• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مودی کو انتخابات میں عوامی نہیں، جذباتی موضوعات سے کامیابی ملتی ہے

Updated: December 17, 2024, 3:42 PM IST | Sagarika Ghose | Mumbai

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی پارٹی کو عوامی موضوعات میں دلچسپی بھی نہیں رہ گئی ہے، نتیجہ سامنے ہے کہ منی پور اور مہنگائی پر بات ہونے کے بجائے مسجدوں کی تہہ میں مندر تلاش کئے جارہے ہیں۔

Adani has allegations against him, they are not trivial, but the government has no interest in investigating these allegations. Photo: INN.
اڈانی پر جوالزامات ہیں، وہ معمولی نہیں ہیں لیکن حکومت کو ان الزامات کی جانچ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ان دنوں ملک میں جاری اخبارات کی سرخیاں بتا رہی ہیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟گزشتہ دنوں صفحہ اول پر ایک کونے میں ایک سنگین خبر تھی ’’جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ۷؍ سہ ماہی میں کم ترین سطح۵ء۴؍ فیصد پر پہنچ گئی۔ ‘‘ لیکن اسی صفحہ پر، ایک بڑی سرخی والی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی تھی جو معیشت سے جڑی اس بڑی خبر کو دبا رہی تھی۔ وہ بڑی خبر ایک اور مذہبی تنازع کو طول دینے والی تھی ’’سنبھل مسجد تنازع۔ ‘‘
ایک ایسے وقت میں جبکہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور افراط زر کی وجہ سے گھریلو بجٹ کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے، مودی حکومت مذہبی تنازعات اور مذہبی مقامات پر بحث جاری رکھنے میں خوش ہے۔ اسی ہفتے ۶؍ دسمبر کو جنونی ہندوتواوادیوں کے ہاتھوں بابری مسجد کے انہدام کو۳۲؍ سال ہوگئے۔ مرکزی حکومت خاموشی کا مظاہرہ کرکے مغربی اتر پردیش کے سنبھل میں بابری مسجد جیسی صورتحال پیدا ہونے کی اجازت دے رہی ہے۔ مودی حکومت کی ترجیحات تباہ کن طور پر غیر متوازن ہیں۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے مودی اور ان کے ساتھی انتخابات جیتنے کیلئے مذہبی تنازعات کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ جس وقت حکومت کو اپنی ترجیحات میں معیشت کوشامل کرناچاہئے، اُس وقت وہ مذہبی مقامات کے حوالے سے عوام کو اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ عوام کو بھی عوامی موضوعات میں دلچسپی نہیں رہ گئی ہے جس کا ثبوت مودی کی کامیابی ہے۔ 
پچھلے ہفتے، میں نے پارلیمنٹ میں سنبھل تشدد پر (خصوصی توجہ کے اصول کے تحت) بحث کیلئے اپیل کی تھی۔ حال ہی میں، ایک نچلی عدالت نے سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے نیچے ہندو مندر کے وجود کے ’ثبوت‘ تلاش کرنے کیلئے ایک سروے کی اجازت دی تھی۔ ’سروے‘ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا جس میں ۴؍انسانی جانوں کااتلاف ہوا۔ ایسے میں میرا سوال یہ تھا کہ کیا نریندر مودی حکومت عبادت گاہوں کے ایکٹ۱۹۹۱ء کے کمزور پڑنے پر خاموش تماشائی بنی رہنا چاہتی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی حیثیت باقی رکھی جائے گی۔ کیا مودی حکومت عبادت گاہوں سے متعلق اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند رکھےگی؟
سنبھل پر میرا نوٹس راجیہ سبھا کے ضابطہ کے قاعدہ۱۸۰؍ بی (دوم) کے تحت مسترد کر دیا گیا تھا، جس کے مطابق مرکزی حکومت سے متعلق نہ ہونے والے معاملات کو پارلیمنٹ میں نہیں اٹھایا جا سکتا... لیکن اس کے بعد میرا ایک سوال یہ ہے کہ سنبھل کا معاملہ مرکزی حکومت سے کیوں متعلق نہیں ہے؟ ? مرکز کے ذریعہ نافذ کردہ عبادت گاہوں کے قانون کو کمزور کرنے کا معاملہ مرکزی حکومت کے اختیارکی بات کیوں نہیں ہے؟ مرکزی حکومت پارلیمنٹ کے منظور کردہ تمام قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار ہے اور عبادت گاہوں کے مقامات (خصوصی دفعات) ایکٹ ۱۸؍ ستمبر۱۹۹۱ء کو تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ پھر مرکزی حکومت ذمہ داری سے کیسے بچ سکتی ہے؟ 
یہ صرف سنبھل کی بات نہیں ہے۔ اجمیر کی ایک عدالت نے بھی ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں ۱۳؍ویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اجمیر کے سروے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی مشہور درگاہ صدیوں سے تمام فرقوں کیلئے عقیدے کا مرکز رہی ہے۔ جواہر لال نہرو سے لے کر بارک اوباما تک کئی وی آئی پی یہاں آ چکے ہیں۔ ہندو گروپوں کا دعویٰ ہے کہ اجمیر کی درگاہ شیو مندر ہے، اسلئے اسے ہندوؤں کے حوالے کرکے درگاہ کا نام بدل کر سنکٹ موچن شیو مندر رکھ دیا جانا چا ہئے۔ 
اسی طرح کا مطالبہ مدھیہ پردیش میں بھوج شالہ مسجد کیلئے بھی ہیں، جو ۱۲؍ویں صدی میں تعمیر کی گئی ہے۔ بنارس کی گیان واپی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کا معاملہ اس سے پہلے ہی اٹھ چکا ہے۔ آخرالذکر دونوں ہی مساجد کی سروے کی اجازت پہلے ہی دی جاچکی ہے۔ 
ہمیشہ کی طرح سنگھ پریوار دو ’سُروں ‘ میں بول رہا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ’’ہر مسجد کے نیچے شیولنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ لیکن آج آر ایس ایس کی مقامی شاخیں ہندو گروپوں کو روزانہ نئی مساجد پر دعویٰ کرنے کی اجازت دے رہی ہیں۔ دراصل اسے اس بات کا یقین ہے کہ مذہبی تنازعات کی وجہ سے اسے انتخابات میں کامیابی ملے گی۔ 
اگر یہاں ادارہ جاتی الزام عائد کرنا ہے تو سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کا ذکر ضروری ہے۔ یہ جسٹس چندر چڈ ہی ہیں جنہوں نے گیان واپی مسجد کیس کی سماعت کے دوران اپنے زبانی مشاہدے میں کہا تھا کہ۱۹۹۱ء کے عبادت گاہوں کا قانون کسی ڈھانچے کے ’مذہبی کردار کا پتہ لگانے‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا ہے۔ چندرچڈکے اس جاہلانہ اور خود پسندانہ تبصرے نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے تبصروں کو بہت سے ہندو گروپوں نے مساجد پر دعوے بڑھانے کے لائسنس کے طور پر لیا ہے۔ 
کیا یہی نریندر مودی کے ’ وِکست بھارت‘ کا نظریہ ہے؟کیا ہندوستان کا مستقبل اس کے پرانے ماضی کو کھود کر دفن کیا جا رہا ہے؟ اقتدار کی مجرمانہ خاموشی سے عمارتوں کو گرانے کی کوشش کرنا اخلاقی طور پر گھناؤنا ہے، محض اسلئے کہ ایک اقلیتی مذہبی گروہ ان عمارتوں کو عبادت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات مذاہب کی مساوات کے آئینی نظریئے کیلئے تباہ کن ہیں۔ 
مودی کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟ یا وہ ایسا اسلئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ان کی مسلسل جیت کے باوجود ملک میں ’فیل گڈ فیکٹر‘ نہیں ہے۔ منی پور میں گزشتہ۲۰؍ ماہ سے خانہ جنگی جاری ہے۔ اس کی وجہ سے۶۰؍ ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ۲۰۰؍ سے زیادہ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ حال ہی میں تشدد کا آغاز تین بچوں کی ماں کے قتل سے ہوا۔ اس کی موت کے بعد، حریف دھڑوں، میتی اور کوکیوں نے انتقامی حملے شروع کر دیئے۔ اسی طرح سبزیوں کی قیمتیں گزشتہ۵۷؍ ماہ کی بلند ترین سطح پر ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ۱۰؍ فیصد اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں ۹ء۵؍فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ گزشتہ دو برسوں میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ اکتوبر میں ہندوستان کی مجموعی خوردہ افراط زر کی شرح بڑھ کر۶ء۲؍ فیصد ہوگئی ہے۔ 
تنخواہ والی آمدنی پر کچن چلانے والی لاکھوں مصروف خواتین کی طرح میں بھی ٹماٹر، پیاز اور لہسن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے حیران رہ جاتی ہوں۔ ایندھن اور پیٹرول کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ حکومت کا ردعمل کیا ہے؟ بس تمام بحثیں بند کر دیں اور اس افسانے کو برقرار رکھیں کہ اپوزیشن نے سرمائی اجلاس کے پہلے ہفتے میں پارلیمنٹ کو روک دیا ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ اپوزیشن صرف ایسے ایشوز اٹھا رہی ہے جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے۔ امریکی محکمہ انصاف نے ہندوستان کے اعلیٰ ترین صنعت کار گوتم اڈانی کی قیادت میں ان کے کاروباری گروپ پر رشوت ستانی کا الزام کیوں لگایا ہے؟ ’سولر اینرجی کارپوریشن آف انڈیا ‘مرکزی حکومت کی کمپنی ہے جو رشوت ستانی کے الزامات کے مرکز میں ہے۔ یقینی طور پر حکومت کو پارلیمنٹ کو بتانا چاہئے کہ آیا مرکزی حکومت کی مبینہ کارروائیوں کی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ اس کے برعکس وہ اپوزیشن ہی کو ذمہ دار ٹھہرارہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK