• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کا شوشہ اڈانی کو بچانے کیلئے چھوڑا گیا

Updated: September 24, 2023, 3:01 PM IST | Pankaj Srivastava | Mumbai

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس کا اعلان ہوتے ہی نام نہاد مین اسٹریم میڈیا ’وَن نیشن وَن بزنس مین‘ کے گھوٹالے پر ’وَن نیشن وَن الیکشن‘ کی چادر بچھا کر بیٹھ گیا۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

چند روز قبل ریلیز ہونے والی فلم ’بوال‘ کا ایک ڈائیلاگ ہے ’’ماحول کچھ ایسا بنائیں کہ لوگ نتیجہ بھول جائیں !‘‘ یعنی کچھ ایسا دھماکہ کرو کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول بھر جائیں اور وہ حقیقت کو نہ دیکھ پائیں ۔ اسے آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ امتحان میں فیل ہو جائیں تو پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کردیں تاکہ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں ، یا پھر امتحانی نظام ہی پر سوال اٹھادیں اور ایک سیمینار کا اہتمام کردیں ۔ ’ون نیشن ون الیکشن‘ کی اچانک اٹھنے والی بحث بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔
 دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر ساڑھے ۹؍ سال کی حکمرانی کے بعد مودی سرکار کی مارک شیٹ کچھ اس طرح ہے۔ ہمارا ملک جمہوریت کی انڈیکس میں ۱۰۸؍ ویں نمبر پر، بھوک انڈیکس میں ۱۰۷؍ ویں ، پریس فریڈم انڈیکس میں ۱۶۱؍ ویں ، فی کس آمدنی کے معاملے میں ۱۲۸؍ ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح کرنسی کی مضبوطی کے معاملے میں ۴۰؍ویں اور صنفی عدم مساوات میں ۱۲۷؍ویں نمبر پر ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو پانچویں بڑی معیشت کے حوالے سے بجائے جارہے ہیں ڈھول کی پول کھولتی ہے اور حکومت کے دعوؤں کو بے نقاب کرتی ہے۔ معیشت کے اس’حجم‘ کے پیچھے ہندوستان کی بڑی آبادی ہے جو شدید عدم مساوات کا شکار ہے۔ آکس فیم کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے ایک فیصد لوگ ملک کی۴۰؍ فیصد دولت پر قابض ہیں جبکہ ۵۰؍ فیصد آبادی کا انحصار صرف۳؍ فیصد دولت پر ہے۔ ملک میں بے روزگاری۷ء۹۵؍ فیصد کی تشویشناک شرح پر ہے اور تیزی سے بڑھ رہی مہنگائی عوام کیلئے ایک ایسے خارش کی طرح ہے کہ اس پر جتناہاتھ لگاؤ، اتنا ہی وہ بڑھتا جاتا ہے۔
 ظاہر ہے کہ ہر سال ۲؍ کروڑ نوکریاں فراہم کرنے اور ۲۰۲۲ء تک ملک کے تمام کسانوں کی آمدنی دگنی کرنے جیسے تمام وعدوں کی کسوٹی پر مودی حکومت کو آئندہ انتخابات میں کسا جانا ہے۔ اپوزیشن کے’انڈیا اتحاد‘ کی پیش رفت اور ملک میں بڑھتی اس کی ساکھ نے بھی حکومت کو کافی بے چین کر رکھا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی جو اڈانی اور مودی کے تعلقات میں چھپی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں ، کا یہ بیان حکومت کو خاص طور پر پریشان کر رہا ہے کہ ’انڈیا اتحاد‘ ملک کے۶۰؍ فیصد رائے دہندگان کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لئے وقفہ سوالات اور وقفہ صفر کے بغیر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا اعلان کرکے سرخیاں بٹورنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس کی بات ہے کہ اس کا اعلان ہونے کے بعد نام نہاد مین اسٹریم میڈیا ’وَن نیشن وَن بزنس مین‘ کے گھپلے پر ’وَن نیشن وَن الیکشن‘ کی چادر بچھا کر بیٹھ گیا۔
 ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہوں ، اس پر نظریاتی طور سے کون اعتراض کر سکتا ہے؟ لیکن ملک کے آئینی مستقبل پر ۲؍ سال ۱۱؍ ماہ اور ۱۷؍ دنوں تک بحث کرنے والی آئین ساز اسمبلی نے اس صورتحال کا بھی تصور کرلیا تھا جب کوئی حکومت اراکین پارلیمان اور اراکین اسمبلی کی اکثریت کی حمایت کھو دے۔ ایسے میں ’جنتا‘ کو ’جناردن‘ مان کر دوبارہ عوام کے درمیان جانے کا التزام کیا گیا۔ لوک سبھا یا ودھان سبھا کی میعاد پانچ سال کیلئے طے کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ منتخب پارٹی یا شخص اکثریت کے سوال سے بے نیازہوجائے۔۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۷ء تک ملک میں لوک سبھا اور ودھان سبھا کے انتخابات ایک ساتھ ہی ہورہے تھے۔ اس میں دِقت اُس وقت پیش آئی جب ’غیر کانگریس واد‘ کے نام پر ایک وسیع اپوزیشن اتحاد تشکیل د ی گئی اور کانگریس کی حکومتوں کو بے دخل کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ اس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں متحدہ پارلیمانی پارٹی کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں جن میں ’جن سنگھ‘ سے لے کر بائیں بازو کی پارٹیاں تک شامل تھیں ۔ حزب اختلاف کو ایسا کرنے کا حق بھی تھا۔ پارلیمانی جمہوریت یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ کسی بھی طاقتور سیاسی طاقت کو روکنے کیلئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں آپسی اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں اور اکثریت کے کھیل میں حکمراں جماعت سے آگے بڑھ جائیں ۔
 بار بار ہونے والے انتخابات سے ہونے والی پریشانیوں کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ مسئلہ پچھلی حکومتوں میں بھی زیر بحث آچکا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد ہی مودی جی نے’ ون نیشن، ون الیکشن‘ کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ان کے پاس پورا موقع تھا کہ وہ اس حوالے سے قومی سطح پر گفتگو کی راہ ہموار کرتے اور بحث کراتے۔ اس بحث میں نہ صرف دیگر قومی جماعتوں کو بلکہ ریاستی سطح کی چھوٹی جماعتوں کو بھی اس میں شامل کرتے اور اس موضوع پر ایک وسیع اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی۔ آئین کے ماہرین کے ساتھ ہی عام لوگوں سے بھی رائے لی جاتی، لیکن مودی سرکار نے اس معاملے کو ساڑھے۹؍ سال تک سرد خانے میں رکھنے کے بعد اچانک اس پر ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ ایسے میں اس پر شک پیدا ہونا فطری ہے کہ مودی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے بھی یا نہیں ؟ شفافیت کے فقدان نے حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند’ ایک ملک ایک الیکشن‘ پر غور کرنے کیلئے تشکیل دی گئی۸؍رکنی کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔ ایسا کرکے حکومت نے جان بوجھ کر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
صدر کے عہدے پر فائز شخص کو سیاست سے بالاتر سمجھنے کی ہمارے یہاں روایت رہی ہے۔ ایسےمیں کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ کل تک جو شخص حکومت بنانے کی اجازت دیتا تھا اور وزیر اعظم کا تقرر کرتا تھا، اسے حکومت نے ایک کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ کیا یہ صدر جمہوریہ کے وقار کو کمزور اورمجروح کرنا نہیں ہے؟ کیونکہ اس حوالے سے اٹھنے والے تنازعات کے چھینٹے اُن پر بھی پڑیں گے۔ یہ درست ہے کہ قانوناً ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن پابندی تو ان کے الیکشن لڑنے پر بھی نہیں ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند بی جے پی کے ٹکٹ پر گھاٹم پور اسمبلی کا الیکشن لڑ جائیں جہاں سے وہ ایم ایل اے منتخب ہوتے رہے ہیں ۔
 حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کمیٹی میں اپوزیشن یا قانونی ماہرین کو شامل کرنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہوتی تو کم از کم سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اور سابق چیف الیکشن کمشنر کو ضرورشامل کیا جاتا۔ صرف لوک سبھا ہی نہیں راجیہ سبھا کے اپوزیشن لیڈر کو بھی اس کمیٹی میں جگہ ملتی۔ یہی وہ سوالات ہیں جن کی بنیاد پرلوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب اس کمیٹی میں کسی اختلافی آواز کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی ہے۔ایسے میں کمیٹی کو حکومت کے ارادوں کی محض توثیق کرنی ہے۔
 سوال یہ بھی ہے کہ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کیلئے جس حد تک آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، کیا۲۰۲۴ء سے پہلے یہ ممکن ہے؟ کیا اس سے ریاستوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے، جن کا تعلق آئین کے بنیادی ڈھانچے سے بھی ہے؟ ۱۹۷۳ء میں کیشونند بھارتی کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت قانون میں ترمیم تو کر سکتی ہے لیکن آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں بدل سکتی۔ ویسے بھی انتخابی اصلاحات صرف ایک ساتھ انتخابات کے انعقاد کا تصور نہیں ہے۔ اس میں مواقع کی مساوات کے ساتھ ساتھ معاشی سدھار بھی اہم ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ یہ بی جے پی کی حکومت ہی ہے جس نے’الیکٹورل بانڈز‘ متعارف کروا کر اس شفافیت کو ختم کیا۔ پہلے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کے ناموں کو عام کرنا پڑتا تھا، لیکن اب بڑے کارپوریٹس گھرانے گمنام طور پراپنی پسندیدہ جماعت کو رقم دے سکتے ہیں ۔ یقیناً وہ بھی بدلے میں کچھ چاہیں گے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ ۵۰؍ سال سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہنے والی کانگریس کے بینک کھاتوں میں صرف۱۶۲؍ کروڑ روپے ہیں جبکہ ساڑھے۹؍ سال اقتدار میں رہنے والی بی جے پی کے پاس ۳؍ ہزار کروڑ روپوں سے بھی زیادہ ہیں ۔ بی جے پی نے جس طرح سے انتخابات کو مہنگا کیا ہے یا پھر ’آپریشن لوٹس‘ کے نام پر کئی ریاستوں کی حکومتوں کو توڑا ہے، وہ انتخابی اصلاحات کے بنیادی تصور کے عین خلاف ہے۔
 بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ اگر ایک ساتھ الیکشن ہوئے تو انڈیا اتحاد میں دراڑ پڑ جائے گی اور مودی کا چہرہ مرکز میں آجائے گا جس کا فائدہ اسے ہوگا۔ موجودہ شیڈول کے مطابق چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جہاں بی جے پی کیلئے گنجائش بہت کم دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ یہاں بھی مودی جی کے نام پر الیکشن لڑا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس نے انتخابی اصلاحات سے جڑے ایک اہم مسئلے کو انتخابی داؤ پر لگا دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک بار کہا تھا کہ ان کے دماغ میں ایک ایسا سافٹ ویئر ہے کہ وہ چھوٹا سوچ ہی نہیں سکتے، لیکن ان کی یہ کوشش بتاتی ہے کہ وہ سافٹ ویئر اب صرف چھوٹا ہی سوچ رہا ہے۔ ویسے مودی جی نے جس انداز سے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں اپنی ساکھ کو داؤ پر لگانے کے باوجود منہ کی کھائی تھی، اس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سافٹ ویئر اب پوری طرح سے ’آؤٹ ڈیٹیڈ‘ ہوچکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK