنےوالوں میں مقامی اہل علم کے ساتھ ممبئی سے آنے والے ندیم صدیقی، سہیل اختروارثی، عبید اعظم اعظمی اور شمیم طارق بھی ہیں۔ پڑوسی ملک کے مشہور قلمکارمستنصرحسین تارڑکو جب میرے کتب خانے کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے دستخط سے ان کی دو کتابیں (۱)پیارکا پہلا شہر(۲)لاہور آوارگی، ارسال فرمائی۔ شاعری میں میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ میرے پسندیدہ رہے۔ مصنفوں میں مشتاق احمد یوسفی (آبِ گم)، مختار مسعود (آوازدوست)اورمنظور الہیٰ شیخ ہیں۔ شکیل احمد نے بتایا کہ دلّی، ممبئی اور اورنگ آبادکتنی مرتبہ آمدورفت ہوئی وہ یاد ہی نہیں۔ ۷؍مرتبہ دلّی کا سفر اسلئے کیاکہ وہاں کےپرگتی میدان میں لگنےوالےعالمی کتاب میلےسے کتابیں لینی تھیں۔ مدن پورہ(ممبئی)کے مولانا آزادروڈپر ’نگار بُک ڈپو‘سے میرا مسلسل رابطہ رہا۔ عبدالقدوس بھائی (اب مرحوم ) اور مولانا مرزا عبدالقیوم ندوی(اورنگ آباد)سے گہرے تعلقات رہے۔ ادبی شخصیات میں شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، جاوید صدیقی، منوررانااور فاروق ارگلی سےخوشگوار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ الحسنات بُک ڈپو (دہلی)والے شہزاد بھائی سے بے تکلفی برقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کتابوں کے مطالعے سےمیری فکر کو نئی پروازیں ملیں اور واقعات کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔ 
ڈاکٹر سعید احمد فارانی 

ڈاکٹر سعید فارانی۔ تصویر: آئی این این
شہرت وعزت کا سبب طبابت وجراحی کا پیشہ۔ زندگی کے ۱۸؍یا ۲۰؍ سال عروس البلاد ممبئی میں جینے کا لطف۔ مالیگائوں ہی نہیں اپنے پیشے کے اعتبار سےبڑے حلقے میں معروف ڈاکٹر سعید احمد فارانی (ایم ایس جنرل سرجن)کو انگریزی ناولوں کو پڑھنے کا شوق ڈاکٹر جاوید رحمانی مرحوم کے مشورے سے لگا۔ ابتدا میں ترقی پسندادب اور اُردو کے ادبِ عالیہ میں گہری دلچسپی رہی۔ انگریزی لٹریچر کے مطالعے سے اُردو انگریزی کے ادبی تقابل وتجزئیےمیں مزہ آنے لگا۔ ڈاکٹر فارانی نے کہا کہ مالیگائوں میں میٹرک تک پڑھائی کے بعد ممبئی کا رُخ کیا۔ ایمرجنسی( ۱۹۷۵؍ تا ۱۹۷۷ء) کے خاتمے کا دور لیکن چہار جانب اسکے اثرات دِکھائی دیتے تھے۔ سیاست سے ادب اور طب سے معیشت تک ایک چھاپ نظر آتی۔ ڈرامے اور تھیٹرمیرے ذوق کا حصہ رہے۔ فلم ساز سعید مرزا سے ہم نشینی بلکہ آج بھی بے تکلف دوستی ہے۔ میرے والد محمد صدیق فارانی مرحوم کے سرہانے کتابیں رکھی ہوئی دیکھی۔ دیکھنے کا وہ عمل مثبت انداز میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے مکان میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ قائم کرلیا۔ دورِ طالب علمی میں ہاسٹل کا کمرہ کتابوں سے بھرا رہتا۔ ایک دوست کے یہاں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے لگاتووہاں بھی یہی حال رہا۔ جب مالیگائوں آکر میڈیکل پریکٹس کی تومیری بے ترتیب کتابوں کو پوری سلیقہ مندی سے بحفاظت رکھنے کا فریضہ میری اہلیہ (پروفیسر)شبانہ امان اللہ خان انجام دینے لگیں۔ اِس وقت میرے ذاتی کتب خانے میں کم وبیش ۳؍ہزار کتابیں ہیں۔ پرانے مکان سے نئے بنگلے میں منتقل ہونے سے قبل بنگلے میں ایک کمرہ صرف مطالعہ گاہ کے طور پر مخصوص طرز پر نہ صرف تعمیر کروایا بلکہ اُسے اب تک مین ٹین بھی رکھا جسکا کریڈٹ شبانہ کو جاتا ہے۔ بامعنی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا کہ جاوید اختر(شاعر وفلمی نغمہ نگار)کی کامیابی میں بڑاکردار اہلیہ شبانہ اعظمی (اداکارہ )کا کہا جاتا ہےاسی طرح میری کامیاب زندگی کیلئے میری اہلیہ شبانہ کی قربانیاں عام رویت کی طرح ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی کے اسفار کے دوران کتابیں خریدنا میرے معمولات کا حصہ ہیں۔ میرا اور شبانہ کاذوقِ کتب بینی دیکھ کرمیرے بچوں کو کتاب پڑھنے کی تلقین کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ سبھی بچوں نے اپنے کمروں میں بُک شیلف تعمیر کروائی ہیں۔ مَیں نے بعض کتابیں اِسلئے بھی خریدی ہیں کہ میرے بچے واہل خانہ کچھ دنوں تک اسے صرف دیکھیں گے ایک وقت آئے گاجب وہ اِن کتابوں سے استفادے بھی کریں گے۔ ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘کے بارے میں کہا کہ مطالعے کی میز پر ہمہ وقت موجود رہنے والی کتاب ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ قرۃ العین حیدراور اُن کے ناول’ آگ کا دریا‘پڑھنے کےبعد ایسا ہو اکہ میرے احباب یا اصحابِ ذوق کے حلقے میں ادبی تحفے میں آگ کا دریا پیش کردیتاہوں۔ 

حاجی یونس شیخ عیسیٰ 

میرے والد شیخ عیسیٰ کی  ولادت مالیگائوںسے قریب واقع قصبہ نامپور کی ہے۔نامپور میںچند کلاسیں مراٹھی میڈیم سے پڑھنے کےبعد وہ میرے داداشیخ گلاب کے ساتھ مالیگائوں آگئے۔یہیں اُردواور عربی سیکھی ۔حفیظؔ جالندھری کے’شاہنامہ اسلام‘کوبلند آواز سے گھر میں پڑھتے۔گھرکے سارے افرادشاہنامے کے اشعار سنتےاور سر دُھنتے ۔ مجھے مطالعے کا شوق میرے والد سے ورثے  میں ملا ۔ اِس ورثے کومیرے بیٹےڈاکٹر خالد پرویز اور شیخ عبدالماجدسنبھال رہے ہیں۔ خالد اور ماجدکے پاس سیکڑوں کتابیں ہیں جو اُن کے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھا رہی ہیں۔یہ کہنا ہے مالیگائوں کے معمرسیاسی رہنماوسابق صدر بلدیہ حاجی شیخ یونس (۷۶) کا ۔ بطور  آزاد امیدوار ۱۹۷۸ء میں پہلی مرتبہ رکن بلدیہ منتخب ہونے کے بعد سے اب تک  وہ اور ان کا خانوادہ  سیاست کے کارزار میں مصروف عمل ہے۔ مالیگائوںکے سیاسی منظرنامے پر اِس وقت یونس عیسیٰ   تنہا سیاست داں ہیںجن کی اپنی لائبریری میں۵؍سو سے زائد کتابیں ہیں۔عملی سیاست سے خاصی حد تک کنارے رہنے کے اسباب میں ایک یہ بھی ہےکہ وہ زیادہ تروقت کتابوں میںصَرف کرتے ہیں۔اِن دنوں عربی زبان سیکھ رہے ہیں۔ قرآن پاک کی مختلف  تفاسیر وتراجم کا تقابلی مطالعہ بھی جاری ہے۔قدیم تعلیمی ادارے انجمن تہذیب الاخلاق کی صدارتی ذمہ داریاں بھی پوری کررہے ہیں۔

یونس عیسیٰ نے کہا کہ قومی لائبریری(اسلام آباد) ، حسرت لائبریری(رسول پورہ)،اُردو لائبریری ( گُڑ بازار) اور اشرفیہ لائبریری(راجہ نگر) میں باضابطہ ممبرشپ لی کیونکہ وہاں سے کتابیں بغرض مطالعہ آسانی سے دستیاب ہوجاتی تھیں۔ اُردو لائبریری کے سابق لائبریرین سعید احمد (مرحوم)نئی کتابیں اور کتابوںکی فہرست مہیا کروانے میںماہر تھے۔مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کرعارف مارہروی اور عامر عثمانی سے لیکر عروج قادری تک سب کی تحریروں سے مَیں نے استفادہ کیا۔ابن صفی کے ناولوںکو پڑھنےکاجنون اب بھی سوار رہتا ہے۔دورِ طالب علمی میںاساتذہ نے اشعار یاد کروائے جو میری سیاسی تعلیمی وسماجی زندگی میںدورانِ خطابت کارآمد ثابت ہوئے۔ میرے پرانے اور نئے دونوں مکان میں بُک شیلف لازمی رہے ہیں۔میری ذاتی لائبریری میںاُردو، عربی ،  فارسی، مراٹھی، ہندی اور انگریزی کی درجنوں لغات کا علاحدہ شعبہ بنا ہواہے۔لفظوں کے معانی ، ماخذات ومصادرجاننے کا اشتیاق ابتدا سے رہا ۔ انگلش اور تاریخ میںڈبل گریجویشن کی بدولت مختلف زبانوں کے ذخائر الفاظ کو مراسلت و خطابت میں استعمال کرنے میں آسانی بھی رہی ۔میری شخصیت کی تعمیر اور قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے میں مطالعے کاکلیدی کردار رہاہے۔
 مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں سےوابستہ رہنےوالےیونس عیسیٰ نے کہا کہ سیاست میںزبان دانی کا بڑا حصہ رہتا ہے۔شردپوار نے ۱۹۹۹ء  میں این سی پی قائم کی تومجھے مالیگائوںکا صدربنایا۔ایک مرتبہ کسی سیاسی کام کی غرض سے ممبئی میںشردپوارکے مکان ‘سلور اوک‘پہنچاتووہ منترالیہ جانے کیلئے گاڑی میںبیٹھ رہےتھے۔مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اپنے ساتھ گاڑی میںبیٹھا لیا۔سلور اوک سے منترالیہ تک شرد پوار اور میرے درمیان اُردوادب کی اصناف پرتبادلہ خیال ہوتارہاجبکہ مَیں سیاسی مقصدسے گفتگو کرنے اُن کے پاس گیا تھا۔منترالیہ پہنچ کرپوار نے اپنے کام نمٹائے اور واپسی میں پھر اُردوکے ادبِ عالیہ پر بات چھیڑ دی۔اگلے روز شردپوار نے ازخود طلب کیا اور پھر کہا کہ ،ہاں!وہ آپ کا سیاسی کام ہوجائے گا۔کہنے کا مطلب ہیکہ آپ اُردووالے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چھوٹے ہیں۔اُردوآفاقی اور عالم گیر زبان ہے۔اس بات کے شردپوار بھی قائل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں ہی کو نہیں پوتے پوتیوں،نواسے نواسیوںکو بھی مطالعے سے منسلک کرنے کے جتن  کئے۔  دلّی کی جامع مسجد کے اطراف بہت سارے کتب خانے جہاں اُردوکی کتابیںملتی ہیںوہاںسے مَیں نے کتابیں اِسلئے خریدیں کہ میرے اہل خانہ اِسے پڑھیں گے۔دورِ طالب علمی میں اورنگ آباد سے حیدرآباد تک کا سفر اِس لئے ہواکہ تاریخی اور ادبی موضوعات پراچھی کتابیںخریدنی تھی۔شمع اور آئینہ جیسے رسالے اب ناپید ہیں۔جب مَیں  سٹی کالج (مالیگائوں)  میں تھا تو  ہم نے نیاز فتح پوری کوکالج کے کانووکیشن میںمدعوکیا تھا۔اُردو کے ارتقا، عروج ،صنفی محاسن ،نثری اختصاص، شعری روایات اور مختلف اَدوار کے مطالعے کی بنیاد پر ببانگ دہل کہتا ہوں کہ اِس زبان کا مستقبل غیر مستحکم ہرگز نہیں ہے۔ شکوہ کرنے کے بجائے اپنی زبان وتہذیب کے اثاثے کو آئندہ نسلوں میں منتقل کرنے کے  اقدامات کریں تو اِسکے مثبت اثرات دِکھائی دیتے ہیں۔مجھے اس عمر میں اطمینان ہےکہ میرے  اہل خانہ ، احباب  اور ہم نشینوں میں مطالعے کاشوق ہے۔

مبشر مشتاق 
پارچہ باف،قانون داں اور صحافی یکجا ہوئے تو نام ہوا مبشر مشتاق ۔مبشر کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اُردومیڈیم سے ہوئی۔اب انہوں نے وکالت کی ڈگری بھی حاصل کرلی ہے،کامرس سے گریجویٹ ہیں صحافت میںپوسٹ گریجویشن مکمل کیا ہے۔انہوں نےملکی وغیر ملکی انگریزی اخبارات اور جرائد میں رپورٹنگ اورکالم نگاری کی ۔اس حوالے سےکئی ممالک کے اسفار کئے۔ پیشے کے اعتبارسے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دادا حاجی عبدالرئوف( مرحوم)  اور والد مشتاق احمد (جنتا  گارڈن)کے ورثے کو  ترقی کی نئی راہوںپرلیجارہے ہیں  ۔مبشر کے بُک شیلف میںمختلف عناوین پر انگریزی کی ۸؍ یا ۹؍ سو کتابیں اور ایک ہزار سے زائدبُکس کینڈل بُک ریڈر میں محفوظ ہیں۔بدلتے زمانے اور ’اے آئی‘کے جادو نے ورچوئل لائبریری کی روایت کوپیدا کیا ہے۔
 
اس سےبھرپور استفادہ کرنے والے مبشر نے کہا کہ قومی و عالمی  سطح پرہونے والے کتاب میلوں میںجتنی کتابیںدستیاب ہوتی ہیںاتنی کتابیںایک کینڈل بُک ریڈر میںبھی سماسکتی ہیں۔ فی زمانہ کینڈل بُک ریڈر اور ورچوئل لائبریری استعمال کرنے کا نیا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آن لائن طرز پر کتابیں حاصل کرنا آسان ہے۔ڈیجیٹل فارم یا پی ڈی ایف (ای پب ) میں بے شمار کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔اس میں یہ بھی ہے کہ کتب بینی کے شوقین افراد پبلشر سے مطلوبہ کتابیں آن لائن سافٹ فارم میں بھی خریدتے ہیں۔
 کتابوں کی خریداری کا ایک واقعہ انہوں نے بتایا ۔ ۲۰۱۰ء یا ۲۰۱۱ء میں ضیاء الدین سردار (پاکستانی نژاد برطانوی مصنف)کی کتاب  Distorate Imagination کی تلاش شروع کی ۔ وہ کتاب ۱۹۸۹ء میں سلمان رشدی کی  بدنام زمانہ کتاب ’شیطانی آیات‘ کےجواب میںمدلل ادبی انداز میںلکھی گئی تھی ۔اُس وقت آن لائن ذرائع سے کتابیں انڈیا میں دستیاب نہیںہوتی  تھیں۔ اُس کتاب کو امریکہ سے انڈیا آنے میں ایک مہینہ لگاتھا۔انگریزی کے نامور مصنفوں سےمبشر کی بالمشافہ ملاقاتیں بھی رہیں جن  میں ڈاکٹر رفیق زکریا، ایم  جے اکبر،ارون دھتی رے ، بشارت پیر (کشمیر)،ترون تیج پال ،،نجیب جنگ اور منی شنکر ایئرکے نام شامل ہیں۔  مبشر مشتاق کی پسندیدہ کتابیں دی الجبرا آف انفائنائٹ جسٹس،  رائٹ آفٹر رائٹ، دی کوئشچن آف پیلاسٹائن ، دی آر ایس ایس : میناس ٹو انڈیا، کرفیوڈ نائٹ ،  پارٹیشن آف ہارٹ وغیرہ ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK