• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسلم منافرت: منظر پسِ منظر

Updated: July 25, 2024, 2:33 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام اپوزیشن اتحاد ملک کے آئین کے تحفظ کیلئے ملک گیر سطح پر بین المذاہب اتحاد کی تحریک شروع کریں اور اس میں سیکولر ذہن کے شہریوں کی شمولیت کو یقینی بنائیں ۔ یوپی میں جس طرح کا ماحول ہے اس میں مسلم تنظیموں کے سربراہان کو دلت طبقے کے قومی، ریاستی اور مقامی سطح کے لیڈروں سے مل کر تحریک شروع کرنی ہوگی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستان میں جس سیاسی جماعت کی حکومت ہے اور وہ کس نظریے کی علمبردار ہے اس سے دنیا واقف ہے۔ اس لئے اس سیاسی جماعت نے بر سراقتدار ہوتے ہی اپنے دائمی ایجنڈوں کو فروغ دینے کا کام شروع کیا اور جستہ جستہ اس کے ایجنڈے کی عملی صورت میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ حالیہ مظفرنگر کی پولیس انتظامیہ اور پھر حکومت اتر پردیش کے ذریعہ جو سرکاری حکم نامہ جاری ہوا ہے وہ بر سر اقتدار حکومت کے ایجنڈوں کا ایک نیاحصہ ہے۔ واضح رہے کہ جب یہ حکومت ایک دہائی پہلے مرکز میں اقتدار میں آئی تھی تو اس سے پہلے انتخابی جلسوں میں جس طرح کی ماحول سازی کی گئی تھی اس کی فوری عملی صورت حکومت سازی کے بعد نظر آنے لگی تھی جب ہی سے ہجومی تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی گائے کے گوشت کے نام پر تو کبھی لو جہاد کے نام پر، قبرستان اور دیوالی اوررمضان کے نام پر، پھر کپڑوں سے پہچاننے کا اعلان اور حالیہ پارلیمانی انتخاب کے تشہیری جلسوں میں اعلانیہ طورپر مسلم اقلیت کے خلاف ملک کے اکثریت طبقے کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔ ظاہر ہے کہ بر سراقتدار حکومت کے سربرا ہ ہی جب اعلانیہ طورپر مسلم اقلیت کے خلاف نفرت انگیز ی کو فروغ دے رہے ہوں تو پھر ان کے حامیوں کے ذریعہ اپنے آقا کے نظریے کو فروغ دینا تو ان کے فرائض میں شامل ہوگیا ہے۔ 
تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد جس تنظیم نے اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی تھی اسی تنظیم کے پروردہ کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے اور نہ صرف مرکز میں بلکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بھی ان ہی کی حکومت ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں اس طرح کے سرکاری حکم ناموں کا جاری ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مسلم اقلیت کے خلاف صرف حالیہ حکومت کی ہی پالیسی نہیں ہے بلکہ اس حکومت کے آنے سے پہلے مرکز میں اور ملک کی مختلف ریاستوں میں جن مبینہ سیکولر سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے وہاں بھی مسلم اقلیت کے خلاف تعصبانہ نظریہ فروغ دیا جاتا رہا ہے مگر اس وقت وہ نظریہ زیریں لہروں کی مانند تھا اور آج اس کی حیثیت تلاطم کی ہوگئی ہے۔ دراصل پہلی دفعہ جب مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت تھی اور اس وقت بھی قومی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی تو مسلم مخالف ماحول سازی کی حکمت عملی بالکل الگ تھی۔ لیکن سرکاری دفاتر اور آئینی اداروں میں مسلم اقلیت مخالف نظریے کے علمبرداروں کو بیٹھانے کا کام شروع ہوگیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ مرکز میں پھر یوپی اے کی واپسی ہوئی مگر اس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی کہ ملک کے آئین کے پاسداروں کے ذریعہ ہی آئین کی روح کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص منموہن سنگھ کی ایک دہائی کی حکومت میں کبھی بھی ایسی کوشش نہیں ہوئی کہ ملک میں مسلم منافرت کا بیج بونے والوں پر نکیل کسا جا سکے اور ملک میں بین المذاہب اتحاد کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس تلخ سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس ملک کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس میں رجعت پسند اور شدت پسند وں کی شمولیت نہیں ہے۔ آج نگاہ اٹھا کر دیکھئے تو خود بخود اندازہ ہوگا کہ موجودہ حکمراں جماعت کی صف میں کون کہاں سے آئے ہیں اور ان کی اشتعال انگیزی کس قدر ملک میں مذہبی منافرت کو فروغ دے رہی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت وسوا شرما اس کی زندہ مثال ہیں، انہوں نے کس طرح کانگریس چھوڑنے کے بعد زہر افشانی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ حال ہی میں شرما کا بیان آیا ہے کہ آسام میں اقلیت طبقے کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور وہ اکثریت طبقے کے برابر ہونے والے ہیں ۔ اس گمراہ کن بیان بازی کا مقصد صرف اور صرف آسام کے اکثریت طبقے کے لوگوں کے ذہن ودل میں مسلم اقلیت کے خلاف چنگاری کو شعلہ بنانے کی سازش ہے۔ اترانچل کے وزیر اعلیٰ کی بیان بازی بھی گزشتہ ایک سال سے کس طرح کی منافرت کو فروغ دے رہی ہے اس سے بھی ہم نا واقف نہیں ہیں۔ 
بہر کیف! اب جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعہ ریاست کے تمام مسلم چھوٹے بڑے تاجروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی دکانوں پر اپنے نام کی تختیاں لگائیں تاکہ کانوڑیوں کو کسی طرح کی غلط فہمی نہ ہو۔ دراصل مظفر نگر سے اس شوشے کا آغاز ہوا تھا کہ مظفر نگر کی پولیس نے پہلے مقامی سطح کیلئے حکم صادر کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ مظفرنگر۲۰۱۳ء سے ہی مذہبی منافرت کا ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے اور اس پارلیمانی انتخاب میں وہاں سے بر سر اقتدار پارٹی کی شکست شدت پسند تنظیموں کے لئے ایک بڑا زخم ثابت ہوا ہے اس لئے اتر پردیش میں مسلم منافرت کا ایک نیا روپ سامنے آیا ہے۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام اپوزیشن اتحاد ملک کے آئین کے تحفظ کے لئے ملک گیر سطح پر بین المذاہب اتحاد کی تحریک شروع کریں اور اس میں سیکولر ذہن کے شہریوں کی شمولیت کو یقینی بنائیں ۔ اس وقت اتر پردیش میں جس طرح کا ماحول ہے اس میں مسلم تنظیموں کے سربراہان کو دلت طبقے کے قومی، ریاستی اور مقامی سطح کے لیڈروں سے رابطہ قائم کرکے تحریک شروع کرنی ہوگی۔ حال ہی میں چندرشیکھر راون ممبر پارلیمنٹ بنے ہیں۔ وہ دلت طبقے کی جنگ کے ساتھ ساتھ اقلیت طبقے کے ساتھ ظلم کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں اس لئے اگر ان کی اور ان جیسے انصاف پسند اور آئین کے پاسدارلیڈروں کے ساتھ مل کر اتحادی مہم کا آغاز ہوگا تو خود بخود مسلم منافرت کے ایجنڈے ناکام ہوں گے اور ملک کے آئین کی روح مجروح ہونے سے محفوظ ہو سکے گی۔ دراصل ملک میں جس طرح بیروزگاری کا گراف بلند ہو تا جا رہاہے، تمام آئینی اداروں میں بدعنوانیوں کا بول بالا ہے اب یو پی ایس سی جیسے آئینی ادارے کی بھی پول کھل گئی ہے اور این ٹی اے کی حقیقت بھی سامنے آچکی ہے ایسے وقت میں ملک کے اکثریت طبقے کے ذہن کو تبدیل کرنے کا صرف ایک ہی آلہ ہے کہ ملک میں مذہبی منافرت کی ماحول سازی کی جائے۔ حالیہ اترپردیش حکومت کا حکم نامہ بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK