• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

میرتقی میر کے ۳۰۰؍ سال اور ان کی شاعری : میرؔ کی شاعری ایک بت ِہزار شیوہ کی طرح ہے

Updated: September 29, 2024, 1:25 PM IST | Al Ahmed Sarwar | Mumbai

میرؔ کے مطالعے میں ہمیں اس نکتے کو ملحوظ رکھنا ہے کہ ان کے ذریعے سے ہم اس دور کے ذہن کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اس محشر ِ جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ہماری تہذیبی بساط پر رونما ہوا تھا۔ میرؔ اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ ان کی کرن نہ صرف ماضی کے دھندلکے کو چیر کر ہمیں ایک جیتی جاگتی تصویر دکھا دیتی ہے بلکہ ان کی یہ تصویر ہمارے حال اور مستقبل دونوں میں رہبری اور رہنمائی کر سکتی ہے۔

Mir Taqi Mir. Photo: INN
میر تقی میرؔ۔ تصویر : آئی این این

ادھر کچھ عرصے سے میرؔ تقی میر کی جو پرستش ہوئی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل کے پاس حقائق نے صرف کچلے ہوئے خواب چھوڑے ہیں اور جس کے صنم کدے کئی بار ویران ہو چکے ہیں، وہ میرؔ کی آواز میں ایک جانی پہچانی کیفیت محسوس کرتی ہے۔ اس نسل کے پاس زخموں کی جو کائنات ہے وہ میرؔ کی ’’چشمِ خوں بستہ‘‘ سے اور ان کے عشق کے آزار سے اسے کچھ قریب کر دیتی ہے مگر اس کی مقبولیت میں بھی میرؔ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا ہے بلکہ میرؔ کے ایک من مانے بت کی پرستش ہو رہی ہے۔ ہر دور اپنی ذہنی پرواز اور حدود فکر کے مطابق اپنے ماضی کی تشریح اور تفسیر کرتا ہے۔ در حقیقت یہ الگ الگ تصویریں میرؔ کی تمام خوبیوں اور خصوصیات کی آئینہ دار نہیں ہیں۔ 
میرؔ کی شاعری بھی ایک بت ِ ہزار شیوہ کی طرح ہے۔ وہ ہمیں جو بصیرت عطا کرتے ہیں اس کی کئی تہیں ہیں۔ سطحی ذہن رکھنے والے لوگ میرؔ کے دردناک اشعار سے اس دور کے درد و داغ کا جو اندازہ لگاتے ہیں، اس میں اس نکتہ کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ میرؔ کا مقصد محض ماحول کی عکاسی نہیں۔ گو اس کے کلام میں اس ماحول کی روح جلوہ گر ہے۔ میرؔ اس لئے بڑے شاعر نہیں کہ وہ ماحول کے مصور ہیں۔ وہ اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ ان کے اشعار اس بھرپور احساس سے لبریز ہیں جو زندگی کی گہری بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ جو واقعات اور حالات کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ان کے پیچھے جو ذہنی دُنیا ہے اس کا دروازہ ہمارے لئے کھول دیتا ہے۔ 
میرؔ کے مطالعے میں ہمیں اس نکتے کو ملحوظ رکھنا ہے کہ ان کے ذریعہ سے ہم اس دور کے ذہن کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اس محشر ِجذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو ہماری تہذیبی بساط پر رونما ہوا تھا۔ میرؔ اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ ان کی کرن نہ صرف ماضی کے دھندلکے کو چیر کر ہمیں ایک جیتی جاگتی تصویر دکھا دیتی ہے بلکہ ان کی یہ تصویر ہمارے حال اور مستقبل دونوں میں رہبری اور رہنمائی کر سکتی ہے۔ میرؔ کی رفاقت سے ہم اسی لئے منہ موڑ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ 
میرؔ کی شاعری کی اہمیت کے اسباب ظاہر ہیں۔ ان کے خیالات میں گہرائی، جذبات میں خلوص اور اظہار میں کیفیت ہے۔ یوں تو ان کی نظر انتخابی ہے یعنی زندگی کے بعض مخصوص پہلوؤں کی زیادہ کامیاب مصوری کرتے ہیں مگر اس انتخاب میں بھی قوس قزح کی دل آویزی اور رنگا رنگی ہے اور وہ اپنی ذاتی زندگی اور اپنے ماحول دونوں میں کئی بڑے بڑے طوفانوں سے گزرے ہیں۔ ابتدائی تربیت نے انہیں ایک نظام اخلاق، ایک شیوۂ زندگی اور ایک آئین مجلسی عطا کیا۔ جوانی نے انہیں ہر قسم کے تجربات سے آشنا کیا مگر یہ تجربات ان کے مزاج کو بدل نہ سکے۔ ان کے مخصوص میلان کو اور استوار کر گئے۔ 

یہ بھی پڑھئے:طنز و مزاح: حقوق ہمسایہ

میرؔ کی زندگی میں ان کے عشق اور دورِ جنوں دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کےاثر سے وہ عمر بھر اعصاب زدہ رہے۔ اسی لئے ان کی شاعری کی سمت کو سمجھنے کے لئے ان کی شخصیت کے پیچ و خم کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ میرؔ کے یہاں عشق کا تصور ایک دھندلا سا دِیا نہیں ہے بلکہ ایک شعلۂ بے باک ہے جس کی آنچ اس کی ہڈیوں تک کو جلائے دیتی ہے۔ اس مادی عشق کا سلسلہ ’’اسرار و معارف‘‘ سے بھی مل جاتا ہے کیونکہ یہی اس زمانے کا ذہنی سرمایہ تھے مگر اس میں ہماری گوشت پوست کی دُنیا اور اس کے تند و تیز جذبات کی ساری گرمی موجود ہے۔ یہ عشق ایک وضع داری بن کر زندگی کی ایک خاص شکل میں نمودار ہوتاہے اور وہ بصیرت عطا کرتا ہے جس کے فیض سے واعظ اور ناصح کی منافقت، دیر و حرم کی حدبندی، دولت کی رعونت اور تعیش کی سطحیت واضح ہو جاتی ہے۔ یہی دردمند انسانیت کی وہ آواز بن جاتا ہے جو ہر جبر و قہر کے خلاف ہے اور صداقت، حسن، انصاف اور صحت ِذہنی کی امین ہے۔ میرؔ کے فن پر توجہ اور ان کی فکر کی طرف سے بے نیازی نے ان کے جوہر کو نمایاں نہیں ہونے دیا، حالانکہ فن کی بہار فکر کی حنابندی کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ میرؔ کا فن اس لئے برگزیدہ اور بلند پایہ ہے کہ ان کے آئینۂ فکر میں پرخلوص تجربات کا جوہر ہے اور یہ تجربات ذاتی ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ کچھ تو میرؔ کی شخصیت کے پیچ و خم کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے اور کچھ ان کی الم پسندی کو قنوطیت کہہ کر اور کچھ غزل کے رمز و ایما کے آداب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے میر کی شاعری کے کئی اہم پہلو واضح نہیں ہونے پائے۔ نشریت، سادگی، قنوطیت، سوز و گداز جیسے الفاظ سے میرؔ کے رنگ کی پوری طرح ترجمانی نہیں ہوتی۔ ان الفاظ کی اہمیت ضرور ہے مگر میرؔ کی عظمت میں ان کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ یہ صرف اس عظمت کو اور واضح کرتے ہیں۔ 
ادب کے طالب علم کا فرض ہے کہ میرؔ کی نفسیات، اس دور کی تاریخ اور اس تہذیبی بساط کی یہ خصوصیت نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ یہ اشراف کے پرستار ہوتے ہوئے بھی عوام اور عوام کی زبان سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتی تھی اور دربار سے تعلق کے باوجود خانقاہ یا بازار سے منہ موڑنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ میرؔ کی شاعری اس لئے بھی ہماری بہت بڑی دولت ہے کہ ان کے یہاں ہمارے تینوں تہذیبی ادارے بازار، خانقاہ اور دربار اس طرح ملے جلے نظر آتے ہیں کہ اس دور کی تمام سماجی حقیقتیں اس نگار خانےمیں جلوہ گر ہو جاتی ہیں۔ 
میرؔ کے یہاں پست و بلند پر ہمارے نقادوں نے بڑا زور دیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے بہتر نشتر مشہور ہیں۔ پست و بلند کی یہ اصطلاح بڑی گمراہ کن ہے۔ اس سے کون بڑا شاعر بچا ہے۔ شیکسپیرؔ، گوئٹےؔ، کالی داسؔ، امراء القیسؔ۔ ۔ ۔ پھر ہمارے یہاں سوداؔ، نظیرؔ، غالبؔ، حالیؔ، انیسؔ، اقبالؔ سب ہی کے یہاں کم و بیش یہ دھوپ چھاؤں مل جائے گی۔ پست و بلند سے کسی نے بہت برے اشعار اور بہت اچھے اشعار مراد لئے ہیں۔ کسی نے پستی کو ابتذال کے مضمون میں استعمال کیا ہے لیکن یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔ پہلی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اخلاقی اعتبار سے انہوں نے پست خیالات ظاہر کئے ہیں۔ دراصل شارحین کو اور میرؔ کے اشعار سمجھنے اور سمجھانے والوں کو پست وبلند کے اخلاقی اور جمالیاتی تصور میں فرق کرنا چاہئے۔ اخلاقی اعتبار سے میرؔ کے یہاں جو خیالات قابل اعتراض ہیں، وہ اس دور کی عام کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں اور صرف میرؔ کو اس وجہ سے قابل ملامت بنانا صحیح نہیں۔ شاہ حاتمؔ سے لےکر نظیرؔ، مصحفیؔ، انشا ؔ اور جرأت تک یہ نشیب و فراز موجود ہیں۔ شرفا کی زندگی عام بدمذاقیوں سے مبرا نہیں تھی اور عام اخلاقی قوانین کے پیچھے عقیدہ تو تھا مگر استقامت نہیں تھی۔ سماج میں جب کوئی بڑی ہلچل رونما ہوتی ہے تو یہ کیفیت اکثر نظر آتی ہے۔ رہی وہ پستی جو پھیکے پن یا سپاٹ پن کے مترادف ہے تو اسے پستی کے بجائے کسی اور نام سے یاد کرنا چاہئے۔ میرؔ نے تمام عمر شعر کہے۔ یہی ان کا سب سے بڑا مشغلہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو دہراتے بھی ہیں اور کہیں کہیں ان کے اشعار کلام موزوں ہی رہ جاتے ہیں لیکن ان کے یہاں شروع سے آخر تک ایک لہجہ اور آواز ہے۔ آوازوں کا تصادم یا کشمکش نہیں ہے۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ جس طرح غالبؔ نے اپنے کلام کا انتخاب کیا تھا، اسی طرح میرؔ کے بھی کلام کا انتخاب ہوتا تو ان کی عظمت کا نقش اور گہرا ہوتا۔ 
(مآخذ:’میر کے مطالعے کی اہمیت‘ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK