• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’مولانا ندیم الواجدی کی علمی کاوشیں اور مختلف موضوعات پر تصانیف اُن کا لازوال کارنامہ ہے‘‘

Updated: October 18, 2024, 5:19 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

مشہور عالم دین، محقق، انشاء پرداز، عربی زبان وادب کے ماہر اور انقلاب کے کالم نویس مولانا ندیم الواجدی بھلے ہی دارِفانی سے دارِ بقاء کو رخصت ہوگئے ہوں مگر ان کی شخصیت اور ان کے علمی کارناموں سے آئندہ نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی۔

Maulana Nadeem Al-Wajdi. Photo: INN
مولانا ندیم الواجدی۔ تصویر : آئی این این

مشہور عالم دین، محقق، انشاء پرداز، عربی زبان وادب کے ماہر اور انقلاب کے کالم نویس مولانا ندیم الواجدی بھلے ہی دارِفانی سے دارِ بقاء کو رخصت ہوگئے ہوں مگر ان کی شخصیت اور ان کے علمی کارناموں سے آئندہ نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد انہوں نے کچھ وقت تک حیدرآباد میں تدریسی خدمات انجام دیں مگر جلد ہی ان کی طبیعت تصنیف و تالیف کی جانب اس طرح راغب ہوئی کہ وہ اخیر وقت تک اس میں اہتمام کےساتھ مصروف رہے۔ مولانا کے دور کے چند موقر علماء سے نمائندۂ انقلاب کے بات چیت کرنے پر انہوںنے یاد کرتے ہوئے مولانا کے علمی کارناموں اور ان کی خدمات کی ستائش کی ۔
 بزرگ عالم دین مولانا عتیق احمدبستوی (استاد دارالعلوم ندوۃ العلماءلکھنؤاور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم رکن ) نے مولانا کے رفع درجات کی دعا کرتے ہوئے انہیںاپنے انداز میں یاد کیا: ’’ وہ مجھ سے (مولانا عتیق احمد بستوی ) سے ایک سال قبل ۱۹۷۴ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ انہیں شروع ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد انہوں نےعربی ادب پر خاص توجہ دی اور مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کے خاص شاگردوں میں رہے۔ ان کی کئی تصانیف ہیں۔ طالب علمی کے دور ہی سے ان کے مضامین رسائل اور اخبارات میںشائع ہونے لگے تھے اور یہ سلسلہ دم ِ واپسیں تک جاری رہا۔ وہ نہایت سادہ مزاج، مخلص، خلیق اور ملنسار تھے۔ کانپور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میںانہیں بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔ ان کا سب سے اہم علمی کارنامہ امام غزالیؒ کی مشہور زمانہ تصنیف احیاء علوم الدین کا سلیس اور جدید انداز میں اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کرنے کے ساتھ اسے وہ تھوڑا تھوڑا شائع بھی کرتے رہے۔ انہوں نے دارالکتاب نام سے کتب خانہ قائم کیا جو اس وقت دیوبند کے چند اہم اور بڑے کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ دارالعلو م کے طلبہ عربی سیکھنے کیلئے اس کتب خانہ  سے استفادہ کیا کرتے رہے۔ وہ عظیم علمی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے۔ ہر موقع پر مجھے یاد کیا کرتے تھے۔  ان کا ایک ہی بیٹا (مفتی) یاسر ہے، اس نے بھی کافی ترقی کی ہے۔ خاص طو رپر گرمی کے ایام میں مولانا مہینہ دو مہینہ کیلئے امریکہ جایا کرتے تھے۔ اس دفعہ بھی گئے تھے اور امید تھی کہ واپسی کےبعد پھرملاقات ہوگی، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند کرے ۔‘‘  
 دارالعلوم دیوبند کے سینئراستاد حدیث مولانا مجیب اللہ گونڈوی نے بھی ان کی علمی خدمات کی ستائش کی۔ مولانا ندیم الواجدی مولانا مجیب اللہ سے ایک سال بعد دارالعلوم سے فارغ ہوئے۔ چونکہ وہ دیوبند ہی میں مقیم تھے اور مولانا دارالاقامہ میں رہتے تھے اس لئے بہت زیادہ ساتھ نہیںرہتا تھا۔ انہوں نے بھی امام غزالی تصنیف احیاء علوم الدین کےاردو ترجمہ کو مولانا ندیم الواجدی کا بڑا کارنامہ قرار دیا اور کہا: ’’ ترجمان دیوبند ان کی ادارت میںشائع ہوتا رہا۔ وہ بہت ہی مخلص اورنیک طبیعت کے مالک تھے۔اپنی صحت سے متعلق  مولانا ندیم الواجدی بہت زیادہ محتاط نہیں رہتے تھے، دیوبند میں کہیں بھی کوئی مجلس یاتقریب ہوتی  وہ حاضر رہتے تھے۔ متعدد مرتبہ میںنے ٹوکا کہ اپنی صحت کا خیال رکھئے۔ وہ لکھنے پڑھنے کے آدمی تھے اور اخیر وقت تک یہی سرگرمی جاری رکھے ہوئے تھے۔ ‘‘
 مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل کے استاد اوراسی ادارے سے فارغ   مولانا محمد عمران نے مولانا کے والد مولانا واجد حسینؒ دیوبندی (شیخ الحدیث، ڈابھیل)، مولانا ندیم الواجدی اوران کے خاندانی پس منظرپر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ’’ مولانا ندیم الواجدی کے والد کے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کئے جانے سے قبل ڈابھیل میں مولانا اکرام علی ؒ شیخ الحدیث تھے۔ مولانا واجدی کی شادی قاری عبداللہ سلیمؒ کی صاحبزادی سے ہوئی، یہ امریکہ میں اور دیوبند میں دینی ادارہ چلاتے تھےجو آج بھی کامیابی کے ساتھ جاری وساری ہے ۔ شادی کےبعد اسی حوالے سےمولانا کی بھی امریکہ آمدورفت شروع ہوئی ۔ ابتداء میں مالی حالت بہتر نہیں تھی لیکن مولانا نے فراغت کے بعد جب کتب خانہ قائم کیا اور کثیر تعداد میںکتابوں کی اشاعت کی تو اللہ پاک نے خوب نوازا اور آپ کاعلمی خانوادہ ایک متمول خانوادہ شمار ہونے لگا۔ مولانا کی تحریر میںبڑی چاشنی، جاذبیت، علمیت، ادب اور ایسی روانی ہوتی تھی کہ پڑھنے والا پڑھتا چلاجائے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی تحریروں اور تصانیف کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ آنے والی نسلیں آپ کی تحریروں سے یقیناً استفادہ کریں گی۔ بلاشبہ یہ خدمات آپ کے لئے صدقہ ٔ جاریہ ہوںگی ۔‘‘  
 مولانا واجدی، طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنے رفقائے درس میں ممتاز تھے۔ مختلف موضوعات اور الگ الگ زبانوں میں تین درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں جو خاص و عام میں مقبول ہوچکی ہیں۔ مولاناموجودہ دور میں اکابر ِدیوبند کی ایک یادگار تھے۔ انہوں  نے مسلمانانِ ہند کی رہنمائی بھی فرمائی اور سلگتے مسائل اور حالاتِ  حاضرہ پر خوب لکھا۔ آپ کے مضامین کا مجموعہ ’رشحات ِ قلم ‘اس کی مثال ہے۔ مولانا ندیم الواجدی کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒسے خاص انسیت اور نسبت تھی، یہی وجہ تھی وہ علی میاں ندوی ؒکی عربی زبان و بیان کےبڑے مداح تھےجبکہ بکثرت حضرت تھانویؒکی شخصیت نیز علمی و روحانی کمالات کا  تذکرہ کیا کرتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK