سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ اِس حج کا خطبہ نہایت اہم ہے، آج کی قسط میں اس کے متن کی الگ الگ راویوں کے ذریعے پیش کی گئی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
EPAPER
Updated: April 05, 2024, 2:45 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبی ؐ کی خصوصی سیریز میں رسول ؐپاک کے حجۃ الوداع کا تذکرہ جاری ہے۔ اِس حج کا خطبہ نہایت اہم ہے، آج کی قسط میں اس کے متن کی الگ الگ راویوں کے ذریعے پیش کی گئی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
نبی کریمﷺ کا منیٰ میں خطبہ
حضرت رافع بن عمرو المزنیؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کے وقت سواری پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، حضرت علیؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب دہرا رہے تھے، سننے والوں میں سے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے، آپ نے خطبے میں ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! سب سے زیادہ حُرمت والا مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہی مہینہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ فرمایا: سب سے زیادہ حرمت والا دن کون سا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا آج کا دن، اور وہ یوم النحر تھا، فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہی شہر سب سے زیادہ عظمت اور عزت والا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت تمہارے لیے اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ مہینہ، یہ دن اور یہ شہر محترم ہے اور یہ اس دن تک محترم ہیں جس دن تم اپنے رب سے ملاقات کروگے۔ کیا میں نے تمہیں یہ بات پہنچا دی ہے، لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں ! یا رسولؐ اللہ! پہنچا دی ہے، تب آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور فرمایا : یا اللہ! گواہ رہنا۔ پھر فرمایا: جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک میری بات پہنچادیں جو موجود نہیں ہیں۔ ‘‘(مجمع الزوائد: ۳/۲۶۹)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ یوم النحر والے خطبے میں آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’لوگو! تم حج کے طریقے سیکھ لو، مجھے امید نہیں کہ میں اس حج کے بعد کوئی حج کرسکوں گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم: ۲/۹۴۳، رقم الحدیث: ۱۲۹۷) بخاری میں یہ اضافہ بھی ہے: ’’ زمانہ گھوم پھر کر پھر اسی ہیئت پر آگیا ہے جس پر اس دن تھا جس دن اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی، سال بارہ مہینے کا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، تین مسلسل یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک رجب ہے، مضر کا جو جمادی الثانی اور شعبان کے بیچ میں ہے۔ ‘‘ (صحیح البخاری: ۴/۱۰۷، رقم الحدیث: ۳۱۹۷)
یوم النحر والے خطبے کے کچھ اور حصے بھی مختلف کتابوں میں ملتے ہیں، مثلاً بخاری شریف میں ہے: ’’تم لوگ بہت جلد اپنے رب سے ملوگے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، دیکھو! میرے بعد گم راہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، جو شخص (یہاں ) موجود ہے وہ (میری باتیں ) اس شخص تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہے، ؛ کیوں کہ بعض وہ لوگ جن جن تک (یہ باتیں ) پہنچائی جائیں گی اُن سے زیادہ (اِن باتوں کو) یاد رکھنے والے ہیں جو سننے والے ہیں۔ ‘‘
(صحیح البخاری:۵/۱۷۷، رقم الحدیث: ۴۴۰۶)
یہ بھی پڑھئے: نبی کریم ﷺ کی منیٰ کیلئے روانگی، خطبہ ٔحجۃ الوداع اور تکمیل دین کی خوشخبری
ایک اور روایت میں یہ اضافہ ہے:
’’یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنی ذات کے سوا کسی پر جرم نہیں کرتا (یعنی جرم کی سزا بہ ہر حال مجرم کو بھگتنی ہوتی ہے) نہ کوئی باپ اپنے بیٹے پر اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم کرتا ہے (یعنی باپ بیٹے کے جرم اور بیٹا باپ کے جرم کا ذمہ دار نہیں ہوتا) یاد رکھو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لئے کسی بھائی کی وہ چیز اس وقت تک جائز اور حلال نہیں جب تک وہ خود اس کو حلال اور جائز نہ کردے، دیکھو! جاہلیت کے زمانے کا ہر سود اب ختم ہے، تمہارے لئے صرف وہ مال ہے جو اصل ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، اور نہ تم کسی کا ظلم برداشت کرو، عباس بن عبد المطلب کا تمام سود بھی اب ختم ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ:۲/۱۰۲۲، رقم الحدیث: ۳۰۷۴)
حضرت انس بن مالکؓ نے اس خطبے کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو سر سبز وشاداب رکھے جس نے میری حدیث سنی، اسے یاد کیا اور یاد رکھا، پھر اس تک پہنچایا جس نے وہ حدیث سنی نہیں تھی، بہت سے لوگ سمجھ دار نہیں ہوتے مگر سمجھ کی باتیں اٹھائے پھرتے ہیں، اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو سمجھ والی باتیں اپنے سے زیادہ سمجھ والوں تک پہنچاتے ہیں۔ ‘‘
(الترغیب والترہیب:۱/۱۱۱، رقم الحدیث: ۹۵)
حضرت جبیر بن مطعمؓ نے یہ زیادتی نقل کی ہے ’’فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت نہیں کرتا، اللہ کے لئے اخلاصِ عمل، مسلم حکم رانوں کے لیے خیر خواہی، اور ان کی جماعت سے وابستگی، بلاشبہ ان کی دُعا پچھلے لوگوں کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ ‘‘
(مسند احمد بن حنبل:۲۷/۳۱۸، رقم الحدیث: ۱۶۷۵۴)
حضرت احوصؓ اپنے والدؓ سے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں ’’یاد رکھو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ اس شہر میں کبھی اس کی پرستش کی جائے گی، لیکن تم ان چیزوں میں اس کی اطاعت کروگے جن کو تم معمولی سمجھتے ہو اور وہ اس پر راضی ہوجائے گا، اے میری امت کے لوگو! کیا میں نے تم تک (دین کی بات) پہنچا دی ہے؟ آپؐ نے یہ سوال تین مرتبہ کیا، لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں ! اس کے بعد آپ نے تین دفعہ یہ فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲/۱۰۱۵، رقم الحدیث: ۳۰۵۵)
حضرت عمرو بن خارجہؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : ’’اللہ نے ہر وارث کے لئے اس کا حصہ مقرر فرمادیا ہے، وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں، بچہ اس شخص کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا، اور بدکار کے لئے سنگساری ہے، جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کرتا ہے یا وہ اپنے حقیقی آقا کے بجائے کسی دوسرے کو اپنا آقا ٹھہراتا ہے اس پر اللہ کی اور اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کا کوئی بدل یا اس کا کوئی عوض قابل قبول نہ ہوگا۔ ‘‘ (مصنف عبد الرزاق: ۹/۴۷، رقم الحدیث:۱۶۳۰۶)
حضرت ام الحصینؓ نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں : ’’اگر کوئی حبشی غلام جس کا نسب معلوم نہ ہو تمہارا امیر بنادیا جائے اور وہ تمہیں اللہ کی کتاب کے مطابق لے کر چلے تمہارے لئے اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا ضروری ہوگا۔ ‘‘ (صحیح مسلم:۳/۱۴۶۸، رقم الحدیث: ۱۸۳۸) حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! دین میں غلو کرنے سے احتراز کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی قومیں دین میں غلو کرنے کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئی ہیں۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل: ۵/۲۹۸، رقم الحدیث: ۳۲۴۸) ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں : ’’دیکھو! تم نے مجھے دیکھ لیا ہے، میری باتیں سن لی ہیں، عنقریب تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا، جس نے بھی مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل: ۳۸/۴۸۲، رقم الحدیث: ۲۳۴۹۷)
قربان گاہ میں
خطبے کے بعد آپؐ منیٰ کی قربان گاہ میں تشریف لے گئے اور وہاں اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹ ذبح کئے۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی، پھر آپؐ رُک گئے، اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ باقی اونٹ وہ ذبح کریں۔ آپؐ اپنے ساتھ سو اونٹ لے کر گئے تھے۔ قربانی کے بعد آپؐ نے حجام کو طلب کیا، اس نے آپ کے بال کاٹے، لبیں تراشیں، ان کاموں سے فراغت کے بعد آپؐ طواف افاضہ کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر آپؐ سیدھے مسجد حرام میں تشریف لے گئے، خانۂ کعبہ کا طواف کیا، ظہر کی نماز ادا فرمائی، پھر زم زم کے کنویں پر تشریف لے گئے۔
زم زم کے کنویں پر بنی عبد المطلب سقایہ کی خدمت انجام دے رہے تھے، آپؐ نے ان سے فرمایا: مجھے بھی پانی نکال کردو، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ تم سے سقایہ کی خدمت نہ چھین لیں تو میں خود کنویں سے پانی نکال کر پیتا، چنانچہ انہوں نے ڈول میں زم زم نکال کر دیا، آپؐ نے وہیں نوش فرمایا۔ پھر آپؐ اسی روز منیٰ واپس تشریف لے گئے، رات میں وہیں قیام فرمایا، اگلے دن زوال شمس کے بعد تینوں جمروں کی رمی کی، پہلے جمرۂ اولی کی، پھر درمیانی جمرے کی، اس کے بعد جمرۂ عقبی کی۔ (صحیح مسلم: ۲/۸۸۶، رقم الحدیث: ۱۲۱۸، السیرۃ النبویۃ ص:۶۶۳)
منیٰ میں ایک اور خطبہ
قربانی کے دوسرے روز آپؐ نے ایک اور خطبہ ارشاد فرمایا: یہ خطبہ پچھلے دوخطبوں ہی کے مضامین پر مشتمل تھا، حضرت ابو نجیح ؓبنی بکر کے دو آدمیوں سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے ایام تشریق کے درمیانی دنوں میں سے ایک دن آپؐ کو منیٰ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپؐ اس وقت اونٹنی پر سوار تھے، ہم لوگ آپؐ کے قریب ہی موجود تھے، آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو آج کون سا دن ہے، اور یہ وہ دن تھا جسے یوم الرؤس کے نام سے جانا جاتا تھا، سب لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ ایام تشریق کا درمیانی دن ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ مشعرِ حرام ہے، میں نہیں جانتا کہ آج کے بعد مَیں تم سے مل پاؤں گا، یاد رکھو! تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے، اور یہ شہر حرمت والا ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو، عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کریگا، خبر دار! تمہارا قریب والا تمہارے دور والے کو یہ باتیں بتلا دے۔ کیا میں نے یہ باتیں تم تک پہنچا دی ہیں، لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، عربی کو عجمی پر، عجمی پر عربی کو، سیاہ کو سرخ پر اور سرخ کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت صرف تقوے کی بنیاد پر ہے۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل:۳۸/۴۷۴، رقم الحدیث: ۲۳۴۸۹، مجمع الزوائد: ۳/۲۶۶، رقم الحدیث: ۵۶۲۲)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آج ہی کے دن سورۂ نصر نازل ہوئی۔ (مجمع الزوائد: ۳/۲۶۶، رقم الحدیث: ۵۶۲۲)۔