موہن بھاگوت نے جو بیان دیا ہے وہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے مگران کے ذریعہ اس طرح کے بیانات ماضی میں بھی دئیے جاتے رہے ہیں اور اس کے بعد ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 4:51 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai
موہن بھاگوت نے جو بیان دیا ہے وہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے مگران کے ذریعہ اس طرح کے بیانات ماضی میں بھی دئیے جاتے رہے ہیں اور اس کے بعد ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اس ہفتے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے دو ایسے بیانات جاری ہوئے ہیں جس کو نہ صرف قومی ذرائع ابلاغ میں بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور ان دونوں بیانات پر مختلف تنظیموں اور بالخصوص کئی مسلم تنظیموں اور رہنمائوں کی جانب سے بھی تبصرے کئے جا رہے ہیں اور ان کے حالیہ بیانات کو مثبت قرار دیتے ہوئے خیر مقدم بھی کیا جا رہاہے اور اس میں مختلف سیاسی جماعتوں اور خود مختار قومی وملّی رہنما شامل ہیں ۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بھاگوت کے بیانات کیا ہیں۔ اول بیان ۱۹؍ دسمبر کو موہن بھاگوت کے ذریعہ دیا گیا کہ ’’ایودھیا میں رام مندر بننے کے بعد کچھ لوگ ایسے ایشوز کو اچھال کر خود کو ہندوئوں کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ دوسرا بیان گزشتہ دن مہاراشٹر کے امراوتی میں مہانوبھائو آشرم کی صد سالہ تقریبات کو خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا کہ ’’مذہب کے نام پر جو بھی ظلم اور جبر ہوا ہے وہ صرف غلط فہمی اور مذہب کے بارے میں نا مکمل معلومات کی وجہ سے ہوا ہے ‘‘ ان دونوں بیانات کا خیر مقدم کیا جانا فطری عمل ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کی مسموم فضا ہے اور بالخصوص مسلم اقلیت طبقے کے لئے فتنہ انگیزی اپنے شباب پر ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے مسلم اقلیت کی حمایت میںکھڑے ہونے کی امیدیں ختم ہوگئی ہیں ایسے وقت میں اگر آر ایس ایس چیف اس طرح کا بیان دے رہے ہیں تو اس سے پُر امید ہونا لمحاتی عمل تو ہے مگر ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ان دونوں بیانات کی ٹائمنگ کو دیکھیں گے تو پھر اس طرح کے بیان کے پسِ پردہ کی حقیقت خود بخود عیاں ہو جائے گی ۔ واضح رہے کہ اولاً حال ہی میں دنیا کی مختلف رضا کار تنظیموں اور بالخصوص امریکہ جیسے سپر پاور ملک نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے جس طرح اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز بیانات حکمراں جماعتوں کے لیڈروں کے ذریعہ دیا جا رہاہے وہ تشویشناک ہے۔ دوم وزیراعظم نریندر مودی کویت کے دورہ پر ہیں اور اس دورہ کو نہ صرف ہندکویت کے درمیان مستحکم رشتوں کی وکالت کی جا رہی ہے بلکہ یہ کہا جا رہاہے کہ اس دورے سے مسلم ممالک میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ظاہر ہے کہ تقریباً ۴۳؍ برسوں کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم کا کویت دورہ ہوا ہے کیونکہ ۱۹۸۱ء میں آنجہانی اندرا گاندھی کویت گئی تھیں البتہ اس طویل عرصے میں دونوں ممالک کے وزراء کا وفد آتا جاتا رہا ہے لیکن نریندر مودی کا وہاں جانا ایک تاریخی دورہ تو ضرور ہے کہ کویت کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’’دی آرڈر آف مبارک الکبیر‘‘ سے انہیں نوازا گیاہے۔میرے خیال سے اب یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ بھاگوت نے اپنے مذکورہ بیانات کیلئے یہ وقت کیوں منتخب کیا ہے۔
اگر ہمارے قارئین کی یادداشت مستحکم ہے تو انہیں یہ یاد ہوگا کہ موہن بھاگوت نے ۲۰۲۲ء میں اسی طرح کا ایک بیان گیان واپی مسجد کے تعلق سے بھی دیا تھا کہ ’’رام مندر کی تعمیر کے بعد اب ہر مسجد کے نیچے شیو لنگ نہ ڈھونڈا جائے ‘‘۔لیکن اس بیان کے بعد کیا کچھ ہوا وہ سامنے ہے اور اس پر موہن بھاگوت جی کی خاموشی بھی اظہر من الشمس ہے ۔ اس لئے حالیہ بیان کو بھی ہندوستانی سیاست کی شطرنجی چال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ اگر واقعی موہن بھاگوت جی کا مقصد ملک میں امن وامان بحال کرنا ہے اور مبینہ طورپر ہندو مذہب کو بدنام کرنے والوں پر نکیل کسنا ہے تو پھر مختلف ریاستوں میں ان کے نظریے کے علمبرداروں کی حکومت ہے اور ملک کی قیادت بھی ان ہی کے نظریوں کو فروغ دینے والوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ اگر وہ چاہیں تو منٹوں میں ملک کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ موہن بھاگوت جو سناتن دھرم کے مبلغ ہیں اس دھرم میں تو انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند اور درختوں کو بھی پوجنے کی روایت ہے ۔ سناتن دھرم کا عالمی منتر ہے کہ ’’بسودیو کٹمبھ کم‘‘ یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے ۔ ظاہر ہے جس دھرم میں پوری دنیا کو ایک خاندان کا تصور ہے اس میں مذہب دیوار کہاں بنتی ہے ۔مذہب اسلام میں بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی وکالت کی گئی ہے اور عیسائی مذہب میں انسانیت کی پاسداری کو اولیت حاصل ہے۔سکھوں کے یہاں بھی سب انسان ایک ہے کا نعرہ گونجتا رہتا ہے اس لئے موہن بھاگوت نے جو بیان دیا ہے وہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے مگران کے ذریعہ اس طرح کے بیانات ماضی میں بھی دئیے جاتے رہے ہیں اور اس کے بعد ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں تو کیا مذکورہ دونوں بیانات کو ماضی کے بیانات سے جوڑ کر دیکھا نہیں جانا چاہئے؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ہمارے ملک میں جس طرح کا بیانیہ قائم کیا جا رہاہے ۔ تعلیم گاہوں سے لے کر سرکاری دفاتر میں اور اب تو عدالتی نظاموں میں بھی جس طرح کی زہر افشانی دیکھی جا رہی ہے ، کیا ایسے حالات میں ہندوستان ’’وشو گرو ‘‘بن سکتا ہے اور ہم ترقی یافتہ ملک کی قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ جس ملک کی بیس فیصد آبادی اضطرابی کیفیت کی شکار ہو ، وہ مآب لنچنگ کے خوف سے ہراساں ہو ، لباس اور کھان پان کے نام پر اسے اپنی جان گنوانی پڑے ، سفر میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر زدو کوب کیا جائے ، کیا ایسے ماحول میں ملک کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے؟اگر واقعی موہن بھاگوت جی چاہتے ہیں کہ ان کا ملک سناتن دھرم کا علمبردار بنا رہے تو انہیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہمارا دھرم پوری دنیا کو ایک خاندان مانتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو باعزت زندگی جینے کا موقع فراہم کرے گا کہ جب تک یہاں کا ہر شہری خوف وہراس کی دنیا سے نجات پا کر بھائی چارے کے ماحول میں زندگی گزارنے کوآزاد نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارے ملک کی معیشت کو استحکام بخشنے میں اس کی حصہ داری یقینی نہیں بن سکتی۔ یہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے اس لئے موہن بھاگوت جی کے بیان کو مرزا اسدا للہ خاںغالبؔ کے اس شعر کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ صرف ’’خط‘‘ کی جگہ ’’بیان‘‘ لکھ کر دیکھئے اور اس کی معنویت پر سنجیدگی سے غور کیجئے تو خود بخود بھاگوت جی کے بیانات کی زیریں لہروں تک ہم پہنچ جائیں گے ؎
دے کے خط ،منہ دیکھتا ہے نامہ بر=کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے۔