اچھی طرح یاد کرکے بتائیے کہ کتنے عرصہ سے آپ نے کسی کو کتاب پڑھتے نہیں دیکھا؟ یقیناً کافی عرصہ گزر چکا ہوگا۔ توکیا کتاب معاشرہ سے نکل رہی ہے اور قصہ ٔپارینہ ہورہی ہے جبکہ اس کی افادیت میں تو کوئی کمی نہیں آئی ہے؟۔
EPAPER
Updated: December 05, 2023, 2:31 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اچھی طرح یاد کرکے بتائیے کہ کتنے عرصہ سے آپ نے کسی کو کتاب پڑھتے نہیں دیکھا؟ یقیناً کافی عرصہ گزر چکا ہوگا۔ توکیا کتاب معاشرہ سے نکل رہی ہے اور قصہ ٔپارینہ ہورہی ہے جبکہ اس کی افادیت میں تو کوئی کمی نہیں آئی ہے؟۔
امریکہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ ا س کی جی ڈی پی ۲۳ء۳۲؍ لاکھ کروڑ ڈالر (۲۰۲۱ء) ہے۔ اس کی فی کس آمدنی ۷۰؍ ہزار ڈالر (۲۰۲۱ء) ہے۔ اس تفصیل سے سپرپاور کہلانے والے اس ملک کی معاشی حالت اور اس کے شہریوں کی خوشحالی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بیشتر شہری برسرروزگار ہیں ، انہیں عموماً معاشی پریشانی نہیں ہے۔ ان کے سامنے کوئی ایسا ہدف نہیں ہے جیسا کہ ترقی پزیر ملکوں میں ہوتا ہے کہ لوگ باگ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے فکرمند رہتے ہیں تو اس کی معاشی وجہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے اعلیٰ تعلیم سے سرفراز ہوکر اچھے عہدوں پر فائز ہوں اور اس طرح گھریلو معاشی حالت بہتر ہوجائے۔ اس کے باوجود امریکی شہریوں میں مطالعہ کا ذوق بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس لئے کہ وہ یہ نہیں سوچتے کہ مطالعہ سے کیا ملے گا بلکہ وہ جانتے ہیں کہ کتاب ذہنی تسکین، علمی استعداد اور نئے خیالات کیلئے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ’’پیو ریسرچ‘‘ جیسے معتبر ادارے کے اعدادوشمار سے بڑی روشنی ملتی ہے۔ اِس ادارہ نے جنوری ۲۰۱۴ء میں سروے کے بعد بتایا تھا کہ اٹھارہ سال یا اس سے زائد عمر کے ۷۶؍ فیصد شہریوں نے کہا کہ اُنہوں نے گزرے ہوئے سال کے دوران کم از کم ایک کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ دس میں سے تقریباً سات شہریوں (۶۹؍ فیصد) کا کہنا تھا کہ اُنہو ں نے بارہ مہینوں میں کم از کم ایک کتاب اس کی روایتی (کاغذ پر چھپائی) شکل میں پڑھی ہے، ۲۸؍ فیصد نے اُسے ای بک کی شکل میں پڑھا ہے اور ۱۴؍ فیصد نے آڈیو بُک کے ذریعہ استفادہ کیا ہے۔
امریکہ کے ان قارئین میں حیرت انگیز طور پر خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ پیو ریسرچ کا مذکورہ سروے کہتا ہے کہ اٹھارہ سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں میں جن کی مجموعی تعداد ۷۶؍ فیصد ہے، ۶۹؍ فیصد مرد ہیں تو ۸۲؍ فیصد خواتین ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ قارئین میں سفید فام افراد (۷۶؍ فیصد) کے مقابلے میں سیاہ فاموں کی تعداد (۸۱؍ فیصد) زیادہ ہے جبکہ ہسپانوی آبادی میں کم از کم ایک کتاب پڑھنے والوں کی تعداد ۶۷؍ فیصد ہے۔ پیو ریسرچ یہ بھی کہتا ہے کہ قارئین میں تمام عمر کے لوگ شامل ہیں ۔ یہ انکشاف بھی حیرت انگیز ہے کہ ۱۸؍ سے ۲۹؍ سال کے افراد میں ۷۹؍ فیصد ایسے ہیں جنہوں نے گزرنے والے سال میں کم از کم ایک کتاب پڑھی تھی، ۳۰؍ سے ۴۹؍ سال کی عمر کے ایسے قارئین کی تعداد ۷۵؍ فیصد تھی۔ ۵۰؍ سے ۶۴؍ سال کی عمر کے لوگ ۷۷؍ فیصد تھے جبکہ ۶۵؍ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد بھی ۷۰؍ فیصد سے کم نہیں تھی۔ اس میں کم سے کم تعداد آخری گروہ کی ہے لیکن وہ بھی کم و بیش ۷۰؍ فیصد ہے۔ کیا اس سے کوئی نتیجہ اخذ ہوتا ہے؟
اگر آپ اس سوال کا جواب ہم سے چاہتے ہیں تو ہم بلاتردد یہی کہیں گے کہ امریکی معاشرہ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اس خوبی سے بہرحال متصف ہے کہ اس میں کتب بینی کا ذوق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کا مشاہدہ خود ہم نے کیا ہے۔ امریکی شہروں میں کتابوں کی عالی شان دکانیں ہیں جہاں ہمہ وقت لوگ موجود رہتے ہیں ۔ کتابیں خریدنا ہی اُن کا مشغلہ نہیں ہے بلکہ وہ کتابیں پڑھنے سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں چنانچہ پارکوں میں ، بسوں میں ، ریستورانوں میں لوگ باگ آپ کو غرقِ مطالعہ دکھائی دیتے ہیں ۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ سب سے زیادہ کتابیں جس ملک میں پڑھی جاتی ہیں وہ امریکہ ہے، اس کے بعد چین، برطانیہ، جاپان اور جرمنی کا نمبر آتا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں کتابیں خرید کر پڑھی جاتی ہیں لیکن کتاب پڑھنے کو کتاب خریدنے سے مشروط نہ کیا جائے تو اس زمرہ میں ہندوستان سرفہرست قرار دیا جاتا ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق ہندوستانی، ہفتے میں اوسطاً ۱۰؍ گھنٹہ ۴۲؍ منٹ کتب بینی کرتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہندوستان کی آبادی زیادہ ہے اس لئے کتب بینی پر صرف ہونے والا اوسط دورانیہ زیادہ ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ ہندوستان میں مطالعہ کا ایسا ذوق تو دیکھنے کو نہیں ملتا کہ اس کا موازنہ امریکہ جیسے کسی ملک سے کیا جائے جہاں خرید کر پڑھنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
ان اعدادوشمار کے بعد آئیے اس بات کا جائزہ لیتے چلیں کہ ہمارے معاشرہ میں کتب بینی کا کلچر کیوں ختم ہوتا جارہا ہے؟ عالم یہ ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو یہ بتاتے ہوں کہ اُنہوں نے ایک سال کے دوران تین چار کتابیں پڑھی ہیں ۔ بعض لوگ کسی رسالہ کے مطالعہ کو کتاب کے مطالعہ کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ بعض دوسرے اخبار بینی اور کتب بینی میں زیادہ فرق نہیں کرتے بلکہ اخبار بینی کو کتب بینی کا متبادل سمجھتے ہیں ۔ خیر، جہاں تک ہمارے معاشرہ کا تعلق ہے، اس میں کتب بینی کا رجحان کم ہوتے ہوتے ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔پہلے تو نقصان پہنچایا ٹیلی ویژن اور اس کے ملٹی چینل سسٹم نے، اس کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ یہ ممکن تھا کہ لوگ، پہلے ٹی وی سے اور بعد کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ سے بے اعتنائی نہ برتتے مگر وقت مخصوص کردیتے کہ اتنی دیر موبائل اور انٹرنیٹ کے ساتھ رہیں گے اور اتنی دیر کتاب پڑھنے میں ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ وہ لوگ جو کل تک کتابیں پڑھتے تھے، اب یوٹیوب، وہاٹس ایپ وغیرہ پر کئی کئی گھنٹے گزار دیتے ہیں جس کا مطلب صاف ہے کہ اُنہوں نے وہ وقت جو کتاب کے مطالعہ میں گزرتا تھا، اب میڈیا اور سوشل میڈیا کی نذر کردیا۔ اس کا ثبوت انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کی مجموعی تعداد سے ملتا ہے جو چین کے بعد سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد ۱ء۰۵؍ ارب ہے جبکہ ہندوستان میں ۶۹۲؍ ملین (تیسرا نمبر امریکہ کا ہے، ۳۱۱؍ ملین صارفین)۔
کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں کتب بینی پر موبائل بینی کو ترجیح دی جارہی ہے؟ یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہے۔ صحتمند معاشرہ کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ علم دوست ہوتا ہے اور علم کتابوں سے ملتا ہے انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا سے نہیں جس کے ذریعہ بہت سا غیر مصدقہ مواد صارفین تک پہنچتا ہے جن کی معتدبہ تعداد اسے مصدقہ سمجھ کر قبول کرتی ہے۔اس رجحان کے حامل افراد کو معلوم ہونا چاہئے کہ غیر مصدقہ مواد حاصل کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آدمی اس کے بغیر زندگی گزارے، بہ الفاظ دیگر، علم کا حاصل کرنا ضروری ہے مگر اُس علم کا حاصل کرنا جس کی کوئی اصل نہ ہو، خود کو دھوکہ میں رکھنے کے مترادف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔