• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’مسیحا دَر دِلم پیدا و من بیمار می گردم‘‘

Updated: August 05, 2023, 9:15 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

نیا دور نئے مسائل لے کر آیا ہے۔ ان مسائل کا حل ہے مگر سماج اور معاشرہ اس کے آس پاس گھومتا رہتا ہے اور حل تک نہیں پہنچ پاتا۔ اِن کالموں میں مضمون نگار نے دعوت دی ہے کہ معاشرہ خود کو سمجھے اور نئی نسل کی تربیت کا فریضہ انجام دے۔ اس کیلئے پیش رو نسل کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا پڑیگا۔

Good things, true things, good stories, true stories, good books, true books, anecdotes, advice, golden sayings, heartfelt speeches.
اچھی باتیں، سچی باتیں، اچھی کہانیاں، سچی کہانیاں، اچھی کتابیں سچی کتابیں، حکایتیں، نصیحتیں، زریں اقوال،دل نشین تقریریں۔

اچھی باتیں، سچی باتیں، اچھی کہانیاں، سچی کہانیاں، اچھی کتابیں سچی کتابیں، حکایتیں، نصیحتیں، زریں اقوال،دل نشین تقریریں۔ ان سب میں بڑی طاقت ہوتی ہے بشرطیکہ طاقت کو طاقت بنایا جائے اور طاقت کے طور پر بروئے کار لایا جائے۔مثال کے طور پر کسی صفحہ پر ایک زریں قول تحریر ہے۔ ایک شخص اسے پڑھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دوسرا اُسے پڑھ کر رُکتا ہے، پھر پڑھتا ہے، اس کے مفہوم پر غور کرتا ہے، اپنے ذہن و دل پر نقش کرتا ہے اور اس میں مضمر پیغام سے اپنے عمل کو منور کرکے اُس قول کو جاوداں بنادیتا ہے۔
 ان دونوں افراد میں فرق ہے۔ زریں قول ایک ہی ہے مگر اس کی طاقت ایک شخص کی طاقت نہیں بنی، دوسرے کی بن گئی۔ بات صرف زریں قول کی نہیں۔ کتابیں، نصیحتیں، مواعظ، تقریریں، سب میں زریں اقوال ہیں اور سب میں بڑی طاقت ہے مگر کوئی اس طاقت سے استفادہ کرتا ہے کوئی نہیں کرتا۔ اس کی سند کے طور پر اُن لوگوں کو یاد کیجئے، یقیناً آپ نے چند لوگوں کی خود نوشت پڑھی ہوگی یا تقریر سنی ہوگی یا اُن کا انٹرویو دیکھا ہوگا جنہوں نے کہا کہ ایک کتاب، ایک مضمون، ایک تحریر، ایک شعر یا ایک زریں قول نے میری زندگی بدل دی۔جو لوگ کسی تحریر یا تقریر سے کچھ نہیں سیکھتے، اُن کے تعلق سے بعض اوقات شبہ ہوتا ہے کہ اُنہیں شاید ایسی کوئی تحریر پڑھنے یا تقریر سننے کا موقع ہی نہیں ملا جو اُنہیں کسی مثبت اور نیک عمل کی ترغیب دے۔ عمل ہی کسی تحریر یا تقریر کی طاقت کو حقیقی  طاقت میں تبدیل کرتا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اُس نے ایک سال میں پچاس کتابیں پڑھی ہیں مگر اُس نے اُن کتابوں سے کچھ نہیں سیکھا تو یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے اُس نے کچھ بھی نہ پڑھا ہو۔
 آج کل چونکہ موبائل سب کے ہاتھوں میں ہے اور گوگل عجائباتِ عالم میں سب سے زیادہ مقبول ہے اس لئے ہر شخص جانتا ہے کہ اس سرچ انجن کے ذریعہ بھی روزانہ معلومات کے دریا بہائے جاتے ہیں اور صارفین روزانہ نت نئی باتوں سے مطلع یا ’’مستفید‘‘ ہوتے ہیں مگر کتنے ہیں جو کچھ سیکھتے بھی ہیں؟ دورِ حاضر میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ معلومات کی فراوانی ہے حتیٰ کہ علم کا حصول بھی غیر معمولی طور پر آسان ہوگیا ہے مگر سیکھنے کا عمل یا جذبہ رفتہ رفتہ کم یا شاید ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریشانی کا حل موجود ہونے کے باوجود حل کی تلاش میں ہر خاص و عام سرگرداں ہے۔ بلند مرتبہ شاعر مولانا جلال الدین رومی کی ایک غزل کا شعر ہے:
گہے خندم، گہے گریم، گہے افتم، گہے خیزم
مسیحا دَر دِلم پیدا و من بیمار می گردم
اس کا مفہوم یہ ہے کہ مَیں کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں، کبھی سنبھلتا ہو (مگر افسوس کہ) مسیحا میرے دل کے اندر ہے اور میں اس کے گرد گھوم رہا ہوں۔ آج کل معلومات اور علم کا یہی معاملہ ہے کہ انسان اس کے گرد گھوم رہا ہے اور نہیں جانتا کہ پریشانی یا مسئلہ کا حل اس میں موجود ہے۔ سیکھنے کا عمل یا سیکھنے کا جذبہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ جو نہیں سیکھتا وہ بار بار غلطی کرتا ہے، اُس کیلئے  پریشان ہونے کے مواقع بار بار پیدا ہوتے ہیں اور وہ بار بار مبتلائے  آزمائش ِ خود ساختہ ہوتا ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ اکثر جلسوں میں سامعین بعض تقریروں سے بہت متاثر ہوتے ہیں، اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ ان تقاریر میں بڑی دانشمندانہ بات کہی گئی ہے اور بڑے دردمندانہ انداز میں کہی گئی ہے۔ وہ اُن تقاریر کی تعریف کرکے رُکتے نہیں ہیں بلکہ دوستوں میں اُن کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور تقاریر کے تاثر کو تادیر قائم رکھنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں مگر وہ تاثر اس لئے رفع ہوجاتا ہے کہ وہ، اُن تقاریر سے اخذ کئے گئے بیش قیمت موتیوں کی خوبصورتی پر تبصرہ کرتے رہ جاتے ہیں، اُنہیں اپنے تاج میں نہیں سجاتے، دل میں نہیں اُتارتے، ذہن پر نقش نہیں کرتے اور اُن کی چمک سے اپنے عمل کو نہیں چمکاتے۔ ہمارے معاشرہ میں ایک سے بڑھ کر ایک مقرر پیدا ہوئے۔ انہیں سننے والوں نے جی جان سے سنا، ایک ایک لفظ کے بارے میں محسوس کیا کہ دل پر نقش ہورہا ہے، مگر کتنوں کی زندگی میں اس سے کوئی انقلاب آیا؟ کتنوں نے کسب فیض کیا؟ جو کچھ سنا تھا وہ ایک امانت تھا، اُس امانت کو نئی نسل میں کس حد تک منتقل کیا؟ کیا لوگ بھول گئے کہ علم امانت ہے اور اسے دوسروں تک پہنچایا نہیں گیا تو خیانت ہوگی؟ 
 مگر اس کی بھی وجہ ہے۔ گستاخی معاف ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو امانت کا حق ادا کرتے ہوئے نئی نسل کو اس لئے کوئی اچھی بات نہیں بتاتے کہ وہ اُس اچھی بات کے آئینے میں اپنے عکس سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کبھی اس بابت سوال کیا گیا تو وہ کیا جواب دیں گے۔ یہ کہتے ہوئے بھی گستاخی محسوس ہوتی ہے کہ جب آج کا معاشرہ یہ کہتا ہے کہ نئی نسل اس کے قابو میںنہیں ہے تو وہ بالواسطہ طور پر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے کیونکہ نئی نسل کو سکھانے اور سمجھانے کی ذمہ داری تو اسی (معاشرہ) کی تھی۔ نئی نسل کتابوں سے دور ہے تو کیا معاشرہ کتابوں کے قریب ہے؟ نئی نسل نے الگ دُنیا بسا لی ہے تو کیا معاشرہ ویسا ہے جیسا وہ ہوا کرتا تھا؟
  بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی مگر اس سے قبل کہ بات دور تلک جائے، معاشرہ کو غور کرنا ہوگا کہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل کیوں موقوف ہے؟ درسی کتابوں ہی کو علم کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟ پیشہ جاتی تعلیم ہی کو تعلیم کے منصب پر کیوں فائز کردیا گیا ہے؟ 
 جب معاشرہ معاشرہ نہ رہ گیا ہو تو نئی نسل سے شکایت کیوں کی جاتی ہے؟ نئی نسل کے قبضے میں تو ایسی دُنیا آگئی ہے کہ مضر اثرات سے بچنا کارے دارد ہوگیا ہے۔ اُسے، اِس دُنیا کے مضر اثرات سے بچانے کیلئے معاشرہ کو بہت بااثر نظام عمل (میکانزم) کی ضرورت ہے۔ کہاں ہے وہ نظام؟ کوئی سوچتا بھی ہے اس کے بارے میں؟ اس کالم میں پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ معاشرہ اُن بزرگوں سے خالی ہوگیا ہے جو نئی نسل کے سر پر ہاتھ کر اُسے دُعا دیتے تھے۔ جب وہ راہی ٔ ملک عدم ہو گئے تو اُن کی جگہ پُر کیوں نہیں ہوئی؟ n 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK