• Tue, 04 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ممبئی مل تا مال، کالی پیلی تا اولا اُبر اور شادیوں میں پلاؤ تا طویل مینو

Updated: February 03, 2025, 11:12 AM IST | Ahmed Zia Ansari | Mumbai

تبدیلیاں تقریباً ہر شعبے میں آئی ہیں۔ شہر کا لینڈ اسکیپ بدلا، چالیاں ختم ہوئیں، مختصر عمارتوں کی جگہ کثیر منزلہ عمارتوں نے لی، سنگل اسکرین تھیٹروں کے چراغ بجھ گئے اور ملٹی پلیکس کی شمعیں روشن ہوگئیں۔ مزید کیا بدلا یہ اِس مضمون میں پڑھئے۔

These pictures reflect the changing image and development of Mumbai. Photo: INN
یہ تصویر ممبئی کی بدلتی تصویر اور ترقی کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصویر: آئی این این

انگریزی میں کہا وت ہے ’چینج اِز کانسٹنٹ‘ (Only change is constant)۔ اُردو میں اس کا بہترین متبادل اقبال کا مصرعہ ہے: ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ واقعہ ہے کہ زندگی میں چیزیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔ پھر چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ وقت کے ساتھ اس کا بدلنا فطری ہے۔ اوروں کی طرح ہم نے بھی بچپن سے لے کر اب تک بہت کچھ بدلتے دیکھا ہے۔ چاہے رشتے ناطے ہوں یا پھر دوست احباب کا برتاؤ۔ ویسے ہم یہاں کسی جذباتی یا خاندانی رشتوں کے بدلنے کی بات نہیں کرینگے بلکہ اس مایا نگری ممبئی کو جس طرح سے بدلتے ہوئے دیکھا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے دیکھا ہے اس کا احاطہ کریں گے۔ 
 ۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے کسی بھی انسان سے اگر سوال کریں کہ اس نے بچپن سے لے کر اب تک خوابوں کے اس شہر میں کیا کیا تبدیلیاں یا ترقیاں دیکھی ہیں تو اس کے پاس یقیناً بتانے کیلئے بہت کچھ ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہیں گے ہم نے بامبے کو ممبئی میں بدلتے دیکھا ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ اس شہر، جسے ہندوستان کی معاشی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے، کو بدلتے نہیں بلکہ ترقی کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے ۷۰ء کی دہائی میں تاردیو کی ’’اوشا کرن‘‘ بلڈنگ دیکھی ہے جو اُس وقت کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ ۲۵؍ منزلہ یہ عمارت ہمارے بچپن میں گاؤں سے آنے والوں کیلئے کسی سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتی تھی۔ جو بھی حاجی علی درگاہ کی زیارت کیلئے آتا وہ اس عمارت کا دیدار کرتا تھا۔ اب تو شہر کے تقریباً ہر علاقے میں ۳۰؍ یا اس سے زیادہ منزلوں کی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ اونچی اونچی عمارتوں کا چلن عام ہوگیا ہے جوممبئی کے ایک اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرنے کی علامت ہے۔ حالانکہ اب دھیرے دھیرے مڈل کلاس طبقے کا شہر میں رہنا کچھ حد تک دشوار ہوگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اب دور دراز علاقوں میں مکان خرید رہے ہیں اس سے بھی یہ فائدہ ہورہا ہے کہ مضافات آباد ہوگئے ہیں۔ 

یہ تصاویر ممبئی کی بدلتی تصویر اور ترقی کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصویر:آئی این این

 ہمارے دور میں ممبئی میں گنے چنے سیاحتی مقام ہوا کرتے تھے۔ گیٹ وے آف انڈیا، جوہو چوپاٹی، مرین ڈرائیو، رانی باغ، وغیرہ۔ مختلف سمندری کناروں کو ایک نام دے کر انہیں تفریحی مقام کا درجہ مل گیا ہے۔ اب حالات مختلف ہیں۔ طرح طرح کے امیوزمنٹ پارک، ریزارٹس اور واٹر پارک اب زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ ایسل ورلڈ، ٹکو جی نی واڑی، اِمیجیکا اور کئی طرح کے واٹر پارک ممبئی کے سیاحتی مراکز بن چکے ہیں چنانچہ سیر سپاٹے کیلئے صرف ساحل سمندر ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ بچپن میں ہماری تفریح کا سب سے اہم ذریعہ گلی محلوں میں پردے پر دکھائی جانے والی فلمیں ہوا کرتی تھیں۔ گنپتی کے تہوار کا شدت سے انتظار رہتا تھا کیونکہ اس دوران ۸؍ سے ۱۰؍ روز تک مختلف پنڈالوں کے باہر رات کو مختلف ہندی فلمیں پردہ باندھ کر دکھائی جاتی تھیں۔ ۷۰ء کی دہائی میں ممبئی میں سنگل اسکرین سنیما ہال ہوا کرتے تھے۔ ملاڈ کے سویرا ٹاکیز میں فلم دیکھنے کیلئے پورے ہفتے ملنے والا جیب خرچ جمع کیا جاتا تھا جو اُ س وقت بمشکل ۱۰؍پیسے ہوا کرتا تھا۔ اگر گھر میں کوئی مہمان آجاتا تو اُمید رہتی تھی کہ جاتے وقت شاید کچھ یافت ہو جائے۔ اگر چار آنے مل گئے تو پھر کیا کہنا۔ ایک روپیہ جمع کرنے کیلئے بھی کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اور جاکر دوستوں کے ساتھ گیٹ نمبر پر ۵؍پر واقع سویرا تھیٹر میں فلم دیکھنے کا موقع مل پاتا تھا۔ آج اسی سنگل اسکرین سویرا تھیٹر کی جگہ ملٹی پلیکس ہے جہاں ۳۰۰؍ سے ۴۰۰؍روپے کا ٹکٹ بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ سنگل اسکرین کا رواج تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ نیٹ فلکس اور دیگر او ٹی ٹی پلیٹ فارم متعارف ہونے کے بعد اب لوگ اپنے موبائل ہی پر فلمیں دیکھ لیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس فلم دیکھنے کے بعد گھر لوٹنے کیلئے بس کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے اور پیدل ہی راستہ ناپنا پڑتا تھا۔ 
 ’بس‘ کی بات سے یاد آیا کہ ۷۰ء کی دہائی میں مالونی سے ملاڈ جانے کا فل ٹکٹ ایک روپیہ ہوتا تھا جبکہ ہاف ٹکٹ ۵۰؍ پیسے تھا۔ اس دور میں بیسٹ کی بس اور کالی پیلی ٹیکسی کے علاوہ سڑک پر آمد رفت کااور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ جن کے پاس اپنی کار ہوتی تھی ان کا شمار رئیسوں میں ہوتا تھا۔ بقیہ شہریوں کیلئے تو ممبئی کی لوکل ٹرین اور بیسٹ کی بسیں واحد سہارا تھیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اُس زمانے میں آبادی اتنی نہیں تھی، اس لئے سفر کے دوران بھیڑ بھاڑ کا سامنا نہیں ہوتا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ آبادی میں زبردست اضافہ ہوا اور آمد و رفت کے نئے نئے ذرائع پیر پسارنے لگے۔ کالی پیلی ٹیکسی کے بعد آٹو رکشا نے سر ابھارا اور اس نے ممبئی و مضافات میں ایسا جال بچھا یا کہ جدھر دیکھو اب ٹیکسی سے زیادہ آٹو رکشا نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایپ سے چلنے والی گاڑیوں کا بھی اپنا جلوہ ہے۔ لوگ موبائل سے بکنگ کرتے ہیں اور گھر کے دروازے پر اولا یا اوبر کی ٹیکسیاں بلا لیتے ہیں۔ سڑکوں کا نظام بھی کافی تیزی سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ کنکریٹ کی سڑکیں بنانے کے ساتھ حکومت نے کئی فلائی اوور بھی بنائے ہیں۔ کوسٹل روڈ کا کام جنگی پیمانے پر چل رہا ہے۔ سمندر پر سی لنک بن گیا ہے۔ اسی طرح ٹرانس ہاربر بریج، جسے اٹل سیتو کہتے ہیں، وہ بھی گاڑی سے سفر کرنے والوں کیلئے بڑی شاہانہ سہولت ہے۔ اے سی لوکل اور اے سی بسوں کے ساتھ ساتھ میٹرو اور مو نو ریل بھی ممبئی کی شان بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 
 بچپن میں، ایک بار، کسی عزیز کی شادی میں اندھیری جانا تھا تو والد صاحب ہمیں ٹیکسی میں لے گئے تھے۔ پہلی بار ٹیکسی میں بیٹھنے کی خوشی آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ شادی بیاہ میں، اُس دور میں، پلاؤ ملتا تھا یا پھر دال گوشت۔ ۷۰ء کی دہائی کے اخیر میں اگر کسی جان پہچان یا رشتہ دار کے یہاں شادی میں چکن بریانی کا انتظام ہوتا تو حیرت انگیز مسرت ہوتی تھی۔ چکن بریانی اس وقت شادی بیاہ میں شاذ و نادر ہی بنا کرتی تھی۔ 
  پیسے کی ریل پیل کے سبب شاد ی بیاہ میں ہمہ اقسام کھانوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ’’مینو‘’ طویل ہوگیا۔ ہم جو دال گوشت کھاکر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اب صرف اسٹارٹر میں بھی ۳۔ ۴؍قسم کے چکن کے آئٹم بآسانی حلق سے اُتار لیتے ہیں۔ اس کے بعد کم از کم ۲؍قسم کا سالن، چاول، نان، کئی قسم کے شربت اور آئس کریم نہ ہو تو شادی ادھوری لگتی ہے۔ شادیوں میں مختلف قسم کے کاؤنٹر بھی لگنے لگے ہیں۔ چاٹ کا کاؤنٹر تو چائے کافی کا کاؤنٹر، پانی پوری اور ربڑی جلیبی کا کاؤنٹر اور ایسا ہی بہت کچھ۔ فضول خرچی کافی بڑھ گئی ہے۔ لوگ باگ اپنی شان (چاہے جھوٹی ہی کیوں نہ ہو) دکھانے کیلئے قرض لےکر صرف شادی کے کھانوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے لگے ہیں۔ پہلے شادیاں گلی محلوں میں پنڈال لگاکر ہوجایا کرتی تھیں لیکن اب شادی ہال اور ہوٹلوں میں شادی کا دَور ہے۔ ایک طرف ترقی ہورہی ہے اور دوسری طرف لوگ اپنی روایات کو بھلا کر مغربی کلچر اپنانے لگے ہیں۔ شادی بیاہ میں نیا ’’ٹرینڈ‘‘ ڈیسٹینیشن ویڈنگ کا ہے۔ ڈیزائنر لباس بھی معمول کی بات ہے۔ جیسے ایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں ہوتی ہیں ویسے ہی میریج مینجمنٹ ادارے وجود میں آگئے ہیں۔ اس نوع کی خدمات فراہم کرنے والوں کو ’’ویڈنگ پلانرس‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
 ممبئی کو ہم نے ہر شعبہ میں بدلتے اور ترقی کرتےہوئے دیکھا، ٹرنک کال سے پیجر کا دور دیکھا تو لینڈ لائن سے موبائل فون کا سفر دیکھا۔ ممبئی جو کبھی کپڑوں کی مل کیلئے مشہور تھا اسے مل سے مال تک میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ شہر میں ایسے مالس بن گئے ہیں جہاں ایک چھت کے نیچے ہر چیز دستیاب ہے۔ چند منزلہ عمارتوں کے بجائے فلک بوس عمارتیں آ گئی ہیں۔ چونّی اور اٹھنّی تو کیا، سو اور پانچ سو کا نوٹ بھی بے قیمت ہوگیا کہ اس کی جگہ ڈیجیٹل ادائیگی کا رجحان فروغ پاگیا۔ ڈبل ڈیکر کی بس جو کبھی ممبئی کی شان تھی اے سی بسوں میں تبدیل ہوگئی۔ البتہ ایک چیز جو نہیں بدلی وہ ناگہانی حالات میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہے۔ کئی دن کی شدید بارش کی وجہ سے ممبئی پانی میں ڈوب رہا ہو یا لوکل ٹرین میں کوئی حادثہ پیش آئے، ممبئی کے شہری بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کی مدد کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK